• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دوماہ سے جاری روسی فاتحانہ انداز کی دراندازی کا یوکرین، مغربی ممالک کی اسلحہ فروشی کے باعث، ابھی تک مقابلہ کررہا ہے۔ ادھر انڈیا میں نوراتری کے نام پر مسلم گھرانوں کو زیرآتش کرکے، ہندو توا کے نوجوان تماشہ کررہے ہیں۔ ارون دھتی رائے اور نوم چومسکی سے لے کر دنیا بھر کے سنجیدہ طبقے احتجاج کررہے ہیں۔ مگر بورس جانسن، انڈیا میں ٹریکٹر پر بیٹھ کر لطف لے رہا ہے۔ حالانکہ اس کے سر پر تلوار لٹکی ہے اس پارٹی بازی کی جو کورونا کے انتہائی دنوں میں وہ کرتا رہا۔ ارون دھتی رائے نے تقریر کرتے ہوئے کہا ہے کہ عین ان دنوں میں جب ساری دنیا میں رمضان پروقار طریقے پر منایا جارہا ہے، انڈیا میں اور کچھ نہیں تو لڑکیوں کو بے حرمت کرنے کے لیے، کشمیر سے یوپی تک، بے شرمی اور ڈھٹائی سے امیت شاہ تک خاموش ہیں۔

یوکرین کا بنیادی قصور کیا تھا کہ روس نے حملہ کر دیا۔ سب کو معلوم ہے کہ نیٹو میں شرکت کے لیے دبائو تھا۔ وہ تو سویڈن کو بھی ہے۔ ملکوں ملکوں، یوکرینی لوگوں کی بے گھری اور بربادی پر ان کی مدد کے لیے کنسرٹ کئے جارہے ہیں۔ یوکرینی مصوروں نے مزاحمتی مصوری کی نمائش کی ہے اور سارے ادیبوں نے احتجاج کیا ہے اور کہا ہے کہ شکر ہے ہم لوگ دنیا کو اپنی بپتا سنا سکے ہیں۔ آپ سب کو معلوم ہوگا کہ یوکرین کا صدر ایک مزاحیہ اداکار ہے جو شومئی قسمت کہ ملک کا صدر بن گیا۔ وہ بڑے حوصلے سے ملک میں روسی تباہی کا منظر دیکھ کر، اب روس کو وارننگ دے رہا ہے کہ بس بہت ہوگئی۔ اب تو امریکی وزیر خارجہ بھی یوکرین پہنچ گئے ہیں کہ بعداز خرابی بسیار اور وہی لارا کہ روس بھی اب ختم ہونے کو ہے۔ سب سے زیادہ عذاب اس وقت مہاجر اور بے گھر لوگوں پہ آیا ہے کہ بھوک مٹانے کے لیے اداروں کی مدد کے باوجود، لوگ بہت مشکل میں ہیں۔ خاص طور پر جو بچیاں ہیں، ان کومحفوظ رکھنا بھی مشکل ہورہا ہے۔ عورتیں اور لڑکیاں بھی گولی چلانا سیکھ رہی ہیں کہ گلیوں میں عوام، روسی فوجوں سے لڑنے کی تیاری پکڑ رہے ہیں۔ کوئی یہ دیکھنے والا نہیں کہ کس طرح یوکرین کی ثقافت کو برباد کیا جارہا ہے۔ اگر روس نے مسلسل جنگ جاری رکھی اور یورپین ملکوں نے خاموشی کے علاوہ روسی تیل اور گیس پر انحصار کرتے ہوئے، آئندہ کی زندگی کے بارے میں منصوبے بنائے تو قوموں کا کیا حال ہوگا۔اُدھر حسب توقع، رمضان کے تقدس کو پامال کرتے ہوئے، اسرائیلی فوجی لاکھوں نمازیوں پر چڑھ دوڑے اور باقی دنیا، اس کو دیکھ کر خاموش رہی۔ اُدھر انگلینڈ اور امریکہ میں کسی نہ کسی شہر میں کوئی نامعلوم شخص اٹھتا ہے اور دو چار معصوم لوگوں کو لقمہ اجل بنادیتا ہے۔ انڈیا کی تشویش ناک حالت پہ، امریکی گروپ نے دو سال سے اپنی ناراضی اظہار کیا ہے مگر نہ بائیڈن پہ اثر ہوتا ہے اور نہ اقوام متحدہ پہ۔ فی الوقت تو یو این کے صدر، ماسکو جارہے ہیں۔ اور کچھ یورپی ممالک میں بھی مظاہرے ہورہے ہیں۔ اس پر مستزادیہ کہ امریکہ اور یورپین ممالک یوکرین کو اسلحہ کی فراہمی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ گویا اپنا جمع کردہ اسلحہ فروخت کرکے اپنی معیشت تو بچا رہے ہیں اور یوکرین جوگندم فراہم کرنے والا ملک ہے، سب اس نعمت سے محروم ہورہے ہیں۔

