٭…"اقبال کے انتقال کے کچھ دن بعد ہی میں لاہور گیا۔ یہ پہلا موقع تھا جب میں نے جاوید اور بانو منیرہ کو دیکھا۔
جاوید کسی قدر سیانا تھا، ایک حد تک خاموش اور کم آمیز۔ کھل کر ملنے یا بات کرنے میں بھی تکلف کرتا تھا۔ مجھے معلوم تھا کہ مرحوم کو جاوید کس درجہ عزیز تھا اور وہ اس کو کیا دیکھنا چاہتے تھے اور جاوید ان کے کلام میں کہاں کہاں اور کس کس طرح جاری و ساری تھا لیکن میں نے کچھ ایسا محسوس کیا کہ خود جاوید پر اس کا وہ اثر نہیں ہے جو ہونا چاہئیے تھا۔
بانو مشکل سے چھ سات سال کی عمر ہوگی، کیسی تندرست، چنچل، ذہین، خوبصورت بھولی بھالی بچی۔ ایسی لڑکی جو صرف ڈاکٹر اقبال کی لڑکی ہوسکتی تھی!
بچوں کی دیکھ بھال پر مامور جرمن خاتون نے بتایا کہ ڈاکٹر اقبال کی وفات کے بعد ایک رات بانو حسب معمول میری چارپائی پر کھلے آسمان تلے لیٹی ہوئی تھی، باتیں کرتی اور خاموش ہوجاتی، پھر باتیں کرنے لگتی لیکن رہ رہ کر کسی ذہنی الجھن میں مبتلا ہوجاتی۔
میں نے پوچھا 'بانو، آج کیا بات ہے؟ تم اچھی اچھی باتیں کیوں نہیں کرتی؟ ' بانو نے کہا 'آپا جان، ابا تھے تو یہ چاند اور ستارے کتنے چمکدار اور اچھے لگتے تھے، اب کیوں نہیں چمکتے؟ '۔
خود اقبال کو بانو منیرہ سے عشق تھا۔ بالکل آخری حیات میں ڈاکٹر صاحب کا جی صرف بانو سے بہلتا اور بانو بھی مرحوم سے اسی طور پر وابستہ ہوگئی تھی جیسے مرحوم اس کی ماں، اس کی ہم جولی اور اس کا کھلونا، سبھی کچھ تھے۔
جرمن خاتون کا بیان ہے کہ جب مرض نے نازک صورت اختیار کرلی اور مرحوم پر ضعف کی وجہ سے اکثر غفلت طاری ہوجاتی تو ڈاکٹروں نے مریض کے کمرے میں بانو تک کا آنا بند کردیا۔ ایک بار ایسا اتفاق ہوا کہ بانو معلوم نہیں کیسے ڈاکٹر صاحب کے کمرے میں آگئی جہاں اور کوئی نہ تھا۔
میں پہنچی تو کیا دیکھتی ہوں کہ بانو ڈاکٹر اقبال کے سینہ پر بیٹھی بے تکلف باتیں کیے جارہی ہے۔ میں گھبرا اٹھی۔ سر اقبال کی بینائی تقریباً زائل ہوچکی تھی۔ میں نے دبے پاؤں جا کر بانو کو بہلا کر جدا کرنا چاہا۔
اقبال کمزوری کے باعث بول بھی نہ سکتے تھے، بڑی نحیف آواز میں کچھ ایسا کہا اور ان کی تقریباً بند آنکھوں میں کچھ ایسی جنبش ہوئی جیسے وہ چاہتے تھے کہ بانو کو ذرا دیر کے لیے جوں کا توں رہنے دیا جائے۔
بانو کے اس طرح موجود ہونے سے جیسے ان پر گونہ اطمینان سا طاری تھا اور زندگی کی ڈوبتی بجھتی قندیل کو وہ اپنے جذبہ امتنان و مسرت سے ایک لمحہ کے لیے اور ابھارے اور روشن کیے ہوئے رکھنا چاہتے تھے۔" (رشید احمد صدیقی)
………٭٭……٭٭……
٭…ایک بار ایک درویش علّامہ اِقبالؒ کے پاس آیا. آپ نے حسب عادت اُس سے دعا کی درخواست کی. پوچھا،’’دولت چاہتے ہو؟‘‘ علّامہؒ نے جواب دیا: "میں درویش ہوں۔ دولت کی ہوَس نہیں." پوچھا "عِز و جاہ مانگتے ہو؟" جواب دیا: "وہ بھی خدا نے کافی بخش رکھی ہے." پوچھا "تو کیا خدا سے ملناچاہتے ہو؟"
جواب دیا "سائیں جی کیا کہہ رہے ہو. میں بندہ وہ خدا. بندہ خدا سے کیوں کر مِل سکتا ہے؟ قطرہ دریا میں مل جائے تو قطرہ نہیں رہتا۔ نابود ہو جاتا ہے۔ میں قطرے کی حیثیت میں رہ کر دریا بننا چاہتا ہوں۔’’ یہ سن کر اُس درویش پر خاص کیفیت طاری ہوئی. بولا:" بابا جیسا سُنا تھا، ویسا ہی پایا. تُو تَو خود آگاہِ راز ہے. تُجھے کسی کی دعا کی کیا ضرورت؟ ‘‘
کہاں سے تُونے اے اقبال سیکھی ہے یہ درویشی
کہ چرچا پادشاہوں میں ہے تیری بے نیازی کا