قائداعظم کا پاکستان اپنے قیام کے صرف 24سال بعد سلور جوبلی سے پہلے دولخت ہوکر قوم کو ایک عظیم صدمے سے دو چار کر گیا۔آج اس المیے کو پانچ دہائیوں سے زائد عرصہ گزرنے کے بعد بھی یہ طے نہیں کیا جاسکا ہےکہ پاکستان توڑنے کی ذمّے داری کس پر عائد ہوتی ہے؟
حالات کی سنگینی کو اس نہج پر پہنچانے میں غیر ملکی طاقتوں کے کردار کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، جنہوں نے بھارت کے ساتھ مل کر اس وقت کے مشرقی پاکستان کے عوام کے ذہنوں میں مغربی پاکستان اور غیر بنگالیوں کے لیے نفرت کے بیج بوئے اور انہیں کھلی بغاوت پر آمادہ کیا۔
کسی نے حقوق کی جنگ لڑی تو کسی نے مفادات کی،کوئی آزادی کا علم بردار بنا تو کوئی غداری کا مرتکب ہوا۔کوئی منظر پر رہا تو کسی نے پسِ منظر میں اپنی سرگرمیاں جاری رکھیں۔سچ تویہ ہے کہ ہماری اس ذلت آمیزشکست وریخت میں ان تمام کرداروں نے اپنا اپنا کردار ادا کیا۔
مسلم بنگال سے پاکستان، پھر مشرقی پاکستان سے بنگلا دیش بننے میں کس نے کیا کردار ادا کیا ؟ یہ حقائق سمجھنے کے لیے ہمیں ملکی سیاسی تاریخ کے ان گوشوں پر نظر ڈالنا ہوگی جو بنگالی عوام کے دلوں میں احساس محرومی پیدا کرنے کا موجب بنے اور بالآخر حالات اس نہج پر پہنچ گئے کہ ہمارے بنگالی بھائیوں نے غیر ملکی حمایت سے بغاوت کرنے کا فیصلہ کرلیا۔
قیام پاکستان کے بعد مشرقی پاکستان میں مسلم لیگ کی پارلیمانی پارٹی نے خواجہ ناظم الدین کو اپنا لیڈر چنا، لیکن ان کی حکومت جلد ہی مشکلات کا شکار ہو گئی۔ فروری 1948ء میں مرکزی دستور ساز اسمبلی میں قومی زبان کا مسئلہ زیر بحث آیا۔ تجویز تھی کہ اردو اور بنگلا کو قومی زبان کا درجہ دیا جائے۔ وزیراعظم لیاقت علی خان نے اس کی سخت مخالفت کی، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ قوم دو دھڑوں میں تقسیم ہوگئی۔
مسئلہ یہ تھا کہ اردو پاکستان کے کسی حصے کی زبان نہ تھی،لیکن بنگلا، پاکستان کی کل آبادی کے 56فی صد شہریوں کی زبان تھی، جو سب کے سب مشرقی پاکستان میں رہتے تھے۔ بنگلا زبان مغربی پاکستان میں بولی اور نہ ہی سمجھی جاتی تھی۔
یہ لسانی بحث پاکستانی سیاست دانوں کے لیے چیلنج بن گئی جس کی وجہ سے مشرقی پاکستان کے لوگوں میں بے چینی پیدا ہوئی اور مشرقی و مغربی صوبوں کے علاوہ مرکزی حکومت کے درمیان ایسے تنازع کی صورت پیدا ہو گئی جو بالآخر پاکستان ٹوٹنے کی ایک وجہ بن گیا۔
11ستمبر 1948ء کو قائداعظم محمد علی جناح وفات پا گئے، ان کی جگہ مشرقی پاکستان کے وزیراعلیٰ ،خواجہ ناظم الدین گورنر جنرل بنا دیے گئے اور مشرقی پاکستان کی وزارت اعلیٰ نور الامین کے حصے میں آئی۔ وہ 1954ء تک اس عہدے پر فائز رہے۔