پاکستان بھی یوکرین سے فاضل گندم منگواتا رہا ہے۔ اس دفعہ تو گندم کی کٹائی میں بھی مشکل پیش آرہی ہے۔ ہمارے سامنے مسائل تو بہت ہیں مگر غریب کی روٹی چلتی نہ رہے تو سری لنکا والا حال ہوجاتا ہے۔ آئیں واپس اپنے ملک میں جھانکیں۔ سنا ہے کہ پہلے تو نئی بساط بچھانے والوں نے پورا جہاز بک کرانے اور دفتر خارجہ کو ادائیگی کرنے کا کہا تھا۔ پھر جب بے نیل مرام جواب ملا اور بہت سے جی دار لوگوں نے کہا کہ ہم سرکار کے خرچے پر مدینہ نہیں جائیں گے۔ ہر چند یہ بتادیا گیا تھا کہ اپنا اپنا خرچ کرلو۔ بہرحال چاروں جانب سے ہاہاکار کو سن کر سنا ہے خبر مدینے والوں تک پہنچی۔ انہوں نے سرکاری دعوت نامہ دےدیا۔ واپس آکر یہ بھی اعلان کریں گے کہ ہمارے لیے خاص دروازے کھولے گئے اور ہمیں تو چھت مبارکہ پر بھی چڑھنے کی سعادت نصیب ہوئی۔ کئی فیصلے کئے جارہے ہیں کہ بجلی کے ریٹ ایک دم نہیں، دو دو، تین تین کرکے بڑھائیں گے اس طرح آئی ایم ایف بھی خوش اور عوام بھی زیادہ منہ نہیں بنائیں گے۔ان کے جانے سے پہلے دو ایسے واقعات جن پر نظر دوڑانا ضروری ہے، بلکہ مستقبل کی منصوبہ بندی کے لیے بھی ضروری ہے۔ ایک تو خاتون دہشت گرد اور وہ بھی بلوچی کہ بات اب آج کی نسل تک پھیل چکی ہے۔ بات صرف گفتگو اور اعلانات اور افسروں کو اِدھر سے اُدھر کرنے کی نہیں۔ صوبوں کو باقاعدہ خود مختاری دینے اور فنڈز کی فراہمی کے علاوہ، وہاں کے علاقوں میں آباد لوگوں کو تکنیکی معاونت فراہم کرنے اور گوادر کے لوگوں کو محض مچھیرے سمجھ کر، آگے بڑھ جانے کے فروعی منصوبے بہت ہیں۔ آج سے 20برس پہلے گوادر اور پسنی دونوں میں ہوائی جہاز آتے جاتے تھے۔ اب جیسے بہت سے ائیرپورٹ بند پڑے ہیں یہاں بھی اڑان اس قدر غلط ٹائمنگ کے ساتھ ہے کہ بندہ جانے کا سوچ کے رہ جاتا ہے۔دوسری اہم بات ہے کہ کراچی کے مختلف علاقوں سے 13 سے 16سال کی لڑکیاں گھروں سے بھاگ کر، بزعم خود اعلان کررہی ہیں کہ میں نے شادی اپنی مرضی سے کی ہے۔ یہ اعلان اگر پختہ عمر یعنی 18برس کی عمر میں ہوتو قابل قبول ہوتا ہے۔ یہ جواز بھی سوچنے پہ مائل کرتا ہے کہ باپ بڑی عمر کے بندے سے شادی کرنا چاہتے تھے مگر یہ اقدام جواِن بچیوں نے کیا ہے، وہ خودسری کے زمرے میں آتا ہے۔ دیہات میں تو عموماً ایسے واقعات ہوتے ہیں۔ ان کو کبھی دبا دیا جاتا ہے اور کبھی دونوں کو مار دیا جاتا ہے۔ پھر ذرا ٹھہرکے یہ سوچئے کہ گزشتہ 20برسوں میں، جس قسم کے ہر چینل پر ڈرامے دکھائے جاتے رہے ہیں۔ وہ کیا سبق دیتے ہیں۔ وہ کس تہذیب کی نمائندگی کرتے ہیں اور سب سے بڑھ کر گھر میں والدین، بچوں کے ساتھ بات چیت نہیں، حکم نامہ دیتے ہیں۔ بچیوں کی جسمانی اور ذہنی ضروریات کو سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے۔ گھٹن کا ماحول مگر ٹی وی پر دعا کے والدین تو بہت سنجیدہ وباشعور نظر آرہے تھے۔ پھر بھی لڑکیوں کو اور ان کی ضروریات کو سمجھنے کی ضرورت نہ اسکولوں میں اور نہ گھروں میں محسوس کی جاتی ہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین