• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ملک کی سیاست میں توشہ خانے کا معاملہ ایک بار پھراچھلا ہے۔ اس مرتبہ فرق یہ ہے کہ الزام اس شخص پر لگا ہے جس نے ماضی قریب میں پاکستان میں توشہ خانے میں مبینہ بدعنوانیوں کواپنی انتخابی مہم کے دوران تقاریر میں بہت اہمیت دی تھی اور تین سابق وزرائے اعظم کو بہت مطعون کیا تھا۔نیرنگیِ سیاستِ دوراں تو دیکھیے کہ اب وہ شخص خود ’’سابق وزیر اعظم ‘‘ ہے اور جنہیں اس نے اس معاملے میں مطعون کیا تھا وہ اسے اسی عمل سے گزار رہے ہیں۔ وقت آج عمران خان کو کٹہرے میں لے آیا ہے ۔ وہ ان دنوں بیرون ملک سے ملنے والے قیمتی تحائف کم قیمت پر خرید کر بازار میں فروخت کردینے کے ضمن میں حکومت اور حزبِ اختلاف کی جماعتوں کی شدید تنقید کی زد میں ہیں۔

کابینہ ڈویژن کی جانب سے حال ہی میں جاری کی جانے والی سرکاری دستاویز کے مطابق عمران خان اور ان کی اہلیہ نے اگست2018سے دسمبر 2021 تک توشہ خانے سے اٹھاون سے زاید تحائف خریدے یا قانون کے مطابق تیس ہزار سے کم مالیت کے تمام تحائف مفت میں رکھ لیے۔ خریدے جانے والے تحائف کی قیمت سرکاری حکام کی طرف سے 14 کروڑ 20 لاکھ روپے لگائی گئی۔ سابق وزیراعظم نے اس کے عوض تین کروڑ 81 لاکھ ادا کیے۔ انہوں نے آٹھ لاکھ کے مفت تحائف بھی رکھ لیے۔

صدر مملکت عارف علوی اور ان کی اہلیہ کو اسی مدت میں کل 92 تحائف ملے جن کی قیمت 45لاکھ 47ہزار لگائی گئی۔ صدر مملکت قومی خزانے میں 14لاکھ 92 ہزارجمع کراکے وہ تحائف گھر لے گئے۔صدر مملکت نے بھی نو لاکھ روپے کے مفت تحائف لیے ہیں۔

قانون کے مطابق تیس ہزار روپے سے کم مالیت کا تحفہ مفت میں لیا جا سکتا ہے۔ عمران خان نے جو تحائف بلامعاوضہ رکھ لیے ان میں30ہزار روپے کا ٹیبل میٹ، 20 ہزارکا ڈیکوریشن پیس، 20 ہزار کا لاکٹ، 25ہزار کا مکہ کلاک ٹاور کا ماڈل، نو ہزارکا ڈیکوریشن پیس اور آٹھ ہزار روپے کی وال ہینگنگ شامل ہیں۔

سابق وزیراعظم عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کی جانب سے خریدے گئے منہگے تحائف میں آٹھ کروڑ 50 لاکھ روپے کی گراف گھڑی بھی شامل ہے جو انہوں نے صرف ایک کروڑ ستر لاکھ روپے خزانے میں جمع کروا کر لے لی۔ اس طرح انہوں نے گھڑی سمیت چار تحائف لیے جن کی مجموعی قیمت کا سرکاری تخمینہ 10 کروڑ نو لاکھ روپے بنتا ہے ،تاہم سابق وزیراعظم عمران خان نے اس قیمت کا صرف 20 فیصد یعنی دو کروڑ دو لاکھ روپے دے کر انہیں خرید لیا۔ ان تحائف میں 56 لاکھ روپےکے کف لنکس، 15 لاکھ کا ایک قلم اور 87لاکھ 50 ہزار روپے کی انگوٹھی شامل ہیں۔ اسی طرح انہوں نے ایک 38لاکھ روپےمالیت کی رولیکس گھڑی سات لاکھ 54 ہزار میں خریدی۔

اگست میں حکومت سنبھالنے کے چھ ماہ کے اندر اندر دسمبر 2018 تک سابق وزیراعظم عمران خان ،دس کروڑ روپے سے زاید مالیت کے تحائف 20 فیصد ادائیگی پر خرید چکے تھے۔ اس کے بعد قانون تبدیل کرکے تحفے کی لگائی گئی قیمت کا 50 فی صد ادا کرنا ضروری قرار دے دیا گیا۔ اس نئے قانون کےنفاذ کے بعد سابق وزیراعظم نے صرف چار کروڑ روپے کے تحائف خریدے۔ 

اس طرح متعدد اور گھڑیوں اور تحائف سمیت کل 14 کروڑ سے زاید مالیت کے تحائف سابق وزیراعظم نے تین کروڑ 81 لاکھ روپے میں خریدے۔ موجودہ وزیراعظم شہباز شریف کا دعویٰ ہے کہ بعد میں یہی تحائف دبئی میں بیچ دیے گئے۔ دوسری جانب وفاقی وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب کا کہناہے کہ صرف گھڑی کے حوالے سے اطلاعات ہیں کہ وہ اٹھارہ کروڑ روپے میں فروخت کی گئی۔

تاہم سابق وزیراعظم عمران خان نے یہ تحائف خریدنے کا دفاع کیا ہے اور کہا ہے کہ انہوں نے کوئی غیر قانونی کام نہیں کیا بلکہ قواعد کے مطابق ادائیگی کرکے سرکاری تحائف لیے۔ ان کا کہنا تھا کہ میرے تحائف، میری مرضی، میں ان کے ساتھ جو بھی کروں۔ انہوں نے اس سلسلے میں ریٹائرڈ فوجی افسران کو ڈی ایچ اے میں ملنے والے پلاٹس کی مثال دی اور کہا کہ افسران وہ پلاٹ لے کر انہیں بیچ بھی سکتے ہیں اور جو چاہیں اس کے ساتھ کر سکتے ہیں۔

مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ، ٹوئٹر پر ٹوئٹ کیا کہ عمران خان نے گھڑی اور ہار پہلے خریدے ،پھر بیچ دیے، اصل کہانی نہیں۔ عمران نے وہ گھڑی اور ہار کتنے میں حکومت سے خریدے اور کتنے میں بازار میں فروخت کیے، اصل کہانی ہے ۔اور وہ تحائف خریدنے کے لیے ان کے پاس پیسے کہاں سے آئے، اصل سوال ہے، کیوں کہ سابق وزیراعظم کی تن خواہ کے علاوہ ان کا کوئی ذریعہ آمدن نہیں ہے۔

ماضی سے حال کا سفر

یہ تقریبا ڈیڑھ برس قبل کی بات ہے۔ کابینہ ڈویژن نے منتخب اشرافیہ کےلیے ایک خط جاری کیا تھا جس میں کہا گیا تھا : ’’یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ توشہ خانہ میں موجود کئی اشیاء وفاقی حکومت کے افسران اور مسلح افواج کے افسران میں فروخت کےلیے پیش کی جا رہی ہیں، اس کےلیےسر بہ مہر بولیاں طلب کی جائیں گی اور نیلامی ہوگی۔‘‘ جب یہ معاملہ ذرایع ابلاغ تک پہنچا تو اسے لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج کر دیا گیا۔ 

عدالت نے وفاقی حکومت کو حکم دیا کہ نیلامی روکی جائے۔اپنی درخواست میں درخواست گزار نے ان تحائف کی تفصیلات پیش کی تھیں جو صدر مملکت، وزیر اعظم اور دیگر وزراء کو مختلف سربراہانِ مملکت نے دیےتھے اور انہیں توشہ خانے میں رکھا گیا تھا۔ درخواست گزار کا موقف تھا کہ ان تحائف کو کسی قانونی طریقہ کار کے بغیر سرکاری افسران کو فروخت کیا جا ر ہا تھا۔ یہ بھی کہا گیا تھا کہ نیلامی کا عمل آئین کے آرٹیکل 25 کی خلاف ورزی ہے۔

معاملہ عدالت تک پہنچا

عدالت نے نو ستمبر 2020کو اس درخواست کی سماعت کے دوران آئندہ سماعت 13جنوری 2021تک ملتوی کر دی تھی۔ اس سماعت پر عدالت نے وفاقی حکومت سے پانچ برسوں کا ریکارڈ طلب کرلیاتھا اور وفاق کے وکیل کو ہدایت کی تھی کہ اب تک اس طرح کی کتنی نیلامیاں ہوئیں اور کن کن نے اس میں حصہ لیا، عدالت کو بتایا جائے۔

عدالت نے پچیس نومبر کو ہونے والی نیلامی روکنے کے اپنے حکم امتناع میں بھی توسیع کر دی تھی۔ عدالت نے اٹارنی جنرل آف پاکستان سمیت دیگر فریقین کو نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب طلب کیا تھا۔ اس سے قبل ہونے والی سماعت پر وفاق کے وکیل نے درخواست کی مخالفت کی تھی ۔ سرکاری وکیل کا کہنا تھا کہ تمام قانونی تقاضے پورے کرنے کے بعد نیلامی ہو رہی ہے۔

نو ستمبر کو چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ ، محمد قاسم خان نے، شہری عدنان احمد پراچہ کی درخواست پر سماعت کی تھی۔ اس موقعے پر سرکاری وکیل کا موقف تھاکہ وفاقی کابینہ کی منظوری سے نوٹی فکیشن جاری کیا گیاہے، اجازت دیں تو پڑھ دیتا ہوں۔ سرکاری وکیل نے نیلامی کی شرائط اور قانون پڑھ کر سنایا۔ درخواست گزار نےکہاکہ صدرمملکت، وزیراعظم، وزراء اوراعلی حکام کو سرکاری دوروں پر ملنے والے تحائف توشہ خانے میں جمع ہوتے ہیں۔ توشہ خانے کے سرکاری تحائف کوقانونی جواز کے بغیر خفیہ طورپرنیلام کیا جارہا ہے۔

خفیہ نیلامی میں شمولیت کے لیے عوام الناس کے بجائے صرف سرکاری افسروں کو خطوط لکھے گئے ہیں۔ عدالت پچیس نومبر کو ہونے والی خفیہ نیلامی کو روکنے کا حکم دے۔ نیلامی میں خواص کو شامل کرنا اور عوام الناس کو نظر انداز کرنا آئین کے آرٹیکل پچّیس کی خلاف ورزی ہے ۔عدالت نیلامی کےعمل میں عوام الناس کو شامل کرنے اور نیلامی عام کرنے کا حکم دے۔

خفیہ نیلامی غیر آئینی قرار پائی

اس مقدمے میں درخواست گزار کی جانب سے اٹھائے گئے سوالات اور عدالت میں حکومت کی جانب سے پیش کیے گئے موقف کی وجہ سے یہ معاملہ بہت عوامی بن گیا اور پھر اسے سیاست دانوں نے بھی اچھالا۔ گزشتہ برس پچّیس مئی کو لاہور ہائی کورٹ نے توشہ خانے کے سرکاری تحائف کی خفیہ نیلامی روکنےکے لیے دائر درخواست کی سماعت کرتے ہوئے خفیہ نیلامی کی پالیسی غیر آئینی قرار دے دی تھی۔ لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس قاسم خان نے کیس کی سماعت کرتے ہوئے حکم دیا تھاکہ حکومت اس پر قانون سازی کرے۔

درخواست گزار کے وکیل نے عدالت میں مؤقف اختیار کیا کہ توشہ خانے کی چیزیں پبلک پراپرٹی ہیں۔ چیف جسٹس نے سرکاری وکیل سے سوال کیا کہ کیا آئین اس پروسیجر کو سپورٹ کرتا ہے؟ کیا اس میں پیپرا رولز پر عمل ہو جاتا ہے؟ اس پر ڈپٹی اٹارنی جنرل نے کہا کہ میں پالیسی بتا سکتا ہوں۔ چیف جسٹس قاسم خان نے استفسار کیا کہ کیا پالیسی بنیادی حقوق اور پیپرا رولز کے خلاف جا سکتی ہے؟ ڈپٹی اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ دو ریاستوں کی اہم شخصیات کے مابین تحائف کے تبادلے ہوتے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ یہ شخصیات کا نہیں بلکہ ریاست کا ریاست کو تحفہ ہوتا ہے۔ 

