• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہٹلر کے وزیرِ اطلاعات گوئبلز نے تاریخ میں پہلی بار ’’ جھوٹ بولنے ‘‘ کو ایک فن یا آرٹ کا درجہ دیا تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ جھوٹ کو سچ ثابت کرنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ جھوٹ کو بار بار بولا جائے اور اتنی بار بولا جائے کہ سننے والے سچ سمجھنے لگیں۔ اس گُر کو استعمال کرتے ہوئے ہٹلر اور اس کے ساتھیوں نے جرمن قوم کو دنیا کی بہترین قوم اور ایڈولف ہٹلر کو جرمن قوم کا نجات دہندہ قرار دے دیا۔ اور جرمنی کو پہلی جنگِ عظیم کے دوران شکست اور معاہدہ وارساکی ذلت آمیز شرائط کو قبول کرنے کی وجہ سے جو رسوائی اور ندامت ہوئی تھی، اسکے مداوے کے لیے ہٹلر کی شکل میں خدائی اوتار تک کے درجے پر پہنچا دیا۔ جرمن شاعر ور فلاسفر نطشے نے جرمن سپر ہیرو کا جو تصّور دیا تھا۔ ہٹلر اور اس کے ساتھیوں نے ہٹلر کو اس سپر ہیرو کے روپ میں پیش کرنا شروع کر دیا۔ 1933میں ہٹلر کے اقتدار میں آنے سے پہلے جرمنی معاشی طور پر تباہ حال ہوچکا تھا۔ یہ ہٹلر کی خوش قسمتی جبکہ پوری دنیا اور خصوصاََ جرمن قوم کی بد قسمتی تھی کہ ہٹلر کو ڈاکٹر شمٹ کی شکل میں ایک ایسا ماہر امورِ خزانہ مل گیا جسکی پالیسیوں کی وجہ سے جرمنی نہ صرف معاشی بدحالی پر قابو پانے میں کامیاب رہا بلکہ وہ یورپ کی معاشی طور پر طاقتور ترین قوم بن گیا۔ پوری دنیا اور جرمن قوم کی بدقسمتی اس لیے کہ اس معاشی کامیابی کی وجہ سے ہٹلر کے فاشزم نے 1939میں پوری دنیا اور جرمن قوم کو جنگِ عظیم دوئم کی بھٹّی میں جھونک دیا، جس سے ایک طرف پوری دنیا کے کروڑوں انسان ہلاک ہوگئے تو دوسری طرف جرمنی راکھ کا ڈھیر بن گیا اور دوحصّوں میں تقسیم ہوگیا۔ یہ تھا اس دورغ گوئی اور جھوٹے پروپیگنڈے کا انجام جس نے اُس پرانے آفاقی سچ کو ثابت کردیا کہ آپ ایک وقت میںکسی کو بیوقوف بنا سکتے ہیں لیکن ہر بار ایسا نہیں کر سکتے۔ آج جرمن قوم ہٹلر کا نام اس لیے بھی سننا پسند نہیں کرتی کہ اس نے اپنے جھوٹے پروپیگنڈے سے جرمنی کو مزید رسوائی سے دوچارکیا۔ یہی صورتِ حال آج کل پاکستان میں ہے۔ عمران خان اور اس کے گو ئبلز بھی دن رات جھوٹ بول بول کر نہ صرف پاکستان کے تعلقات بیرونی ممالک سے خراب کر رہے ہیں بلکہ اندرونِ ملک عوام میں نفرتیں تقسیم کر کے ملک کو خانہ جنگی کی طرف لے جارہے ہیں، جس کے خوفناک نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ عمران کے چار سالہ دور میں ہٹلر کی طرح نہ تو پاکستان میں سیاسی استحکام آسکا اور نہ ہی معاشی خوشحالی بلکہ ہرادارے کی طرح معیشت بھی بری طرح تباہ ہوگئی اور 1951کے بعد پاکستانی معیشت پہلی مرتبہ منفی درجے میںچلی گئی، اس تناظر میںہم کہہ سکتے ہیںکہ 92کا ورلڈ کرکٹ کپ جسے ہم ہمیشہ اعزاز سمجھتے رہے ہیں، قومی زندگی کیلئے بہت تکلیف دہ ثابت ہوا۔ جسے ایک سیاسی شعور سے عاری، متکبّر اور ضدی شخص نے اپنی ہوس ِ اقتدار کے لیے استعمال کیا۔ دس سال تک ہر طرح کی بے اصولی کرنے کے بعد بھی جب وہ کامیاب نہ ہوا تواسٹیبلشمنٹ نے اسے اقتدار میں لانے اور ’’پروجیکٹ عمران ‘‘ کو سپورٹ کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس مقصد کے لیے ہر طرح کا غیر آئینی حربہ استعمال کیا گیا۔ اسے نہ صرف اقتدار پلیٹ میں رکھ کر پیش کیا گیا بلکہ اسکی نا اہلی اور نالائقی کے باوجود قدم قدم پر اسے تحفظ فراہم کیا گیا۔ مگر اس کی خود نمائی، خود پسندی اور انتقامی کارروائیوں نے ہر ادارے کو تباہ و برباد کرکے رکھ دیا۔ اس کے تمام دعوے ریت کی دیوار کی طرح بکھر گئے۔ جب اس نے اپنے ہی لانے والوں کے ادارے میں بھی من مانی کرنا شروع کردی توا س ادارے نے مزید رسوائی سے بچنے کے لیے غیر جانبدار ہونے کا فیصلہ کیا۔ چنانچہ جب انہوں نے اپنی بیساکھیاں واپس لے لیں تو اسکی حکومت دھڑام سے نیچے گرِ گئی۔ اسکے پاس اپنی کارکردگی دکھانے کے لیے تو کچھ نہیں تھا چنانچہ اچانک اس نے ایک نام نہاد ’’امریکی سازش ‘‘ کا واویلا مچانا شروع کردیا۔ اور گوئبلز کے نقشِ قدم پر چلتے ہوے اتنا جھوٹ بولا کہ خدا کی پناہ۔ حالانکہ سلامتی کے اداروں نے دو مرتبہ واضح طور پر اس سازش کی تردید کردی۔ اس کے بیانات خوداس سازشی افسانے کے حوالے سے تضادات کا مجموعہ ہیں۔ کبھی کہا گیا کہ میں اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ میرے خلاف عدمِ اعتماد کی قرارداد پیش کی گئی ہے، کبھی کہا کہ مجھے جولائی 2021ء سے اس سازش کا علم تھا۔ پھر کہا گیا کہ سازشی مراسلہ 7مارچ 2022کو ملا۔ مگر اسے 27مارچ تک مخفی رکھا گیا۔ گویا جھوٹ پر جھوٹ بولے گئے۔ جب آئینی طریقے سے اس کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کی گئی۔ تو اسے ناکام بنانے کے لیے آئین پر حملہ کردیا اور غیر آئینی طریقے سے اسمبلیوں کو تحلیل کردیا۔جسے سپریم کورٹ کے پانچ ججوں نے متفقہ طور پر غیر آئینی قرار دے کر بحال کردیا۔ لیکن مرکز اور پنجاب میں جو گھنائونا غیر آئینی کھیل کھیلا گیا، وہ پاکستانی تاریخ کا سیاہ باب ہے۔ اس نے اداروں کے ساتھ ساتھ قوم کو بھی تقسیم در تقسیم کردیا ہے۔ اگر بروقت اس صورتِ حال کا تدارک نہ کیا گیاتو خطرہ ہے کہ پاکستان بھی کہیں گوئبلز کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے جرمنی جیسی تباہی سے دوچار نہ ہوجائے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس

ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین