• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہماری سیاسی تاریخ کے کئی پہلو تاریک ہیں۔ کئی مواقعے پر سیاست دانوں نے ایک دوسرے کے ساتھ جو کچھ کیا وہ شرم ناک تھا۔آج بھی ہماری سیاست میں بہت کچھ ایسا ہورہا ہے جس کے بارے میں جان کر پاکستان کا درد رکھنے والوں کے دل سخت دُکھی ہوجاتے ہیں۔ پہلے تو صرف الفاظ گھاو لگاتے تھے، لیکن اب آڈیو اور وڈیو بھی دلوں کو زخمی کرنے لگی ہیں۔ یہ فیصلہ تو بعد میں ہوتا ہے کہ وہ اصلی ہیں یا نقلی، لیکن وہ اپنا کام کرجاتی ہیں۔ ان دنوں پی ٹی آئی کی جانب سے اس خدشے کا اظہار کیا جارہا ہے کہ عمران خان کی کردار کشی کے لیے جعلی آڈیو اور وڈیو سامنے لائی جاسکتی ہیں۔ ان کے یہ تحفظات کیوں ہیں؟ 

اس بابت معلوم نہیں ،لیکن یہ ضرور معلوم ہے کہ آج کے دور میں کسی کی جعلی آڈیو اور وڈیو بنانا کوئی زیادہ مشکل کام نہیں۔ پہلے تو فوٹو شاپ کے ذریعے جعلی تصاویر بنائی جاتی تھیں، لیکن اب کسی کے بارے میں معلومات اور تصاویر حاصل کرکے جعلی آڈیو اور وڈیو بنانے والے سافٹ ویئر بھی آچکے ہیں۔ یہ ایک پوری ٹیکنالوجی بن چکی ہے جسے ڈیپ فیک ٹیکنالوجی کا نام دیا گیا ہے۔

ڈیپ فیک ٹیکنالوجی اور آرٹی فیشل انٹیلی جینس 

یہ ایسی ٹیکنالوجی ہے جس کی مدد سے جعلی تصاویر یا وڈیو تیار کی جاتی ہے۔ پہلے جعلی تصاویر تیار کرنے کے لیے فوٹو شاپ سے کام لیا جاتا تھا جن کی جعل سازی کو پکڑنا کافی آسان ہوتا تھا۔اس کے برعکس ڈیپ فیک ٹیکنالوجی سے تیار کی گئیں تصاویر اور وڈیوز کسی انسان کے ہاتھ کی بنائی ہوئی نہیں ہوتی بلکہ مصنوعی ذہانت کے ذریعے کمپیوٹر پر تیارکی جاتی ہیں۔ ڈیپ فیک تیار کرنے والے سافٹ ویئرزکو جتنی زیادہ معلومات دی جاتی ہیں بننے والی تصویر اتنی ہی زیادہ حقیقی لگتی ہے۔ کئی کمپنیز اس ٹیکنالوجی کا تجارتی پیمانے پر بھی استعمال کر رہی ہیں، مثلاً خبریں پڑھنے میں، اپنے ملازمین کو مختلف زبانوں میں تربیت دلوانے کے لیے، وغیرہ۔ اس لیے وہ کہتے ہیں کہ اس ٹیکنالوجی میں فیک، یعنی جعلی کا لفظ استعمال نہیں کیا جانا چاہیے۔

حقیقت یہ ہے کہ اس ٹیکنالوجی کا بہت غلط استعمال بھی ہو رہا ہے، مثلا بعض مشہور شخصیات کو ڈیپ فیک کے ذریعے فحش فلموں میں اداکار بنا دیا جاتا ہے یا پھر سیاست دانوں کی جعلی آڈیو اور وڈیو کے ذریعے اشتعال انگیز اور گم راہ کن بیانات پھیلا دیے جاتے ہیں۔ جتنی دیر میں کوئی ان کے جعلی ہونے کا پتا لگاتا ہے تب تک خاصا نقصان ہو چکا ہوتا ہے۔ ڈیپ فیک کا لفظ آرٹیفیشل انٹیلی جینس کے ڈیپ لرننگ پروگرام سے لیا گیا ہے جس سے مراد یہی لی جا سکتی ہے کہ ایسی ٹیکنالوجی جوپوری طرح سے نقلی ہو، لیکن اتنی گہری ہوکہ پہچانا نہ جا سکے ۔ 

اس میں جو ٹیکنالوجی استعمال کی جاتی ہے اسے جنریٹیو ایڈورسیریل نیٹ ورک generative adversarial network کہا جاتا ہے ! جسے مختصر GAN لکھا اوربولا جاتا ہے۔ اس کا استعمال کر کے آپ کسی انسان کے چہرے کے تاثرات تک کی نقل تیار کر سکتے ہیں جسے پکڑنا بہت مشکل کام ہے کیوں کہ یہ آرٹیفیشل انٹیلی جینس کا کارنامہ ہوتا ہے۔ وہ اسے بنا تو سکتی ہے، لیکن اب تک اس کا کوئی توڑ نہیں تلاش کرسکی ہے۔ اسی لیے فیس بک اور مائیکروسافٹ مل کر ایسا نظام بنانے کی کوشش کر رہے ہیں جو یہ پتا چلا سکے کہ وڈیو اصلی ہے یا نقلی، تاکہ اس کی روک تھام کی جا سکے اور اپلوڈنگ سےپہلے ہی اسے خارج کر دیا جائے ۔

یہاں یہ بات کسی حدتک باعث اطمینان ہے کہ اس کا استعمال کوئی عام آدمی بالکل نہیں کر سکتا۔ وڈیو میں موجود انسان کو نیا چہرہ ایسا انسان ہی دے سکتا ہے جو آرٹیفیشل انٹیلی جینس کے استعمال کے بارے میں جانتا ہو ۔ کچھ عرصہ پہلے سامنے آنے والی face app نامی ایک ایپ اس چیز کا ایک سادہ سا نمونہ تھی، لیکن یہ ٹیکنالوجی اس سے کہیں زیادہ ہے۔ یہ مرحلہ اس لیے آیا ہے کہ آج مشینیں یہ سمجھ چکی ہیں کہ انسان کیسے برتاو کرتا ہے۔

اس قسم کی وڈیوز بنانے کے لیے عام طور پر ایک مخصوص سافٹ ویئر استعمال کیا جاتا ہے۔ ڈیپ فیک میں آسانی یہ ہے کہ آپ کو کمپیوٹر سافٹ ویئر کو بہت سی معلومات فراہم کرنا ہوتی ہیں، مثلاً آپ کا ہدف دکھتا کیسا ہے، بولتا کیسے ہے، بولتے وقت اس کی حرکات و سکنات کیسی ہوتی ہیں، وہ کس طرح کی صورت حال میں کیا ردِ عمل دیتا ہے، وغیرہ، وغیرہ۔

یہ کوئی چھوٹا فتنہ نہیں

ڈیپ فیک بنانے والے سافٹ ویئرز کا انحصار مشین لرننگ اور آرٹیفیشل انٹیلی جینس پر ہوتا ہے اور بعض ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ ہم اس مقام پر پہنچ گئے ہیں جہاں ڈیپ فیک اور حقیقی وڈیو میں فرق کرنا مشکل سے مشکل تر ہوتا جا رہا ہے۔

رواں سال فروری میں شروع ہونے والی روس اور یوکرین کی جنگ خاتمے سے ابھی دور دکھائی دیتی ہے ، تاہم مارچ میں ٹوئٹر پر ایک وڈیو جاری ہوئی تھی جس میں 'روسی صدرامن کا اعلان اور 'یوکرینی صدر ہتھیار ڈالنے کا اعلان کرتے نظر آئے تھے۔ سوشل میڈیا کمپنیز کی جانب سے یہ وڈیوز فوراً ہٹا دی گئیں۔ تاہم کہا جا رہا ہے کہ ایسا اس لیے ممکن ہواکہ ان وڈیوز میں زیادہ نفاست نہیں تھی چناں چہ انہیں جعلی وڈیو کے طور پر شناخت کر لینا کافی آسان تھا۔ تاہم بعض ماہرین کا موقف ہے کہ 'بھلے ہی یہ وڈیو بہت بری بنی ہوئی تھی، مگر مستقبل قریب میں معاملہ ایسا نہیں رہے گا۔ اس سے 'قابلِ بھروسہ میڈیا پرسے بھی لوگوں کااعتبار ختم ہوجائے گا کیوں کہ 'لوگ یہ ماننے لگیں گے کہ ہر چیز جعلی بنائی جا سکتی ہے۔

ڈیپ فیک کمیونٹیز میں سب سے زیادہ مشہور اداکارہ ایما واٹسن اورنتالی پورٹ مین کی جعلی وڈیوز ہیں۔ لیکن مشل اوباما، ایوانکا ٹرمپ اور کیٹ مڈلٹن کی وڈیوز بھی بنائی گئی ہیں۔ اداکارہ گیل گڈوٹ، جنہوں نے ونڈر وومن کا کردار ادا کیا تھا، ان پر اس ٹیکنالوجی کا سب سے پہلے استعمال کیا گیا تھا۔ تاہم صرف سیاست اورفحش فلموں کا شعبہ ہی نہیں بلکہ ڈیپ فیک ٹیکنالوجی دفاع، مالیات، مذہب غرض زندگی کے ہر شعبے میں مسائل پیدا کر سکتی ہے۔ ان ہی مسائل کو مدِ نظر رکھتے ہوئے فیس بک اور گوگل نے حال ہی میں اپنے اپنے پلیٹ فارمز پر ڈیپ فیک کو روکنے کے لیے اقدامات اٹھانے کا اعلان کیا ہے۔ فیس بک کا کہنا ہے کہ اس نے اپنے پلیٹ فارم پر ڈیپ فیک وڈیوز پر پابندی عاید کر دی ہے اور ایسی وڈیوز ہٹا دی جائیں گی۔

انسان کا معکوس سفر

انسان نے تہذیب و تمدّن کی موجودہ منزل تک تک پہنچنے کے لیے بہت طویل سفر کیا ہے۔ وہ پتھر اور دھات کے زمانے سے نکل کر سائنس اور ٹیکنالوجی کی خیرہ کُن دنیا تک پہنچا ہے۔ اس دوران اس نے وحشی پن ، قبائلیت،جنگ و جدل اور عدم احساس کے چولے اتارے اورپُرامن بقائے باہمی اورجیو اور جینے دوکے فلسفے اپنائے۔ لیکن یوں محسوس ہوتا ہے کہ بیسویں صدی کے اوائل سے اس نے پھر پیچھے کی جانب پلٹنا شروع کیا، انسانی تاریخ کی دو بہت خوں ریز جنگیں شروع کیں ،مزید نو آبادیاں بنائیں، مزید اقوام کے گلوں میں غلامی کا طوق ڈالا، عالمی طاقتوں کو مزید استحکام ملا اور مزید زمینی وسائل پر قبضے کیے گئے۔ اور نہ جانے کیا کیا ہوا۔

پھر تاریخ کا دھارا آگے بڑھا تو آزادی کی تحریکوں نے سر اٹھایا، شورشیں برپا ہوئیں، متعدد اقوام نے آزادی حاصل کی اور سکون کے کچھ وقفے آئے۔ لیکن پھر ایک نئی اصطلاح سامنے آئی، یعنی’’ سرد جنگ‘‘۔ یوں جنگ کے نئے میدان سجے۔ پھر سرد جنگ ختم ہوئی تو ایک بار پھر ملکوں پر فوج کشی کا سلسلہ چلا۔ وہ ختم ہوا تو اقتصادی جنگ اور اقتصادی غلامی کے حربے سامنے آئے۔آج دنیا عالم گیریت کے ماحول میں سانس لے رہی ہے، لیکن دہشت گردی کا عفریت اس کے سامنے برہنہ رقض کر رہاہے اور علم، سائنس اور ٹیکنالوجی کے ذریعے چند اقوام اور ادارے اقوامِ عالم کے ذہن اور ان کی اقتصادیات پر قابض ہیں۔

یہ سب کچھ تو ہوتا رہا ،لیکن عام تاثر یہ رہا کہ انسان حیوانی جبلّت ترک کرتا جارہا ہے۔مگر بالخصوص بیس ،پچّیس برسوں میں دنیا بھر میں جو کچھ ہوا ہے اسے دیکھ کر یوں محسوس ہوتا ہے کہ تہذیب اور تمدّن کی بہت سی سیڑھیاں چڑھ جانے کے باوجود انسان جب چاہتا ہے اپنے اصلی چولے میں سامنے آجاتا ہے۔ خصوصا سیاست کے شعبے میں آج دنیا بھر میں جو مظاہر سامنے آرہے ہیں وہ بعض اوقات انسان کی جبلّتوں کا پھر سے مطالعہ کرنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ خود اپنے ملک میں دیکھ لیں کہ دس بارہ برسوں سے یہاں الفاظ کی کیسی جنگ جاری ہے۔ جلسے جلوس ہوں یا پارلیمان، ایسی زبان استعما ل کی جارہی ہے کہ خود اسپیکر قومی اسمبلی اور چیئر مین سینیٹ کو اراکین کو متنبہ کرنا اور ان جملوں کو کارروائی سے حذف کروانا پڑتا ہے۔ ذرا دیکھیں تو یہاں کیا کیا ہوتا رہا ہے:

ماضی کی کچھ ناپسندیدہ یادیں

اپریل 2012کے ابتدائی ایّام میں انتخابی مہم جاری تھی۔اس دوران پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین اوراس وقت کے صدرمملکت، آصف علی زرداری نے کہا تھا کہ مقبولیت کے دعوےدار شریف برادران کے پاس اتنے بھی لوگ نہیں تھے کہ اپنے والد کا جنازہ پڑھوا لیتے۔ ان کا جنازہ بھی داتا دربار لے جانا پڑا۔ شریف برادران کو دی گئی چمک میری ہے۔ جب چاہوں اسے چھین سکتا ہوں۔ لاہور پیپلز پارٹی کا ہے، شریف برادران تو خود مہاجر ہیں۔ اتحادیوں کے ساتھ مل کر الیکشن لڑیں گے اور آنے والی وفاقی اور صوبائی حکومتیں پیپلز پارٹی اور ان کے اتحادیوں کی ہوں گی۔

افسوس کی بات یہ ہےکہ آج کی طرح ان دنوں بھی بڑی جماعتوں کے درمیان قوم کو درپیش سنگین مسائل پر کوئی بحث نہیں ہو رہی تھی۔ آصف علی زرداری نے جس انداز میں اپنے حریف میاں نواز شریف پر حملہ کیا اس کا جواب ترکی بہ ترکی آیا۔ الفاظ کی سیاسی جنگ سے ظاہر ہوتا تھا اور ہے کہ پاکستان کی سیاست میں مقابلہ سیاسی جماعتوں، ان کے منشور اور پروگرام کے درمیان نہیں بلکہ شخصیات یا خاندانوں کے درمیان ہے۔ آصف علی زرداری نے گورنر ہاوس لاہور میں جو انداز تخاطب اختیار کیا تھا وہ یقیناً کسی صدر مملکت کے شایان شان نہیں تھا، بلکہ وہ جذبات کی رو میں بہہ کر ایسی بات بھی کہہ گئے جس کی بعد میں ان کے ترجمان کو تردید کرنی پڑی تھی۔

تلخ حقیقت اور عام خیال یہ ہے کہ پاکستان میں سیاست کا مقصد اقتدار میں آکر بدعنوانی کرنے اور فوائد سمیٹنے کے سوا کچھ نہیں۔ ہماری سیاست کا کوئی اصول نہیں اور جو لوگ اپنی جماعتوں میں اصولوں کی بات کرتے ہیں ان پر زمین تنگ کر دی جاتی ہے۔

میاں نوازشریف اور بے نظیر بھٹو کے ادوارِ حکومت میں دونوں نے ڈٹ کر ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچیں اور ذاتیات تک کو سیاست کے میدان میں لایا گیا۔پھر سیز فائر ہوا۔ پھر زرداری صاحب اور میاں صاحب کا ہنی مون پیریڈ آیا۔جب وہ ختم ہوا اور انتخابی دنگل کے لیے میدان سجا تو عوام نے میاں شہباز شریف کو آصف علی زرداری کے بارے میں یہ کہتے سنا کہ پیٹ پھاڑ کر لوٹی ہوئی دولت نکالوں گا، سڑکوں پر گھسیٹوں گا، وغیرہ وغیرہ ۔ جواب میں وہ یوں گویا ہوئے :’’مجھے شریفوں کی گردن سے سریا نکالنا آتا ہے‘‘۔ اسی دوران عمران خان کی جماعت پی ٹی آئی تیزی سے آگے آنے لگی۔

پچھلے اور اس سے پچھلے انتخابات میں عمران خان نے بہت جارحانہ انداز میں انتخابی مہم چلائی اور پھر مسلم لیگ نون کی حکومت کے خلاف طویل دھرنا بھی دیا۔ انہوں نے متعدد مواقعے پر بڑے میاں صاحب کو اوئے ،نواز شریف، کہہ کر مخاطب کیا اور غالبا الیکشن کمیشن نے شکایت ہونے پر انہیں اس طرح مخاطب کرنے سے روکا بھی۔ ان کی جماعت کے لوگوں نے میاں صاحب کو مودی کے یار کہہ کر بھی مخاطب کیا۔ جواب میں مسلم لیگ نون کے لوگوں نے انہیں امپائر کے اشارے پر ناچنے والے، نیازی کا خطاب دیا۔ پھر موجودہ پارلیمان میں اپوزیشن نے ان کے لیے ایک خاص اصطلاح ’’سلیکٹیڈ‘‘ کی بنائی تھی جس پر وہاں کافی تلخ کلامی ہوتی تھی۔

آڈیو اور وڈیو کلپس کی سیاست

چند برسوں سے ملک کی سیاست میں خفیہ طور پر ریکارڈ کیے گئے آڈیو اور وڈیو کلپس کا کافی زور ہےجو وقتا فوقتا ایک کے بعد ایک کرکے منظرِ عام پر لائے گئے۔ کچھ عرصہ قبل سابق چیف جسٹس ،ثاقب نثار کی اور پھر مریم نواز کی آڈیو ریکارڈنگز سامنے آئیں۔ اگلے مرحلے میں لاہور میں قومی اسمبلی کے حلقہ نمبر133 میں ہونے والے ضمنی انتخاب میں ووٹوں کی مبینہ خرید و فروخت کے بارے میں سامنے آنے والی وڈیوز نے سیاسی میدان کو گرمایا۔

اس سے قبل،نیب کے چیئرمین ، جاوید اقبال کی مبینہ طورپر ایک نجی نوعیت کی آڈیو، وڈیو ریکارڈنگ منظرِ عام پر آئی تھی۔ پھر میاں نواز شریف کو سزا سنانے والی احتساب کی عدالت کے منصف ،ارشد ملک کی مبینہ وڈیو نے سیاست میں کافی ہلچل پیدا کی تھی۔ یہ آڈیو، وڈیو ریکارڈنگز منظرِ عام پر لائی گئیں تو ہر محفل اور ہر ٹی وی چینل پر اس بارے میں گفتگو کی جانے لگی۔

پھر اس بارے میں تحقیق کیے جانے کا شور اُٹھا۔ چیئرمین نیب سے متعلق مبینہ ریکارڈنگ منظرِ عام پر آنے کے فوری بعد حکومت کی ترجمان نے اس کا فورینزک ٹیسٹ کرانے کا عندیہ دیا، لیکن بعد میں یہ معاملہ عدلیہ پر چھوڑ دیا گیا تھا ۔ دیگر حلقے بھی اس ریکارڈنگ کا فورینزک ٹیسٹ کرانے کی باتیں کررہےتھے۔

ان حالات میں عام آدمی کے ذہن میں یہ سوال ابھرتاہے کہ فورینزک ٹیسٹ کس بلا کا نام ہے اور یہ کس طرح کیا جاتا ہے۔ دوسری جانب بہت سے افراد فورینزک سائنس کے بارے میں تھوڑی بہت معلومات تو رکھتے ہیں، لیکن وہ جرائم کی تفتیش اور تحقیق کے لیے استعمال ہونے والی اس جدید سائنس کے بارے میں مزید جاننے کے خواہش مندد کھائی دیتے ہیں۔ وہ جاننا چاہتے ہیں کہ یہ سائنس کیا ہے، کس طرح کام کرتی ہے اور آڈیو، وڈیو ریکارڈنگ کی فورینزک جانچ کس طرح کی جاتی ہے۔

ملک قیوم کی آڈیو ریکارڈنگز

پاکستان کی سیاست میں جس آڈیو ریکارڈنگ نے غالبا سب سے زیادہ ہلچل پیدا کی وہ لاہور ہائی کورٹ کے سابق جج اور سابق اٹارنی جنرل ،ملک محمدقیوم کی تھی۔ جسٹس ملک محمد قیوم جو 1998میں لاہور ہائیکورٹ کی احتساب بینچ کے جج تھے اور پرویز مشرف کے دور میں اٹارنی جنرل بنائے گئے۔ ملک قیوم نے سابق وزیراعظم بےنظیر بھٹو اور آصف علی زرداری کو پانچ سال قید کی سزا سنائی تھی، لیکن سزا سنانے کے کچھ عرصے بعد پیپلز پارٹی نے ان کے آڈیو ٹیپس جاری کیے جن میں ان کی اس وقت کے وزیر قانون خالد انور، احتساب بیورو کے سربراہ سیف الرحمٰن اور وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کے ساتھ گفتگو موجود تھی۔

اس گفتگو کے مطابق جسٹس ملک قیوم نے وزیراعظم نواز شریف کی خواہش اور دبائو پر محترمہ بےنظیر بھٹو کو سزا سنائی تھی۔27اپریل 1998کو ملک قیوم نے محترمہ بےنظیر بھٹو اور ان کے شوہر کو سزا سنا ئی تو شہباز شریف نے ان کا شکریہ ادا کیا اور یہ شکریہ بھی ریکارڈ ہو گیا۔ کسی طرح یہ ٹیپس محترمہ بےنظیر بھٹو تک پہنچ گئے۔ ان میں وہ ٹیپ بھی تھا جن میں ملک قیوم کی اپنی اہلیہ کے ساتھ گفتگو ریکارڈکی گئی تھی اور وہ اہلیہ کو حکومت کے دبائو سے آگاہ کر رہے تھے۔ بعد ازاں ملک قیوم نے سن دو ہزار ایک میں استعفیٰ دے دیا تھا۔ اس وقت ان پر پیشہ ورانہ بد دیانتی کا الزام لگایا گیا تھا۔

ملک قیوم کی سربراہی میں لاہور ہائی کورٹ کی بینچ نے سابق وزیر اعظم بےنظیر بھٹو اور ان کے شوہر آصف علی زرداری کوبدعنوانی کے مقدے میں پانچ سال قید، چھیاسی لاکھ ڈالرزجرمانے، رکنِ پارلیمان بننے پر پانچ سال کی پابندی اور ان کی جائیداد ضبط کرنے کی سزا سنائی تھی۔ اس فیصلے کے نتیجے میں بے نظیر بھٹو نے مارچ انیس سو ننانوے میں خود ساختہ جلا وطنی اختیار کر لی تھی۔ فروری دو ہزار ایک کو برطانوی اخبار سنڈے ٹائمز نے بتیس ٹیپس کی بنیاد پر ایک تفصیلی خبر شائع کی جس سے یہ ظاہر ہوا کہ ملک قیوم نے بے نظیر اور آصف زرداری کو سیاسی بناء پر سزا سنائی تھی۔