ان کے زمانے میں لسانی بحث ایک مرتبہ پھر زور پکڑ گئی۔ 21فروری 1952ء کو ڈھاکا میں مظاہرین نے بعض شر پسند عناصر کے اکسانے پر جب سرکاری املاک کو جلانا شروع کیا تو پولیس کو گولی چلانی پڑی، بڑے پیمانے پر گرفتاریاں بھی ہوئیں جن کی رہائی کے لیے اگلے روز جلوس نکالا گیا جس پر دوبارہ گولی چلانی پڑی۔ 23فروری کو ڈھاکا یونیورسٹی میں ہڑتال ہو گئی جس کے بعد انتظامیہ نے غیر معینہ مدت کے لئے یونیورسٹی بند کر دی۔
چنانچہ طلبا راہ نمائوں اور مقامی لیڈرزنے عوام کو یہ باور کرانا شروع کر دیا کہ مرکزی حکومت مشرقی پاکستان کو اپنی نو آبادی سمجھتی ہے اور تمام وسائل مغربی پاکستان، بالخصوص پنجاب کی ترقی کے لیے استعمال کیے جا رہے ہیں۔ شکوک و شبہات کی اس فضاء میں عوامی لیگ، کرشک پرجا پارٹی، نظام اسلام پارٹی اور بعض دیگر سیاسی جماعتوں کا اتحاد وجود میں آیا جس کا نام ’’جگتو فرنٹ‘‘ رکھا گیا۔ بعد میں اس نئے سیاسی اتحاد نے انتخابات میں پاکستان مسلم لیگ کو تاریخی شکست سے دوچار کیا خود وزیراعلیٰ نور الامین نے ایک طالب علم سے شکست کھائی۔
مولوی فضل الحق نے،جو اتحاد کے سربراہ بھی تھے، اپنے تین ساتھیوں سمیت وزارت کا حلف اٹھایا اور خود وزیراعلیٰ بنے۔جب وہ کلکتہ کے دورے پرگئے اور وہاں ان کا پرجوش استقبال کیا گیاتو اس سے خوش ہو کر مغربی بنگال کے ہندوؤں کے ساتھ بھائی چارے کی فضاء کے جوش میں مولوی صاحب ایک قابل اعتراض تقریر کر آئے جسے پاکستانی اخبارات میں تنقید کا نشانہ بنایا اور اسے ملکی سالمیت و یک جہتی کےلیے خطرہ قرار دیا گیا۔
دو تین ہفتے چلنے والے زبردست ہنگاموں اور مظاہروں کے بعد نئی وزارت کے ایک جوشیلے رکن، شیخ مجیب الرحمن کے متعلق افسر شاہی کو شکایت پیدا ہو گئی کہ وہ فسادات کے اصل محرکات اور مجرموں کی پردہ پوشی کر رہے ہیں۔ چناںچہ جگتو فرنٹ کی حکومت کو برطرف کرنے کے لیے متعدد نوعیت کے الزامات لگائے گئے اور فرنٹ کی حکومت کو ملکی یک جہتی کے منافی قرار دیا گیا۔
مشرقی پاکستان کی صورت حال سے نمٹنے کے لیے گورنر جنرل، غلام محمد نے تمام جمہوری تقاضوں کو بالائے طاق رکھ کر صوبائی حکومت کو معطل کرکے آئین کی دفعہ 93(الف) کے تحت مشرقی پاکستان میں گورنر راج نافذ کر دیا۔ چوہدری خلیق الزماں کی جگہ سیکریٹری دفاع، اسکندر مرزا گورنر مشرقی پاکستان مقرر کردیے گئے اور وزیراعلیٰ، فضل الحق غدار قرار پائے۔
بنگالی راہ نمائوں کے خلاف الزام تراشی کا سلسلہ اس حد تک دراز ہوا کہ ان کے ماضی کو کھنگال کر غیر محب وطن قرار دیا جاتا رہا۔ حالاں کہ یہی غدار اور غیر محب وطن کچھ عرصہ بعد ہی محب وطن اور وفا دار کہلاتے تھے۔ فضل الحق کو بھی دوبارہ مرکزی کابینہ میں لیا گیا اور وہ بنگال کے گورنر بھی بنائے گئے۔ یہی حال مغربی پاکستان میں بھی جاری رہا۔
آج کے محب وطن کل کے غدار اور کل کے غدار آج کے محب وطن بنتے رہے۔ یہ سلسلہ جاری و ساری تھا کہ 1958ء کا سال آپہنچا اور پورے ملک پر فوجی آمریت مسلط کر دی گئی۔ روزنامہ ’’جنگ ‘‘ اس صورت حال پر مسلسل اداریے، قطعات اور کالم شائع کرتا رہا۔’’جنگ‘‘ نے حتی المقدور کوشش کی کہ سیاست دان باہمی چپقلش چھوڑ کر قومی مفاد میں رواداری اور برداشت کا مظاہرہ کریں۔
صدر ایوب خان نے 1962ء کا آئین نافذ کرکے سیاست پر سے پابندی ہٹالی تو جلد ہی نواب زادہ نصر اللہ خان نے سیاسی جماعتوں کو ایک پروگرام پر متفق کرلیا اور ایک نیا اتحاد، قومی جمہوری محاذ تشکیل دیا گیا۔ اس محاذ میں حسین شہید سہرودی بھی شامل تھے جنہیں قبل ازیں ایبڈو کے قانون کے تحت نااہل قرار دیا جا چکا تھا اور وہ پاکستان کے وزیراعظم رہنے کے باوجود غدار کہلائے گئے تھے۔
این ڈی ایف کے پلیٹ فارم سے انہوں نے پاکستان کے اہم شہروں کے دورے شروع کیے جو صدر ایوب اور ان کی کنونشن مسلم لیگ کے لیے پریشانی کا باعث تھے۔ چناں چہ موچی دروازہ، لاہور اور گجرانوالہ میں ان کے جلسوں میں کنونشن لیگ نے ہلڑ بازی شروع کرادی اور ان پر قاتلانہ حملہ بھی کیا گیا۔ مشرقی پاکستان سے آئے ہوئے بنگالی کارکنوں نے یہ صورت حال دیکھ کر اعلان کر دیا کہ اگر مغربی پاکستان والے ہمیں سننا نہیں چاہتے تو ہم بھی ان کی کچھ سننے کو تیار نہیں اور واپس مشرقی پاکستان چلے گئے۔
یہ واقعہ ابھی ذہنوں سے محو بھی نہیں ہوا تھا کہ سہروردی،جو ایوب حکومت کے زیر عتاب رہنے کی وجہ سے بیمار ہو کر بیرون ملک چلے گئے تھے، 5دسمبر 1963ء کو بیروت کے ایک ہوٹل میں مردہ پائےگئے۔ مشرقی پاکستان میں اعلان کیا گیا کہ سہروردی کی موت غیر فطری تھی تو مشرقی پاکستان کے عوامی حلقوں نے فوراً یقین کرلیا۔ روزنامہ جنگ نے اس صورت حال پر اپنے کالموں میں گہری تشویش کا اظہار کیا تھا۔
ستمبر 1965ء کی جنگ کے دوران مشرقی پاکستان میں عدم تحفظ کا احساس عام ہو چکا تھا۔ مغربی پاکستان کے سیاست دانوں کا خیال تھا کہ مشرقی پاکستان کا دفاع مغربی پاکستان سے ہی کیا جائے گا۔ 1966ء کے اوائل میں لاہور میں آل پارٹیز کانفرنس ہوئی جس میں شیخ مجیب الرحمن نے پہلی مرتبہ اپنے چھ نکات پیش کیے۔
