• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

33 سالہ بلاول بھٹو زرداری نے بھلے ہی آکسفورڈ یونیورسٹی سے جدید تاریخ اور سیاسیات میں ڈگری حاصل کر رکھی ہے مگر اسٹیٹس مین بننے کیلئے انہیں ہنوزاستروں کی مالا پہن کر جمہوری پگڈنڈیوں پر طویل سفر طے کرنا ہوگا۔ مانا کہ وہ پاکستان کی تاریخ کے کم عمر ترین وزیر خارجہ بننے میں کامیاب ہو گئے، زمانہ انہیں دخترِ مشرق کے بیٹے، ذوالفقار علی بھٹو کے نواسے اور آصف علی زرداری کے فرزند کے طور سے جانتا ہے لیکن عالمی زمانہ اور ہے، قومی زمانہ اور! صداقتِ عامہ ہے کہ بین الاقوامی دِلوں کی دھڑکن میں بسنے کیلئے اِس زمانے میں سائنس، انجینئرنگ وٹیکنالوجی کی شاہراہ پر گامزن ہونا پڑتا ہے۔ اور یہاں قوم کا مزاج یہ کہ جذباتی راہوں کی مسافت، افسانوں کی چاشنی، ثقافتوں کی بغل گیری، مذہبی کارڈوں کا گرداب، تعصبات کے بھنور، نوجوانوں کے رگ و پے میں ناخواندگی کے جراثیموں کی کثرت، مکالمے کی بیخ کنی کے موسموں، سہل پسندی کے اثرات اور سیاسی و جمہوری نیم حکیموں کی بہتات حقیقی ترقی کی راہ کی بڑی رکاوٹیں ہیں۔

اندرونی و بیرونی چیلنجز سے نبرد آزماہونے کا جو بیڑا بلاول بھٹو نے اٹھایا ہے اور وزیر خارجہ کا حلف اٹھانے سے قبل میاں نواز شریف سے ایک طویل نشست بھی برطانیہ میں انجوائے کی، وزیراعظم شہباز شریف کو میاں نواز شریف کے بعد فوقیت دی، اسسٹنٹ کے طور سے اچھی شہرت رکھنے والی سابق وزیر خارجہ حنا ربانی کھر کو بطور وزیرِ مملکت برائے خارجہ امور ساتھ رکھا، ان سب چیزوں کے کچھ مطالب ہیں جو مطالبات کے پیرہن میں تھوڑے عیاں اور کچھ پوشیدہ ہیں۔

