• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

متحدہ اپوزیشن نے مل کر پی ٹی آئی کی حکومت گرائی تھی اس کے بعد پھر توڑ جوڑ شروع ہو چکا ہے سب سے بڑی چیز جو مانگی گئی ہے و ہ پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین اور سابق صدر زرداری صاحب نے پیپلز پارٹی کیلئے آنے والے الیکشن میں پنجاب سے 20ایم این ایز اور اُس کے 40ایم پی ایز کی ڈیمانڈ کی ہےجو کہ بظاہر بہت مشکل ہے کہ مسلم لیگ (ن)اپنی سیٹوں کی قربانی دے۔اس وقت تو جلدی میں سب نے جوڑ توڑ کرنا تھا تو پہلا ٹارگٹ تھا کہ حکومت جائے تو وہ چلی گئی۔جب گئی ہے تو اس کے بعد اب ان کے مطالبات آنا شروع ہوگئے ہیں۔دوسرا سب سے بڑا مسئلہ جے یو آئی کاہے کیونکہ جے یو آئی نے ہی یہ ساری کمپین چلائی اور مولانا اس وقت مکمل طور پر باہر بیٹھے ہوئے ہیں۔ کیا مصلحت ہے یہ سمجھ میں نہیں آرہی،آج ایک مہینہ ہو نے والا ہے لیکن مولانا صاحب کا کوئی کردار نظر نہیں آرہا،وہ صدر سے کم کوئی عہدہ لینےپر تیار نہیں ہیں۔اس پر پیپلز پارٹی والوں کابھی حق بنتا ہے اورزرداری صاحب اپنا یہ حق چھوڑنے پر تیار نہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ مسئلہ پیپلز پارٹی نواز شریف سے مل کر کرے گی کیونکہ نواز شریف صاحب کسی بھی وقت موقع ملتے ہی پاکستان آئیں گے اور یقیناً اب ان کی ضرورت محسوس کی جا رہی ہے کیونکہ نواز شریف صاحب ہی اس کا کوئی ایسا حل نکالیں گے کہ جو دونوں کو قبول ہوگا۔

اب آئیے گورنر ی کی طرف۔متحدہ کی 7سیٹوں کے جواب میں 5گورنروں کے نام آچکے ہیں کہ ان میں سے ایک گورنر سلیکٹ کیا جائے۔پیپلز پارٹی نے دیگر معاملات دیکھنے ہیں کیونکہ گورنر مرکز کا نمائندہ ہوتا ہے،مرکز شہبازشریف کے پاس ہے، صوبہ پیپلز پارٹی کے پاس ہے۔مسلم لیگ (ن)اور مولانا فضل الرحمان نے متحدہ کو ضمانت دی ہے کہ پیپلز پارٹی متحدہ کے جو بھی مطالبات ہیں وہ مانے گی اور عملاً ان کو میئر شپ اور دیگر مطالبات پورا کرے گی۔

دوسری جانب توشہ خانہ کیس کا معاملہ اس وقت سنجیدہ رُخ اختیار کر گیا جب وزیراعظم شہباز شریف نے صحافیوں سے ملاقات میں اس کی تفصیلات بتائیں۔ان کا کہنا تھا کہ سابق وزیراعظم عمران خان نے توشہ خانہ سے ملنے والے تحائف قواعد و ضوابط کے برعکس4 کروڑ روپے میں دبئی میں فروخت کئے۔ان تحائف میں قیمتی گھڑیاں، ڈائمنڈ جیولری، بریسلٹ اور دیگر زیورات شامل ہیں۔ مسلم لیگ(ن) کی ترجمان مریم اورنگزیب نے کہا ہے کہ توشہ خانہ سے گولڈ پلیٹڈ کلاشنکوف بھی غائب ہے،جو بنی گالہ سے برآمد کی جائے گی۔