ان میں سے دو نکات این ڈی ایف نے اپنے نئے انتخابی منشور میں شامل کرلیےجو وفاقی پارلیمانی نظام اور صوبوں کو علاقائی بنیاد پر خود مختاری دینے سے متعلق تھے۔ لیکن این ڈی ایف کی ان تجاویز کو مغربی پاکستان میں خاطر خواہ پذیرائی حاصل نہیں ہو سکی۔ دسمبر 1970ء میں بالغ رائے دہی اور فی فرد فی ووٹ کی بنیاد پر پہلی بار ہونے والے عام انتخابات میں عوامی لیگ نے اسی چھ نکاتی منشور کے تحت حصہ لیا اور مشرقی پاکستان میں بھر پور کام یابی حاصل کی۔
قومی اور صوبائی اسمبلیز کے انتخابات سات دسمبر 1970ء کو ہوئے۔ قومی اسمبلی کے نتائج سے دو بڑی جماعتیں ابھریں۔ عوامی لیگ، جس نے قومی اسمبلی کی 300 جنرل نشستوں میں سے 160 حاصل کیں اور دوسری، پاکستان پیپلز پارٹی، جس کے حصے میں 81جنرل نشستیں آئیں۔ خواتین کے لیے مخصوص نشستوں میں سے سات عوامی لیگ اور پانچ پی پی پی کے حصے میں آئیں۔لیکن ان دونوں جماعتوں کی حیثیت علاقائی تھی۔
عوامی لیگ صرف مشرقی پاکستان اور پیپلز پارٹی کی نمائندگی صرف مغربی پاکستان تک محدود رہی۔ انتخابات کی تکمیل کے بعد یہ امید پیدا ہوگئی تھی کہ قومی اسمبلی کے اجلاس سے قبل ہی سیاسی جماعتوں میں آئین سازی پر مفاہمت ہو جائے گی، کیوںکہ عوامی لیگ بارہا کہتی رہی تھی کہ چھ نکات میں رد و بدل ہو سکتا ہے اور کوئی ایسی بات نہیں کی جائے گی جو متحدہ پاکستان کے خلاف ہو۔ 28جون 71ء کو صدر، جنرل یحیٰی خان نے اپنی نشری تقریر میں بھی اس کا ذکر کیا تھا کہ شیخ مجیب الرحمن نے باور کرایا ہے کہ چھ نکات کوئی آسمانی صحیفہ نہیں۔ پاکستان کے مفاد کے خلاف تمام نکات کو تبدیل کیا جا سکتا ہے۔
انتخابی نتائج کا سرکاری اعلان ہوتے ہی عوامی لیگ کا انداز بدل گیا۔7جنوری 71ء کو شیخ مجیب الرحمن کا جنگ اخبار سمیت متعدد اخبارات میں یہ بیان شائع ہوا کہ میری پارٹی کو اسمبلی میں واضح اکثریت حاصل ہو گئی ہے، اگر مغربی پاکستان نے میرے 6نکات قبول نہ کیے تو میں تنہا قدم اٹھائوں گا اور ہم اپنا آئین خود تیار کریں گے۔
مغربی پاکستان کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کے راہ نما، ذوالفقار علی بھٹو سمیت تمام سیاسی لیڈربہ شمول خان عبدالولی خان، خان قیوم، میاں ممتاز دولتانہ، مفتی محمود، پروفیسر غفور احمد وغیرہ، شیخ مجیب الرحمن سے مفاہمتی بات چیت کے لیے ڈھاکا پہنچے اور خود صدر یحیٰی نے مغربی پاکستان کی قومی سیاسی جماعتوں سے آئینی بات چیت اور مفاہمت کے لیے شیخ مجیب الرحمن سے متعدد بار ملاقاتیں کیں اور شیخ مجیب کو علی الاعلان پاکستان کا نیا وزیراعظم قرار دیا۔