بلاول نے قلیل مدت کی وزارت کیوں قبول کی؟ وہ تو چیئرمین پیپلزپارٹی ہیں، بطور ’’منشی‘‘ وزیراعظم شہباز شریف کے سیاسی گناہوں، خارجہ پالیسیوں اور نون لیگی مزاج کا تھیلا کیوں اٹھایا؟ اس ضمن میں کم و بیش آدھی درجن موٹی موٹی باتیں سمجھنا ضروری ہیں۔ (1) ضروری نہیں کہ معاملہ میاں شہباز شریف کے گناہ یا ثواب اٹھانے ہی کا ہو، شہباز شریف مقامِ اعراف پر بھی تو ہو سکتے ہیںاور کہنے والے آصف علی زرداری کو قومی حکومت ساز کہتے ہیں۔ (2) مدت کم ضرور ہے، مزید کم بھی ممکن ہے لیکن ستمبر22 کے چوتھے ہفتے تک بہرحال کوئی مسئلہ نہیں۔ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ نومبر22 کے آخری ہفتے تک اس حکومت کو کوئی خطرہ نہیں۔ دوسرے لفظوں میں نئے آرمی چیف کے آنے کے بعد بھی بظاہر موسم خراب دکھائی نہیں دے رہا۔ (3) امریکہ میں ٹرمپ انتظامیہ کے بدلنے کے بعد جو بائیڈن انتظامیہ کی سحر انگیزی نے سحر طاری کردیا۔ ڈیمو کریٹس کا ڈیموکریسی کو آکسیجن دینا پرانا وتیرہ ہے جو ہمیشہ ری پبلکن کے برعکس رہا۔ سو جب تک امریکہ میں جو بائیڈن ہیں، پاکستان میں ’’ٹرمپ کارڈ‘‘ چلنا ممکن نہیں۔ اور اس قلیل مدت میں بلاول کی وزارتِ خارجہ کو اہمیت اور افادیت ملتی رہے گی۔ (4) آکسفورڈ فیکٹر، ہلیری کلنٹن فیکٹر سمیت متعدد زاویے بلاول کے سنگ ہیں، علاوہ ازیں بیک وقت چینی و ایرانی اور سعودی و ترکی فیکٹرز موجودہ قومی حکومت کی خوش قسمتی کا حصہ ہیں۔ (5) بلاول بھٹو اور حنا ربانی کھر کی خود مختاری (نون لیگی طارق فاطمی سے معاون برائے امور خارجہ کے قلم دان کی واپسی میں ایک مثبت راز بھی ہے) پھر کشمیر کے حساس ٹاسک میں معاونت و سوچ بچار میں جیالا قمر زمان کائرہ کا بطورِ مشیر امور کشمیر اور جی بی بھی ایک اہم ربط اپنی جگہ اہم ہے۔ (6) تین سال قبل کی بلاول بھٹو زرداری کی آکسفورڈ یونیورسٹی یونین کی سوال و جواب کی ایک نشست پر غور کیا جائے تو اس نے عالمی و داخلی سطح پر جو ڈائیلاگ کے دریچے کھولنے، تیسری دنیا کے کانسیپٹ اور پاپولزم پر گفتگو کی، اس کو عملی شکل میں عالمی ٹیبل اور فیلڈ میں رکھنا اور ترتیب دینا بلاول بھٹو کے فطری خاصے میں ہوگا اور اس پر ابتدائی کام ہی کر گزرنا ایک قابلِ ستائش پیش رفت ہوگی۔ (7) اس مختصر وقت میں ڈپلومیٹس کی اپنی متحرک ٹیم پورے عالم میں تیار کرلینا ایک بہت بڑا چیلنج ہوگا، داخلی سطح پر مقتدر حلقوں اور وزارتِ خارجہ کے اندرونی ٹیکنوکریٹس و بیوروکریٹس کو ہم نوا و ہم راز بنا لینا جوئے شیر لانے کے مترادف ہوگا۔ اس باب میں کچھ یقین سے کہنا قبل از وقت ہوگا مگر حنا ربانی کھر کی ہنر مندی، بلاول بھٹو کی قیادت اور دانشمندی کے علاوہ سفارت کاروں کی دوراندیشی پاکستان کے راستے ہموار کر تو سکتی ہے!

سی پیک اپنی جگہ ایک جدا اور خودمختار پروجیکٹ ہے مگر عمران خان کے دور حکومت میں اسے سنجیدگی سے لیا ہی نہیں گیا، اگر رزاق داؤد کے خان حکومت کے ابتدائی دنوں کے بیانات پر غور و فکر کیا جائے، علی زیدی کی سابق وزارت کے تساہل، گوادر پروجیکٹ پر متعین چینی انڈسٹریل کوآرڈینیٹر باؤ ژونگ کے اضطراب کا جائزہ لیا جائے تو بےشمار چیزوں کی سمجھ آسکتی ہے، شاید کراچی کے ایک مخصوص طبقے کے تحفظات بھی گوادر کو پنپنے نہیں دیتے۔ اس پہلو کو حاصل بزنجو مرحوم بھی کچھ خاص نہ سمجھ سکے تاہم سابق وزیر مملکت چوہدری جعفر اقبال اور ماضی میں گوادر میں خدمات سر انجام دینے والے سابق چیئرمین گوادر پورٹ اتھارٹی دوستین جمالدینی، منسٹری آف میری ٹائم افیئرز ( وفاقی وزیر فیصل سبزواری)، وزارت خارجہ اور وزارت پلاننگ اینڈ ڈیویلپمنٹ (وفاقی وزیر پروفیسر احسن اقبال) کو ایک مشترکہ نشست میں عمدہ بریف اور کوآرڈینیٹ کر سکتے ہیں۔ گودار کے خارجی امور کے حوالے سے بلاول بھٹو کو فیصل سبزواری اور چوہدری جعفراقبال کے ساتھ بھی لازمی طور پر ایک ڈائیلاگ کرنا چاہئے!

دیکھا جائے تو وطنِ عزیز کو سترے بہترے یا سٹھیائے ہوئے سیاست دانوں کی نسبت اسٹیٹس مین یعنی ذمہ دار سیاستدانوں کی زیادہ ضرورت ہے۔ نیم حکیم سیاستدانوں اور نااہل وزرا و وزرائے اعظم سے اسٹیٹس مین ملک و ملت کیلئے زیادہ مفید ہوتے ہیں، اور اسٹیٹس مین ہونے کا لوہا بلاول بھٹو بہرحال پہلے ہی منوا چکے ہیں!

تازہ ترین