وہ ریاستِ پاکستان کےلیے گفٹ لیتے ہیں، اگر یہ لوگ (حکم راں) عہدوں پر نہ ہوں تو کیا گفٹ لے سکتے ہیں؟ وہ تمام افرادقابلِ عزت ہیں جنہیں ریاستِ پاکستان کےلیے گفٹ ملتے ہیں، تشویش اس بات پر ہے کہ کروڑوں کی چیز کو کوڑیوں کے بھاؤ کیوں بیچتے ہیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ان چیزوں کا عجائب گھر بنا دیں، عوام کو بولی میں شامل نہ کرنا دھتکارنے کے مترادف ہے۔ڈپٹی اٹارنی جنرل نے کہا کہ عوام کو حق دیا جاتا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اچھی چیزیں لینے کے بعدچار چیزیں عوام کو دے دیتے ہیں۔

ملکی مفاد اور دوستوں کی ناراضی کاخدشہ

نواز شریف کے آخری دور میں حکم راں مذکورہ تحفوں کا صرف پندرہ فی صد ادا کرکے اُسے اپنے پاس رکھ سکتے تھے۔ یہ قانون 2018 میں تبدیل ہوا اور اب اس قانون کے تحت مجازافرادتحفے کی کل مالیت کاپچاس فی صد ادا کر کے تحفہ اپنے پاس رکھ سکتے ہیں۔

پاکستان میں گزشتہ ایک دہائی سے ملک کی اعلیٰ شخصیات خصوصاً حکم رانوں کے غیر ملکی دوروں کے دوران ملنے والے بیش قیمت تحائف کا تذکرہ ہوتا رہتا ہے۔ اس معاملے کو اس وقت زیادہ عوامی توجہ ملی جب سابق دورِ حکومت میں اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف نے غیر ملکی دوروں سے ملنے والے تحائف کی تفصیل منظر عام پر لانے کو ملکی مفاد کے خلاف قرار دیاتھا۔اس کے ردعمل میں اس وقت کی حزب اختلاف کی جماعت تحریک انصاف کے راہ نماعمران خان نے الزام عاید کیا تھا کہ ان تفصیلات کو چھپانے کی وجہ اسٹیٹ گیسٹ کے طور پر ملنے والے بیش قیمت تحفے مقررہ قیمت سے کم پر لیا جاناہے۔ 

ان الزامات کے بعد نواز شریف کو یہ تفصیلات منظر عام پر لانا پڑی تھیں جنہیں پاکستان انفارمیشن کمیشن (پی آئی سی) میں جمع کرایا گیا تھا۔ پھر وقت کا پہیہ گھوما۔ پی ٹی آئی کی حکومت نے توشہ خانے میں رکھے غیر ملکی تحائف کی نیلامی کرائی تو ایک شہری کی درخواست پر پی آئی سی کی جانب سے حکومت کو ہدایت کی گئی تھی کہ پی ٹی آئی کے دور حکومت میں ملنے والے تمام تحفے، خاص طور پر وہ تحائف جو وزیر اعظم اور وزرا نےرکھے ہیں، ان کی تفصیل فراہم کی جائے۔

قانونی ماہرین کے مطابق حکومت یہ تفصیل جمع کرانے کی پابند ہے، مگرپی ٹی آئی کی حکومت نے پی آئی سی میں یہ جواب جمع کرا یاتھا کہ غیر ملکی تحائف کی تفصیل دینے سے ان ممالک سے تعلقات متاثر ہوسکتے ہیں، اس لیے انہیں ملکی مفاد میں جاری نہیں کیاجا سکتا۔ یعنی وہ ہی جواب جو کل میاں نواز شریف کی حکومت میں دیا گیا تھا،یعنی ’’ ملکی مفاد کے خلاف‘‘۔بس تھوڑا الفاظ کا ہیر پھیر تھا۔

سابق حکومت کے دور میں کابینہ ڈویژن کی جانب سے جاری کردہ مراسلے کے مطابق سربراہان مملکت اور دیگر وزرا کو ملنے والے 170سے زاید تحائف کو بولی کے تحت نیلام کیا گیا تھا۔ ان تحائف میں رولیکس گھڑیاں، سونے کے زیورات، مختلف ڈیکوریشن پیسز، سوینیئرز، ہیرےجڑے قلم، کراکری اور قالین وغیرہ شامل تھے۔ اسی معاملے پر ایک شہری نے پی آئی سی میں پی ٹی آئی کی حکومت ،بہ شمول وزیر اعظم کو ملنے والے تحائف کی تفصیل مانگی تھی۔