اس کے برعکس مجیب نے مغربی پاکستان آنے کی ہر دعوت کو ٹھکرا دیا اور6نکات پر بات کرنے سے انکار کرتے ہوئے یہ دلیل دی کہ اب یہ عوام کی ملکیت ہیں جس میں رد و بدل کی کوئی گنجائش نہیں رہی۔
13فروری 1971ء کو جب یہ اعلان کیا گیا کہ قومی اسمبلی کا افتتاحی اجلاس 3مارچ کو ڈھاکامیں ہوگا تو پیپلز پارٹی کے چیئرمین ،ذوالفقار علی بھٹو نے کہہ دیا کہ میری جماعت اس وقت تک اسمبلی کے اجلاس میں شریک نہیں ہوگی جب تک ہمیں یہ یقین نہ دلایا جائے کہ عوامی لیگ ہم خیالی پر آمادہ ہے یا نہیں؟
لیکن اگر ہمیں اس لیے ڈھاکا جانے کو کہا جائے کہ ہم صرف اس آئین کی توثیق کریں جو عوامی لیگ پہلے سے تیار کر چکی ہے اور اس میں ذرہ بھر بھی تبدیلی نہیں کی جا سکتی تو آپ ہمیں ڈھاکامیں نہیں پائیں گے۔(روزنامہ جنگ۔ 16فروری)21فروری کو شیخ مجیب الرحمن نے بتا دیا کہ ہمارا موقف بالکل واضح ہےاور آئین 6 نکات کی بنیاد پر ہی بنے گا۔
مشرقی اور مغربی پاکستان کی دو بڑی سیاسی جاعتوں کے درمیان آئینی تعطل سے یہ امکان پیدا ہوگیا تھا کہ اتفاق رائے نہ ہونے کی صورت میں قومی اسمبلی آئین نہیں بنا سکے گی اور ٹوٹ جائے گی۔ اس سے عوام کی توقعات پوری نہیں ہوتیں اور ساتھ ہی اقتدار کی منتقلی کا جو منصوبہ بڑی احتیاط سے تیار کیا گیا تھا وہ دھرے کا دھرا رہ جاتا۔ یکم مارچ 71ء کو صدر یحیٰی نےبیان جاری کیا کہ مشرقی اور مغربی پاکستان کے درمیان اتفاقِ رائے کی کمی کی وجہ سے پوری قوم پر مایوسی طاری ہو گئی ہے۔
مختصراً ،صورت حال یہ ہے کہ مغربی پاکستان کی بڑی اور اس کے ساتھ بعض دیگر سیاسی جماعتوں نے بھی 3 مارچ کے قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت سے انکار کر دیا ہے۔ اس کے علاوہ ہندوستان کی پیدا کردہ کشیدگی کی عام فضاء سے صورت حال مزید الجھ گئی ہے۔ اس لیے میں نے قومی اسمبلی کا اجلاس بعد میں کسی تاریخ تک ملتوی کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ جیسے ہی حالات سازگار ہوں گے اجلاس بلایا جائے گا۔ اقتدار کی منتقلی کی منزل اب بھی سب سے مقدّم ہے۔
التواء کے اس اعلان پر شیخ مجیب کی طرف سے یہ ردعمل آیاکہ انہوں نے عام ہڑتال کی اپیل کردی۔ 2مارچ کو اپنے بیان میں انہوں نے کہا کہ اس نازک گھڑی میں ہر بنگالی پر، جس میں سرکاری ملازمین بھی شامل ہیں، یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ عوام دشمن طاقتوں سے تعاون نہ کرے، بلکہ اس کے بجائے بنگلا دیش کے خلاف سازش کو ناکام بنانے میں کوئی کسر نہ چھوڑے۔
عوامی لیگ کی عام ہڑتال اور خوف و ہراس پھیلانے کی مہم سے پورے صوبے میں روزمرہ کی زندگی مفلوج ہو گئی اور امن و امان کی صورت حال تیزی سے خراب ہونے لگی۔ مشرقی پاکستان میں لاقانویت زور پکڑتی گئی جس سے بھاری جانی و مالی نقصان ہونے لگا۔ شیخ مجیب نے تشدد اور عدم تعاون کی تحریک پر اُکسانے والے بیانات جاری کرنا شروع کر دیےے۔ ٹیکس اور دیگر سرکاری واجبات ادا نہ کرنے کی ہدایت نے سول نافرمانی اور خانہ جنگی کی صورت اختیار کرلی۔
فروری اور مارچ 71ء کے مہینوں میں مشرقی پاکستان کی صورت حال کے بارے میں روزنامہ جنگ اور غیر ملکی اخبارات میں جو خبریں شائع ہوئیں ان سے اس وقت کے واقعات کی واضح تصویر سامنے آتی ہے۔ خاص طور پر لندن ٹائمز اور لیورپول ٹیلی پوسٹ نے صاف لفظوں میں لکھا کہ شیخ مجیب الرحمن نے، جنہیں متحدہ پاکستان کا آئندہ وزیراعظم سمجھا جاتا ہے، انتخابات جیتنے کے بعد سے اپنے بیانوں اور خطابات میں پاکستان کا نام لینے سے گریز شروع کر دیا ہے اور اب وہ بنگلا قوم اور مشرقی بنگال کا ذکر کرنے لگے ہیں۔
یہاں قصر شاہی میں یہ خدشہ محسوس کیا جا رہا ہے کہ حالیہ انتخابات میں ،جو فوج کی نگرانی میں ہوئے ہیں، پاکستان دوٹکڑے ہو جائے گا اور مشرقی پاکستان ایک آزاد بنگال مسلم جمہوریہ ہونے کا اعلان کردے گا۔ عوامی لیگ کے لیڈر اور شیخ مجیب الرحمن اب مشرقی پاکستان کا نام نہیں لیتے، بلکہ بنگالی جمہوریہ کہنے لگے ہیں۔ قصر شاہی میں محسوس کیا جا رہا ہے کہ برطانوی حکومت کو شدید خدشہ ہے کہ کہیں دولت مشترکہ کے اس رکن ملک کا شیرازہ نہ بکھر جائے۔
3مارچ کے واشنگٹن پوسٹ، 9مارچ کے ڈیلی ٹیلی گراف اور 13 مارچ کے لندن اکنامسٹ کے نامہ نگاروں نے ڈھاکا سے اپنے مکتوبات میں لکھا کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ شیخ مجیب الرحمن نے مشرقی پاکستان کی آزادی کا اعلان کردیا ہے، جس پر مطالبوں کا باریک پردہ پڑا ہوا ہے۔
وہ اس سے پہلے27نومبر 1970ء کو اخباری نمائندوں سے باتیں کرتے ہوئے کہہ چکے ہیں کہ ’’آزادی‘‘ ۔عوامی لیگ کے، راہ نما،شیخ مجیب نے اپنی سیاسی تحریک کو ’’آزادی کی تحریک‘‘ میں بدل دیا ہے اور قصداً ایسی شرطیں لگائی ہیں جنہیں صدر یحیٰی تسلیم نہیں کرسکتے۔
اسی روزڈیلی ٹیلی گراف نے اپنے اداریے میں لکھا(جو غیر ملکی خبر رساں ایجنسی، اے ایف پی کے حوالے سے 21مارچ کے روزنامہ جنگ میں شائع ہوا): ’’سننے میں آ رہا ہے کہ علیحدہ ریاست کا نام مشرقی پاکستان کے بجائے بنگلا دیش رکھا جائے گا اور اس کا پرچم بھی تیار کر لیا گیا ہے۔‘‘
