• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہر سال 3مئی کو دنیا بھر میں صحافت کا عالمی دن منایا جاتا ہے اور پاکستان میں یہی ایک سطری پیغام ٹی وی اسکرینوں پر سنایا جاتا ہے۔پاکستان کو آزادی ملنے کے بعد یہاں پریس کو کتنی آزادی نصیب ہوئی، اس عہدِبیداد کی رُودادممتاز صحافی ضمیر نیازی نے ’’صحافت پابند ِ سلاسل‘‘(Press In Chains)اور اپنی دیگر کتابوں میں بیان کردی ہے۔ضمیر نیازی کو کیا خبر تھی کہ جس کتاب میں وہ سنسر شپ کاماتم کرتے رہے،ان کے جانے کے بعد وہ کتاب بھی سنسر ہوجائے گی۔2010میں آکسفرڈ یونیورسٹی پریس نے اس کتاب کا دوسرا اضافہ شدہ ایڈیشن شائع کیا تو اس میں سے دواہم باب ’’بت شکنی کا عہد‘‘(ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں صحافت پر دباؤ)اور ’’اندھیری سُرنگ‘‘ (ضیاء الحق کے صحافت مخالف اقدامات)پراسرار طور پر غائب تھے۔ تب کتاب کے پبلشر نے کسی قسم کے دباؤ کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ اس میں ان کاکوئی قصور نہیں،انہیںمسودہ ایسے ہی ملا تھا۔ستم بالائے ستم، مختلف ادوار میں صحافت پر آنے والے عتاب کی تاریخ مرتب کرنے والے ضمیر نیازی کی تقریباََ تمام کتابیں اب نایاب ہیں، شائع نہیں ہو رہیں۔ان کی جگہ اب ہمارے پاس ایوب خان کے سیکرٹری اطلاعات قدرت اللہ شہاب کا ’’شہاب نامہ‘‘ ہی رہ گیا ہے جو چودہ سو روپے میں بآسانی دستیاب ہے۔شہاب صاحب کے دور میں پریس پر کن قوانین اور پابندیوں کا بوجھ پڑااور کس طرح اخبارات پر قبضہ کرکے صحافیوں کاپیشہ ورانہ بوجھ ہلکا کیا گیا؟ضمیر نیازی کو پڑھ کرعام قارئین کو کیا حاصل ہوگا؟آج ان کی کتابیں شائع کرکے پبلشرز کو کیا ملے گا؟’’نئے زمانے میں آپ ہم کو پرانی باتیں سنا رہے ہیں‘‘۔بہتر ہے کہ ہم چودہ سو روپے میں قدرت اللہ شہاب کے روحانی تجربات و کمالات سے مستفید ہوں اوراپنی دنیاو آخرت سنوار لیں۔

آزادی ِ صحافت کی موجودہ صورتِ حال جاننے کے لیے ہم رپورٹرز وِد آؤٹ بارڈرز کی حالیہ رپورٹ دیکھ سکتے ہیں،جس کے مطابق ورلڈ پریس فریڈم انڈیکس میں پاکستان 12درجے تنزلی کے ساتھ 157ویں نمبر پر چلا گیا ہے۔خوشی کی بات یہ ہے کہ ہمسایہ ملک انڈیا بھی 8درجے نیچے گرا ہے اور باعث ِ ندامت ہے کہ ہم پھر بھی اس سے’’ سات قدم آگے‘‘ہیں۔پاکستان میں صحافت کو آمروں اور سول حکمرانوں کے مختلف ادوار میں ان گنت پابندیوں اور تعزیری و تادیبی اقدامات کا سامنا رہا ہے۔کبھی اخبارات کو بند کیا گیااورکبھی صحافیوں کو ہی قید و بند کردیا گیا۔کبھی پریس ایڈوائسوں سے اخبارات کو صراطِ مستقیم پر لایا گیااورکبھی سنسر شپ سے اخباری صفحوں کی سیاہی مٹائی جاتی رہی۔پھرایک وقت ایسابھی آیا جب اہلِ صحافت اپنے صیاد سے اتنے مانوس ہو گئے کہ پری سنسر شپ سے نکلے تو سیلف سنسر شپ میں جا اٹکے۔