ان ریکارڈنگز میں ملک قیوم نواز شریف حکومت میں احتساب بیورو کے سربراہ سیف الرحمٰن سے سزا کے سلسلے میں حکم مانگ رہے ہیں۔ ملک قیوم نے پوچھا: ’’آپ بتائیں کہ آپ کتنی سزا دینا چاہتے ہیں، اس (بینظیر) کو‘‘؟ یہ ریکارڈنگ سامنے آنے پر سپریم کورٹ نے بے نظیربھٹو کی اپیل کے حق میں فیصلہ دیا اور ہائی کورٹ کی سزا ختم کردی تھی۔ اپنے فیصلے میں سپریم کورٹ نے لکھا کہ ملک قیوم نے یہ فیصلہ سیاسی بناء پر دیا تھا۔ پھر سپریم جوڈیشل کونسل کے سامنے پیشہ ورانہ بد دیانتی کے الزامات سامنے آنے پرملک قیوم نے استعفیٰ دے دیا تھا۔

اس کے بعد فروری 2008 میں بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے پاکستان کےسابق اٹارنی جنرل ملک قیوم کا ایک مبینہ آڈیو ٹیپ اپنی ویب سائٹ پر پیش کیا تھا جس میں وہ نامعلوم شخص کو آئندہ انتخابات میں وسیع پیمانے پر دھاندلی ہونے کا بتا رہے تھے۔ تاہم اٹارنی جنرل نے ’’یہ ریکارڈنگ جعلی ہے‘‘ کہہ کر اس کی تردید کی تھی۔ اس ریکارڈنگ میں ملک قیوم مبینہ طور پر ایک نامعلوم شخص کو مشورہ دے رہے تھے کہ وہ کس سیاسی جماعت سے امیدوارکا ٹکٹ لینے کے لیے رجوع کرے۔

بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیم ، ہیومن رائٹس واچ کا کہنا تھا کہ یہ ریکارڈنگ اکیس نومبر کو میڈیا کے ایک نمائندے کے ساتھ انٹرویو کے دوران کی گئی تھی۔ تنظیم کے مطابق یہ ریکارڈنگ انتخابات کے شیڈول کے اعلان کے ایک دن بعد کی گئی تھی۔ انتخابات آٹھ جنوری کو منعقد ہونے تھے، لیکن سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کے قتل کے بعد یہ انتخابات موخر کردیے گئے تھے۔

آڈیو اینڈ وڈیو فورینزک

ایسا نہیں ہے کہ دنیا میں کوئی بھی شخص ڈیپ فیک ٹیکنالوجی کے ذریعے تیار کی گئیں تصاویر، آڈیو اور وڈیوکی شناخت نہیں کرسکتا۔ فورینزک سائنس کے ماہرین نے اس کا حل تلاش کرلیا ہے،لیکن ظاہر ہے کہ اس کے لیے تربیت یافتہ افراد اور آلات کی ضرورت ہوتی ہے۔

آڈیو ویژول اینالسس: اس شعبے میں جدید صوتی و بصری آلات کی مدد سے کسی مشکوک آواز یا تصویر کو اس حد تک بہتر بنانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ اسے شناخت کیا جاسکے۔ اس کے علاوہ کوئی جرم ہونے کے درست مراحل کی نقشہ کشی کی جاتی ہے یا انہیں واضح کیا جاتا ہے۔