13مارچ 71ء کو لندن اکنامسٹ اور 15مارچ کو امریکی رسالے’’ ٹائم‘‘ نے لکھا کہ آئین ساز اسمبلی کے 25مارچ کے اجلاس میں شرکت کے صدارتی دعوت نامہ کے جواب میں شیخ مجیب الرحمن نے جو چار شرائط رکھی ہیں وہ کسی کے لیے قابلِ قبول نہیں۔ صدر یحیٰی جلد ڈھاکا آنے والے ہیں اور یہ شاید شیخ مجیب سے ان کی آخری ملاقات ہو۔ ’’ٹائم‘‘ نے نیویارک سے اطلاع دی کہ بہ ظاہر تو شیخ مجیب الرحمن مرکزی حکومت سے آئینی بحران پر بات چیت کر رہے ہیں، لیکن اندرون خانہ پاکستان تقسیم کرنے کا منصوبہ تیار ہے۔
شیخ مجیب نےگزشتہ روز ڈھاکا میں ’’ٹائم‘‘ کے نامہ نگار سے کہا تھا: ’’پاکستان اب موجودہ شکل میں باقی نہیں رہا، نہ ہی تصفیے کی کوئی امید ہے۔ انہوں نے زور دیا ہے کہ مشرقی و مغربی پاکستان کو دو الگ الگ آئین اختیار کرنا چاہیے، کیوں کہ ان کے پیروکار مرکزی حکومت کو ،جو مغربی پاکستان میں ہے۔ کسی بھی قسم کا ٹیکس ادا کرنے سے انکار کر چکے ہیں۔
’’ ٹائم‘‘ کے مطابق ایسا معلوم ہوتا ہے کہ بس اب جلد ہی وہ بنگلا دیش کے نام سے آزادی کا کھلم کھلا اعلان کرنے والے ہیں۔ دو دن پہلے مشرقی پاکستان کے لیڈر نے مغربی پاکستان کے لوگوں کے بارے میں کہا تھا کہ میں انہیں سیدھا کر دوں گا اور گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دوں گا۔ رسالہ’’ ٹائم‘‘ کے مطابق اس قسم کے خیالات اور اعلانات کے بعد آزادی کا کھلا کھلا اعلان کر دینا کوئی ڈرامائی بات نہیں ہوگی۔
اسی دوران لندن کے اخبار ڈیلی ٹیلی گراف کے نمائندے، مقیم کلکتہ، کا ایک مراسلہ 9مارچ 71ء کو شائع ہوا جس میں یہ سنسنی خیز انکشاف کیا گیا تھا کہ اکتوبر 70ء کو نئی دہلی میں نام نہاد بنگلا دیش کی عبوری حکومت اور بھارت کے درمیان ایک خفیہ معاہدے پر دست خط ہوئے جس کے سات نکات حسب ذیل تھے:
(1) بنگلا دیش کے قیام کے بعد تحریک آزادی میں حصہ لینے والے بنگالی افسران اپنے انتظامی عہدوں پر برقرار رہیں گے اور غیر بنگالیوں کی خالی کردہ آسامیوں پر بھارتی افسران تعینات کئے جائیں گے۔(2) بنگلا دیش کے قیام کے بعد خاص تعداد میں بھارتی فوجی بنگلا دیش میں موجود رہیں گے۔
معاہدے میں تعداد اور مدت کا تعین نہیں تھا۔(3) بنگلا دیش ایک خاص مدت تک باقاعدہ اور رسمی فوج نہیں رکھے گا۔(4) داخلی سلامتی اور امن و امان کےلیے فریڈم فائٹرز (مکتی باہنی) پر مشتمل ملیشیا قائم کی جائےگی۔(5) پاکستان سے ممکنہ جنگ کی صورت میں بھارتی مسلح افواج کی نگرانی میں مکتی باہنی اندرونی دفاعی حصار توڑنے کا کام کرے گی۔ (6) بنگلادیش اور بھارت کے درمیان تجارتی لین دین آزادانہ اور کھلے طورپر ہوگی، البتہ کرنسی پونڈ اسٹرلنگ میں ہوگی۔(7) بنگلا دیش کی وزارت خارجہ بھارتی وزارت خارجہ سے رابطے میں رہ کر اس کے زیرنگرانی کام کرے گی۔