درِ قفس جو کھلا،آسمان بھول گئے

رہا ہوئے تو پرند ے اڑان بھول گئے

وہ جوان تاریک راہوں میں مارے گئے،تاریخ کی کتابوں میں ان کا ذکر کم ہی ملتا ہے۔کئی خاک نشینو ں کی کہانی ان کے ساتھ ہی خاک ہوئی۔ہمارے سیاستدان جب اپوزیشن میں ہوتے ہیںتو ان سے بڑا آزادیِ اظہار کا علمبردار کوئی نہیں ہوتا۔انہی لوگوں کو جب اقتدار والا نشہ میسر آتا ہے تو جن کے حقوق کے لیے کبھی سڑکوں پر آواز اٹھارہے ہوتے ہیں،ان صحافیوں کو ہی اٹھوا رہے ہوتے ہیں۔ صحافیوں کے ساتھ کھڑے ہو کرکبھی حکومت کی مذمت کرنے والے کرسی پر بیٹھ کر انہی کی مرمت کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ ذرائع ابلاغ میں جدت آنے سے پاؤں کی زنجیروں نے بھی ترقی کرلی۔ عصرِ حاضر میں صحافیوں کو ملنے والے القابات،الزامات اور خطرات نئی شکل میں ہمارے سامنے ہیں۔ آزادیِ اظہارِ رائے کے حوالے سے ہم دنیا میں پہلے ہی کچھ کم بدنام نہیں تھے لیکن حال ہی میں رخصت ہوئی حکومت نے اِس رسوائی کو مزید بڑھایا۔

گزشتہ چند سال عوام کی طرح میڈیا پر بھی بھاری گزرے۔ پرانے پاکستان میں حکومتوں کے پاس صحافت کا گلا گھونٹنے کے لیے روایتی ہتھکنڈے تھے لیکن نئے پاکستان کو خدا نے ان کے علاوہ سوشل میڈیا جیسی نعمت سے بھی نوازا ہے۔سیاسی انتقام کے لیے سیاستدانوں پر کیس بنانے کا جو فریضہ نیب نے ادا کیا،صحافیوں کے عیب بنانے اورگنوانے کی ایسی ہی خدمت سوشل میڈیا کے اس لشکر نے سر انجام دی۔ فارمولا ایک ہی تھا کہ جو آپ کی سوچ سے اختلاف کرے یا حکومتی کارکردگی پرسوال اٹھائے،اس کے خلاف سوشل میڈیا پر اعلانِ جنگ کر دو۔ قوم کو بتاؤ کہ اس نے مخالف پارٹی سے لفافہ پکڑا ہے۔ جس صحافی کی خبر یا تجزیہ طبعِ نازک پہ گراں گزرے، اس پر فیک نیوز کا لیبل لگا دو۔دھیان رہے کہ اگر کوئی خاتون کسی طرح صحافت میں آجائے لیکن آپ کی منشا کے مطابق کام نہ کر رہی ہوتو اس کے ساتھ مردوں جیسا نہیں، عورتوں جیسا ہی سلوک کرنا ہے۔ سنگ ِ دشنام کافی نہیں،پورے لشکر نے جنسی بنیاد پر اس کی کردار کشی کرنی ہے.....ایسے ہی حالات نے دارالحکومت کو، جہاں خلیفہ براجمان تھا،صحافت کے لیے خطرناک ترین جگہ بنا دیا۔ نو منتخب وزیر اعظم نے ایک ٹویٹ کے ذریعے فرمایا ہے:’’ہم آزادیِ صحافت اور اظہارِ رائے کو یقینی بنانے کیلئے پر عزم ہیں‘‘۔ان کے عزم کو سلام اور ساتھ ہی اہلِ صحافت کیلئے فیض کا یہ پیغام:

ابھی چراغِ سر رہ کو کچھ خبر ہی نہیں

ابھی گرانیٔ شب میں کمی نہیں آئی

نجاتِ دیدہ و دل کی گھڑی نہیں آئی

چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی

پس نوشت:آزادیِ صحافت کے عالمی دن پر ایک معاصر اخبار میں یہ خبر شائع ہوئی کہ ضلع ننکانہ صاحب کے دورے پر گئے ریجنل پولیس آفیسر سے جب مقامی اخباری نمائندوں نے تھانوں کی ناقص کارکردگی پر سوال کیاتو عالی مرتبت نے سامنے بیٹھے قلمی مزدوروں کو ان کی اہمیت بتاتے ہوئے فرمایا:’’آئین میں پریس کا کوئی ذکر نہیں ہے،لیکن اس کے باوجود ہم اسے چوتھا ستون جانتے ہیں‘‘۔انہوں نے صحیح فرمایا۔ جانتے توسب ہیں،مانتا کوئی نہیں۔ہمارے حکمرانوں کی زندگیاں آئین کی دفعہ 19کی صورت میں کھڑے اس ستون کو منہدم کرتے ہی گزری ہیں۔

تازہ ترین