ڈیجیٹل فورینزک: اس شعبے میں جدید آلات کی مدد سے ڈیجیٹل میڈیا، آڈیو، وڈیو، سیل فونز، سِم کارڈز سے نہ صرف ڈیٹا حاصل اور شناخت کیا جاتا ہے بلکہ اس کا تجزیہ بھی کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ ای میلز وغیرہ کا بھی سراغ لگایا جاتا ہے، اسےشناخت کیا جاتا ہے اور اس کا تجزیہ کیا جاتا ہے۔

جب کسی ڈیجیٹل آلے(مثلا کیمکورڈر،موبائل فون ،ڈیجیٹل ریکارڈر وغیرہ) سے کوئی آواز،تصویر یا مو وی ریکارڈ کی جاتی ہے تو مختلف کم اور زیادہ وولٹیجز بائنری کوڈ کی صورت میں صفر اور ایک کی سیریز میں محفوظ ہوجاتے ہیں جو کمپیوٹرکےلیے قابلِ فہم معلومات ہوتی ہیں۔ ہر ڈیجیٹل ریکارڈرچلائے جانے پر بائنری کوڈ کی کنورژن کے ذریعے آڈیو اور وڈیو کے سگنل دوبارہ پیدا کرتا ہے یعنی ری پروڈیوس کرتاہے۔ جب کسی ریکارڈنگ میں ریکارڈنگ کے بعد کسی بھی قسم کی ردوبدل کی جاتی ہے تو ان سگنلز میں تبدیلی آجاتی ہے جس کاماہرین جدید آلات کی مدد سے با آسانی سراغ لگالیتے ہیں۔ اس کے لیے وہ کراس پلس مانیٹر،فریکوئنسی جنریٹر، وڈیو سگنل جنریٹر،اوس سی لو ا سکو پ ،ویووفارم مانیٹر،ویکٹر اسکوپ، الائنمنٹ ٹیپس اور میگنیٹک ڈیولپنگ سلوشنز استعمال کرتے ہیں۔

فورینزک جانچ کے دوران ماہرین صرف تیکنیکی آلات پر انحصار نہیں کرتے بلکہ صوتیات ،ادائیگی،لہجے کے اتار چڑھاؤ، گفتگو کے انداز، گفتگو کے دوران آنے والے وقفوں وغیرہ کا بھی باریک بینی سے جائزہ لیتے ہیں۔ بعض صورتوں میں اس کام کے لیے مذکورہ شعبوں کے بہت خاص ماہرین کی مدد بھی حاصل کی جاتی ہے۔

جانچ کے دوران سب سے پہلے فراہم کردہ ریکارڈنگ کی صحت اور معیار کا جائزہ لیا جاتا ہے۔ اگر ریکارڈنگ کا اصلی نمونہ پیش کیا گیا ہو تواس سے ماہرین کو جانچ پڑتال میں کافی سہولت ہوتی ہے اور ایسی جانچ کے نتائج قانونی طورپر زیادہ قابلِ اعتبار تصورکیے جاتے ہیں۔ اگر ریکارڈنگ کا معیار خراب ہوتو اسے بہتر بنانے کے لیے کئی اقسام کے آلات استعمال کیے جاتے ہیں، جنہیں اینہانسر کہا جاتا ہے۔ 

یہ آلات آواز اور تصویر کا معیار بہتر بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ شور کم کرنے، ارد گرد کی آواز دبانے، ارد گرد کی اشیا کا رنگ کم یا زیادہ کرنے، ریکاڈنگ میں موجود اشخاص کے ملبوسات کا رنگ اور ان پر موجود ڈیزائن یا بٹن وغیرہ کو زیادہ واضح کرنےاوران کا رنگ تبدیل کرنےکی صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔ ان سے اسی طرح کے کئی اور کام بھی لیے جاتے ہیں۔ اس کام کے لیے ماہرین مختلف اقسام کے کمپیوٹر سافٹ ویئرز استعمال کرتے ہیں ، جنہیں کمپیوٹر ٹیکنالوجی کی زبان میں فلٹرز کہا جاتا ہے۔