اخبار کے مطابق بنگلا دیش اور بھارت کی حکومتوں نے ایسے کسی معاہدے سے انکار کیا ،مگر بنگلا دیش کے قائم مقام صدر کے طور پر سید نذر الاسلام نے اکتوبر 71ء میں ، جب شیخ مجیب الرحمن گرفتار ہوکر مغربی پاکستان کی لائل پور (اب فیصل آباد) کی جیل میں غداری کے مقدمے کا سامنا کر رہے تھے، مبینہ معاہدے کی مزید پانچ شقوں پر دست خط کیے، جس کے تحت (1) جنرل عطاء اللہ عثمانی کے بدلے لیفٹیننٹ جنرل جگ جیت سنگھ اروڑہ، اتحادی فوجوں (بنگلا دیش اور بھارت) کے سربراہ مقررکیے گئے۔ (2) پاکستانی فوج جنرل اروڑہ کے سامنے ہتھیار ڈالےگی (گویا جنگ سے پہلے ہی سقوطِ مشرقی پاکستان کی سازش مکمل ہو چکی تھی)۔(3) سول انتظامات میں مدد کےلیے بھارت سے بنگالی سول سرونٹس کو ڈھاکا لایا جائے گا۔(4) پاکستانی افواج کے ہتھیار ڈالنے کے بعد بھارتی افواج بنگلادیش کی چھائونیوں میں رہیں گی۔(5) مکنی باہنی قائم رہے گی۔
یہاں قارئینِ ’’جنگ‘‘ کو یہ بتانا ضروری ہے کہ آج بہت سے سیاسی راہ نما اور لکھاری یہ بات زور دے کر کہتے ہیں کہ شیخ مجیب پاکستان سے علیحدگی نہیں چاہتے تھے، مگر 25مارچ کے فوجی ایکشن سے حالات بگڑے اور ملک دو ٹکڑے ہوگیا۔
ایسے افراد کو انتخابات سے دو ماہ قبل ہونے والے اس خفیہ معاہدے کا علم نہیں یاوہ مصلحتاً اسے نظر انداز کردیتے ہیں۔ حالاں کہ اس معاہدے کی نقل حمود الرحمن کمیشن کے ریکارڈ پر بھی موجود ہے۔
عام طور پر کہا جاتا ہے کہ اگر مشرقی پاکستان میں فوجی ایکشن نہ کیا جاتا تو صورت حال مختلف ہوتی۔ لیکن یہ حقیقت اپنی جگہ موجود ہےکہ 1965ء کی جنگ کے بعد شیخ مجیب الرحمن نے بھارتی سفارت کاروں کے ساتھ باقاعدہ خفیہ ملاقاتوں کا سلسلہ شروع کر دیا تھا۔ انٹیلی جینس بیورو اس کی اطلاعات مشرقی پاکستان کی صوبائی حکومت اور مرکزی حکومت کو دیتا رہتا تھا۔ مگر ابتداء میں ایوب خان کی حکومت نے توجہ نہ دی۔
بعدازاں جب پانی سر سے اونچا ہوگیا تو اگرتلّہ کے مقام پر انہیں بھارتی حکام سے ربط ضبط کے الزام میں رنگے ہاتھوں گرفتار کر کے اگرتلّہ سازش کیس کے نام سے مقدمہ چلایا گیا،جس کی وجہ سےشیخ مجیب کی بنگالیوں میں مقبولیت بڑھی اور وہ جی ایم سیّد اور غفار خان سے زیادہ قوم پرست راہ نماکے طور پر ابھرے۔
بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ کے اہم مراکز ڈھاکا کے علاوہ راج شاہی اور چٹاگانگ کے قونصل خانوں میں بھی قائم تھے۔ جہاں سفارتی عملے کے روپ میں را کے ایجنٹ بڑی تعداد میں تعینات تھے۔یعنی سازش کے تانے بانے بہت پہلے سے بُنے جارہے تھے۔