اس پر حکومت نے ملکی مفاد میں نہ ہونے کا جواز بنا کر وضاحت جمع کرائی تھی جسے عوامی حلقوں میں زبردست تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ان حلقوں کا کہنا تھا کہ جب پاکستان کے تین سابق حکم راںان دنوں توشہ خانے سے غیر قانونی طور پر تحائف حاصل کرنے پر مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں جن میں سابق صدر آصف علی زرداری اور سابق وزرائے اعظم نواز شریف اور یوسف رضا گیلانی شامل ہیں اور توشہ خانے سے قیمتی کاروں کی خلاف ضابطہ خریداری پر قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے ریفرنس بنایا گیا، جس میں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی مرکزی قیادت پر اثر ورسوخ استعمال کرکے غیر ملکی تحائف کم قیمت پر حاصل کرنے پر ملزم نام زد کیا گیا ہے تو موجودہ حکومت میں شامل افراد اس ضمن میں تلاشی دینے سے انکاری کیوں ہیں؟

توشہ خانےسے پیشیاں بھگتنے تک

پاکستان کے تین سابق حکم رانوں کو توشہ خانے سے غیر قانونی طور پر تحائف حاصل کرنے پر مقدمات کا سامنا کرنا پڑا۔ ان میں سابق وزرائے اعظم نواز شریف، یوسف رضا گیلانی اور سابق صدر مملکت آصف علی زرداری شامل ہیں۔ توشہ خانے سے قیمتی کاروں سے متعلق خلاف ضابطہ خریداری نیب کا وہ خاص ریفرنس بناجس میں ملک کی دونوں بڑی جماعتوں پاکستان مسلم لیگ نواز اور پاکستان پیپلز پارٹی کی مرکزی قیادت پر ملی بھگت، گٹھ جوڑ اور پارٹنرشپ کے الزامات عاید کرتے ہوئے انہیں ایک ہی ریفرنس میں ملزم نام زد کر دیا گیا تھا۔

نیب کے ریفرنس کے مطابق یوسف رضا گیلانی جب وزیر اعظم تھے تو انہوں نے قوانین میں نرمی کر کے سابق صدر آصف زرداری اور سابق وزیر اعظم نواز شریف کو توشہ خانے سے گاڑیاں خریدنے کی اجازت دی تھی ۔ اسلام آباد کی احتساب عدالت نے توشہ خانے سے گاڑیوں کی غیر قانونی طریقےسے خریداری کے مقدمے میں سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کیے تھے۔

نیب کے ریفرنس کے مطابق آصف زرداری نے بہ حیثیت صدر، متحدہ عرب امارات سے تحفے میں ملنے والی آرمڈ کار بی ایم ڈبلیو 2005 Li 750 ، لیکسس جیپ 2007اور لیبیا سے تحفے ملنے والی بی ایم ڈبلیو 760 Li 2008 توشہ خانے سے خریدی ہیں۔ نیب کا دعویٰ ہے کہ آصف زرداری نے ان قیمتی گاڑیوں کی قیمت منی لانڈرنگ والے جعلی بینک اکاؤنٹس سے ادا کی تھی۔ 

ریفرنس میں ان بینک اکاؤنٹس کی تفصیلات بھی بتائی گئی ہیں جن سے مبینہ طور پر آصف زرداری نے ادائیگیاں کی ہیں۔ ریفرنس کے مطابق آصف زرداری گاڑیاں توشہ خانے میں جمع کرانے کے بجائے خود استعمال کر رہے ہیں اورانہوں نے عوامی مفاد پر ذاتی مفاد کو ترجیح دی۔ علاوہ ازیں میاں نواز شریف کی جائیداد نیلام کرنے اور انہیں اشتہاری قرار دینے کے احکامات ایسے ہی مقدمات میں جاری ہوئے۔

سیاست کا ایک عنوان

حکم رانوں کو غیر ممالک سے ملنے والےتحائف بھی ہماری سیاست کا ایک عنوان بن چکے ہیں، کوئی تفصیلات بتانے سے انکاری ہے توکوئی اس معاملے میں اشتہاری بنا اور کسی کی جائیدا دکی نیلامی کا حکم ہوا،لیکن یہ معاملہ ختم نہیں ہوا۔ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے وزیر اعظم پاکستان اور صدر مملکت سمیت وفاقی وزیروں کو دوست ممالک کی جانب سے ملنے والے تحائف کی نیلامی کی تفصیلات کو 'قومی مفاد سے متعلق حساس معلومات قرار دے کر کے یہ معلومات جاری کرنے سے انکار کر دیا اور کابینہ ڈویژن کی جانب سے جاری شدہ مراسلے کے مطابق ان اشیا کی نیلامی میں صرف سرکاری ملازمین اور فوج کے ملازمین نے حصہ لیا۔ 

پی ٹی آئی کی حکومت نےپاکستان انفارمیشن کمیشن کے سامنے یہ موقف اپنایا کہ یہ معلومات 'حساس اور 'قومی مفاد سے متعلق ہیں۔ ان کے مطابق یہ تحائف سربراہان ممالک کو ذاتی حیثیت میں دیے گئے اور میڈیا غیر ضروری طور پر اس بات کا بتنگڑ بنا سکتا ہے جس سے پاکستان کے دوست ممالک سے تعلقات پرمنفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔

پھرسابق وزیر اعظم کے معاون، شہباز گل نے ٹوئٹر پر پہلے ایسے صارفین کی خبر لی جو اس معاملے میں معلومات تک رسائی کا مطالبہ کر رہے تھے اور پھر یہ دعویٰ بھی کر دیا کہ اگر کسی کو یہ تحفہ اپنے گھر رکھنا ہوتا ہے تو اس کی آدھی قیمت ادا کر کے وہ اسے لے جا سکتا ہے۔ تاہم جب ایک غیرملکی نشریاتی ادارے نے ان سے ایسے کسی ثبوت اور پالیسی سے متعلق پوچھا تو انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا تھا۔ خیال رہے کہ سابق حکومت کے کابینہ ڈویژن نے پاکستان انفارمیشن کمیشن کے اس فیصلے کو ہائی کورٹ میں چیلنج کیاتھا جس میں عمران خان کو وصول ہونے والے تحائف کی تفصیلات مانگی گئی تھیں اور حکومتی اپیل اسلام آباد ہائی کورٹ کافیصلہ آنا باقی ہے۔

نیلامی کے راز سرکاری فائلز تک محدود

وزیر اعظم عمران خان جب حزب اختلاف میں تھے تو وہ حکم رانوں کی جانب سے کم قیمت پر توشہ خانہ سے تحائف حاصل کرنے کو ہدف تنقید بنایا کرتے تھے۔ مگر گزشتہ برس تحریک انصاف کی حکومت کے دوران ہونے والی نیلامی میں کیا ہوا اور وہ کون خوش قسمت لوگ ہیں جو ان تحائف کے حق دار قرار پائے، یہ راز ابھی صرف سرکاری فائلز تک محدود ہے، کیوں کہ سابق حکومت نے موقف اختیار کیا تھا کہ یہ معاملہ قومی مفاد سے منسلک ہے۔ حالاں کہ پاکستان انفارمیشن کمیشن نے ماضی میں معلومات تک رسائی کے قانون کے تحت ایسی معلومات عام کرنے کے احکامات دیے تھے جن پر باقاعدہ عمل بھی ہوا اور مقامی ذرایع ابلاغ میں یہ تفصیلات شائع اور نشر بھی ہوئیں۔

نیلامی کا طریقۂ کار

حکم رانوں کی جانب سے توشہ خانے میں جمع کرائے گئے تحائف حکومت کے بنائے ہوئے قواعد کے تحت ہی فروخت کیے جا سکتے ہیں۔ اگر کوئی سربراہ مملکت یا حکومت چاہے تو وہ ملنے والے کسی تحفے کو مخصوص رقم ادا کر کے اپنے پاس رکھ سکتاہے، مگر پاکستان اوربھارت میں ایسے تحائف کی نیلامی بھی کی جاتی ہے اور اس سے حاصل ہونے والا پیسہ ریاست کے خزانے میں جاتا ہے۔ 

کابینہ ڈویژن کے حکام کے مطابق یہ نیلامی ہر سال ہونا ہوتی ہے، لیکن چوں کہ ایک برس کے دوران سربراہان مملکت اور وزرا کے دوروں کے دوران اتنے تحائف اکٹھے نہیں ہو پاتے کہ ہر برس نیلامی کا انعقاد کیا جا سکے، لہذا ہر برس ایسا نہیں ہوتا۔

کسی بھی بیرون ملک کے دورے کے دوران وزرات خارجہ کے اہل کارملنے والے تحائف کا اندراج کرتے ہیں اور ملک واپسی پر انہیں توشہ خانے میں جمع کرایا جاتاہے جس کے بعدا سٹیٹ بینک سے باقاعدہ ان کی مارکیٹ ویلیو کا تعین کرایا جاتا ہے۔ حکام کے مطابق اگر ان تحائف کی مالیت تیس ہزار روپے سے کم ہو تو وزیر اعظم، صدر یا وزیر، جنہیں یہ تحفہ ملا ہوتا ہے انہیں توشہ خانے کے قوانین کے مطابق یہ مفت لینے کی پیشکش کی جاتی ہے۔ تاہم اگر تحفے کی مالیت تیس ہزار روپے سے زیادہ ہو تو اس تحفے کی مالیت کا پچاس فی صد حصہ ادا کر کے اسے رکھا جا سکتا ہے۔ لیکن دونوں صورتوں میں یہ ضروری ہے کہ وہ کوئی تاریخی یا نادر شئے نہ ہو۔

اگر سربراہان مملکت یا وزرا یہ تحائف نہیں رکھتے تو پھر ان کی فہرستیں تیار کر کے انہیں توشہ خانے کے قوانین کے مطابق سرکاری ملازمین اور فوج کے افسران کو نیلامی کےلیے پیش کیا جاتا ہے۔ نیلامی کی قیمت کا تعین دوبارہ ایف بی آر اورا سٹیٹ بینک سے کرایا جاتا ہے اور ان میں سے چند اشیا کی قیمت کو مارکیٹ ویلیو سے کچھ کم رکھا جاتا ہے۔ چند ایسے تحائف جو کسی خاص سربراہ ملک کی جانب سے ملے ہوں ان کی اہمیت اور اعزازی مالیت کے تحت ان کی قیمت مارکیٹ سے زیادہ رکھی جاتی ہے۔

توشہ خانے کے قواعد کے مطابق ان تحائف پر پہلا حق اس کا ہے جس کو یہ تحفہ ملا ہوتا ہے، اگر وہ اسے نہیں لیتے تو پھر سرکاری ملازمین اور فوج کے اہل کاروں کے لیے نیلامی کی جاتی ہے۔ اس نیلامی سے جو اشیا بچ جائیں انہیں عوام کے لیے نیلامی میں رکھ دیا جاتا ہے۔ جو بھی فوجی یا سرکاری ملازم یہ بیش قیمت اشیا خریدتے ہیں انہیں اپنے ذرایع آمدن ظاہر کرنے کے ساتھ اس پر لاگو ٹیکس ادا کرنا ہوتا ہے۔

معلومات تک رسائی سے متعلق قوانین پر گہری نظر رکھنے والے ماہرین کے مطابق تحائف سے متعلق درست خبر نہ دے کر شاید پی ٹی آئی کی حکومت اصل ایشوز سے توجہ ہٹانا چاہتی تھی۔ اس وقت ایک طرف جھوٹی خبروں سے متعلق قانون سازی پر بات ہو رہی تھی اور دوسری طرف حکومت درست اور مصدقہ معلومات کے دروازے خود بند کر رہی تھی۔

ماہرین کے خیال میں یہ عمومی نوعیت کی معلومات تھیں جنہیں قومی مفاد اور خارجہ پالیسی سے جوڑ دیا گیا ہے۔ ماضی میں عمران خان خود ٹرانسپیرنسی کے نہ صرف حامی تھے بلکہ انہوں نے معلومات تک رسائی سے متعلق قانون سازی میں اہم کردار ادا کیاتھا۔ لیکن وزیر اعظم بننے کے بعد عمران خان بھی شفافیت کو یقینی بنانے پر آمادہ نظر نہیں آئے تھے۔