جہاں تک توشہ خانہ کا معاملہ ہے جو خصوصاً مسلم لیگ (ن) اچھال رہی ہے کہ4کروڑ کے عوض اتنی قیمتی اشیا سابق وزیر اعظم عمران خان لے گئے اور ان کو بیچ دیا تو میں یہاں بتاتا چلوں کہ جب پیپلز پارٹی کی حکومت تھی تو ایک ایسا ہار جو ترک خاتونِ اول نے پاکستان میں زلزلہ زدگان کی مدد کے لیے دیا تھا، بغیر ایک پیسہ دئیے ہو ئے وہ کروڑوں روپے کا ہار وزیر اعظم گیلانی کروڑوں روپے کا وہ ہار کچھ بھی دیے بغیر اپنے ساتھ لے گئے۔مسلم لیگ کے دور میں بے پنا ہ تحائفملے،بے پنا ہ تحائف پیپلز پارٹی کے دور میں بھی ملے۔مریم اورنگزیب یہ نہیں بتاتیں کہ ان کے وزیر اعظم اور صدر کتنے تحائف لے گئے۔آج تک توشہ خانے سے ساری چیزیں غائب ہو چکی ہیں اور 30سالہ دور میں 4کروڑروپے بھی کسی نے نہیں دئیے۔

اب تک جو بھی غیر ملکی تحائف دیے گئے ان سب کی تفصیلات سامنے آنی چاہئیں، نیب سےساری انکوائری کرائی جائے تا کہ آج تک توشہ خانے سے کیا کیا چیزیں کون کون سربراہِ مملکت لے کر گیا ہے اور اس کے عوض کتنا پیسہ توشہ خانہ میں جمع کرایا گیاسب سامنے آئے۔پھر جا کر توشہ خانے کا حساب ہو گا۔ورنہ یہ ایک مفروضہ ہے جو کہ پی ٹی آئی کو بدنام کرنے کیلئے ہے،جب کچھ نہیں مل رہا کرپشن میں تو انہوں نے توشہ خانہ کو ٹارگٹ بنایا ہوا ہے۔

تحریک انصاف نے ملک بھر میں الیکشن کمیشن دفاتر کے سامنے احتجاج کی جو کال دی ہے، وہ واضح طور پر الیکشن کمیشن کو دباؤ میں لانے کی ایک کوشش نظر آتی ہے۔ اس سے پہلے الیکشن کمیشن کے اسلام آباد آفس کے سامنے سیاسی جماعتیں مختلف ایشوز پر احتجاج کرتی رہی ہیں تاہم ملک بھر میں الیکشن کمیشن دفاتر کے باہر احتجاج کی کال تحریک انصاف نے پہلی بار دی ہے۔

یہاں یہ امر بھی قابلِ ذکر ہے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ نے الیکشن کمیشن کو حکم دیا تھا کہ وہ روزانہ سماعت کرکے ایک ماہ میں اس کیس کا فیصلہ کرے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے اس فیصلے کو تحریک انصاف نے انٹراکورٹ اپیل میں چیلنج کر رکھا ہے وہاں سے اسے ریلیف بھی مل گیا ہے۔ جسٹس اطہرمن اللہ اور جسٹس بابر ستار پر مشتمل ڈویژن بنچ نے کیس کا فیصلہ 30روز میں کرنے کا عدالتی حکم معطل کر دیاہے۔یہ کیس8 سال پہلے تحریک انصاف ہی کے اکبر ایس بابر نے الیکشن کمیشن میں دائر کیا تھا جو پارٹی کے بنیادی رکن رہے اور جن کے پاس اس حوالے سے شواہد اور تفصیلات بھی موجود ہیں۔ اب تحریک انصاف کا موقف یہ ہے کہ اس کی طرف سے پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے خلاف جو کیس دائر کئے گئے ہیں، ان کی سماعت بھی اس کیس کے ساتھ کی جائے حالانکہ وہ کیس بہت بعد کے ہیں جبکہ پی ٹی آئی کے خلاف فارن فنڈنگ کیس کو8 سال ہو چکے ہیں۔

الیکشن کمیشن کو چاہئے کہ ساری سیاسی جماعتوں کو کتنی فارن فنڈنگ آئی اس کا بھی حساب کرے۔یہ فارن فنڈنگ کیس صرف عمران خان یا تحریک انصاف کے لیے ہی کیوں؟

تازہ ترین