• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بچّے پھول کی مانند ہوتے ہیں۔ جس طرح موسم میں ہلکا سا اتار چڑھاؤ پھولوں کو مرجھا دیتا ہے اسی طرح اگر بچوں کو بروقت مناسب خوراک، صحت اور تعلیم کی مناسب سہولتیں، تحفظ اور اچھا ماحول نہ ملے تو وہ مرجھا جاتے ہیں۔ یہ سہولتیں نہ ملنے کی وجہ سے دنیا بھر میں بہت سے بچے کم سِنی میں دنیا میں رخصت ہوجاتے ہیں یا ان کی شخصیت مسخ ہوجاتی ہے۔ اگر کسی بچے کی شخصیت مسخ ہوجائے تو وہ معاشرے پر بوجھ بن جاتا ہے۔ 

اسی پہلو کو مدنظر رکھتے ہوئے ورلڈ کانگریس نے 1925ء میں یوم اطفال منانے کا آغاز کیا تھا۔ 1954میں اس کے لیے عالمی سطح پر ایک دن مخصوص کرنے کا فیصلہ کیا گیا اور اقوام متحدہ نے اس کے لیے20نومبر کی تاریخ طے کی۔20 نومبر 1959ء کو بچوں کے حقوق کا اعلامیہ جاری کیا اور 20 نومبر1989ء کو بچوں کے حقوق سے متعلق کنونشن منظور کیا۔ 

2000ء میں دنیا بھر کے راہ نماؤں نے میلینیم ڈیولپمنٹ گولز کا تعین کیا تو اس میں بھی بچوں کے حقوق کے تحفظ اور ان کی فلاح و بہبود سے متعلق نکات شامل کیے گئے۔ 2012ء میں اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے بچوں کی تعلیم کے ضمن میں جن کوششوں کا آغاز کیا ان میں پہلا ہدف یہ رکھا گیا کہ 2015ء تک دنیا بھر میں اسکول جانے کی عمر کے تمام بچے اسکول جانے لگیں۔ 

دوسرا ہدف یہ رکھا گیا کہ مکتب میں بچوں کو جو کچھ پڑھایا اور سکھایا جاتا ہے اس کا معیار بہتر بنایا جائے۔ تیسرا ہدف یہ طے کیا گیا کہ تعلیم سے متعلق ان حکمت عملیوں پر عمل درآمد کیا جائے جن کے ذریعے امن، احترام اور ماحولیات سے متعلق آگہی کو فروغ ملے۔

عالمی یوم اطفال منانے کا مقصد صرف تقریبات کا انعقاد نہیں ہے بلکہ استحصال، غلط رویوں اور امتیازات کے شکار دنیا بھر کے بچوں میں اپنے حقوق کے بارے میں شعور بے دار کرنا ہے۔ یہ یوم منانے کا دوسرا مقصد حکم رانوں، صاحبانِ اختیار، خواص اور عوام کو بچوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے کوششیں کرنے کے لیے تیار کرنا ہے۔ 

دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی 20نومبر کو یہ یوم منایا جاتا ہے، لیکن آنکھوں کو نم اور جگر کو پارہ پارہ کردینے والے اعدادو شمار یہ بتاتے ہیں کہ ہم برس ہا برس سے یہ یوم محض تقریبات کی حد تک مناتے ہیں۔ سال ہائے گزشتہ کی طرح رواں بھی پاکستانی بچوں کے لیے مسائل سے پُر رہا۔ 

اس برس بھی لاکھوں پاکستانی بچوں کو تعلیم کی سہولت نہیں مل سکی۔ ان کی صحت کو بہت سے خطرات لاحق رہے۔ غریب اور خطرات کے شکار بہت سے بچوں کو تحفظ نہیں مل سکا۔ بچوں کی جیلوں کی حالت تقریباً پہلے جیسی ہی رہی اور بے شمار بچے خطرناک حالات میں کام کرنے پر مجبور کیے گئے۔

سابق حکومتوں نے انسانی حقوق اور بچوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے بعض قوانین تو بنائے، لیکن ان کے پوری طرح نفاذ کی راہ میں اب بھی بہت سی رکاوٹیں ہیں اور بچوں کے حقوق سے متعلق اب بھی کئی بِلز ہمارے قانون ساز اداروں میں زیر التوا ہیں۔ دوسری جانب اٹھارہویں آئینی ترمیم کے بعد پیدا ہونے والی انتظامی پے چیدگیوں نے صوبائی سطح پر بچوں کے حقوق کے تحفظ کے ضمن میں کئ رکاوٹیں کھڑی کردی ہیں۔

اس صورت حال کا بنیادی سبب صوبائی حکومتوں کی جانب سے بچوں کے حقوق کے ضمن میں قانون سازی نہ کرنے اور متعلقہ قوانین پر عمل درآمد میں سستی سے کام لیناہے۔ علاوہ ازیں مرکزی اور صوبائی حکومتیں صحت اور تعلیم سے متعلق میلینیم ڈیولپمنٹ گولز کی طرف پیش قدمی کرنے میں بھی بہت سست ہیں۔

پاکستان میں بڑھتی ہوئی عدم رواداری اور مذہب کے نام پر دہشت گردی نے تعلیم اور صحت کی سہولتوں تک بچوں کی رسائی میں بھی مشکلات کھڑی کردی ہیں۔ اس ضمن میں سب سے خطرناک بات پولیو کے قطرے پلانے والوں پر ملک کے مختلف حصوں میں ہونے والے حملے ہیں، جن کے بعد ملک کے بعض علاقوں میں پولیو کے خلاف مہم معطل کرنا پڑی۔

بچّے ہماری نصف آبادی

پاکستان کی کل آبادی کا اڑتالیس فی صد سے زائد حصہ بچوں پر مشتمل ہے۔ پاکستان نے 1990ء میں بچوں کے حقوق سے متعلق اقوام متحدہ کے کنونشن پر دست خط کیے اور اس کی توثیق کی تھی۔ اس معاہدے کی توثیق کوطویل عرصہ گزرنے کے باوجود ملک میں بچوں کو تعلیم اور صحت جیسی بنیادی سہولتیں اور تحفظ دینے کے ضمن میں بہت تھوڑا کام ہوا ہے۔ اب تک ہم بچوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے جامع قانون سازی تک نہیں کرسکے ہیں، ادارے بنانے کی بات تو بہت دور کی ہے۔

پاکستان کے تقریبا چالیس فی صد بچے سکول جانے سے محروم ہیں، نوزائیدہ بچوں کی شرحِ اموات دنیا بھر میں سب سے زیادہ ہے اور پانچ سال سے کم عمرکے بچوں میں چالیس فی صد سے زائد غذائی قلت کا شکار ہیں۔ 

موسمیاتی بحران کے اثرات پر یونیسف کی طرف سے جاری کردہ2021کی رپورٹ کے مطابق پاکستانی بچوں اور نوجوانوں کو موسمیاتی تبدیلی سے پیدا ہونے والے مسائل سے ’’شدید ترین خطرے‘‘ کا سامنا ہے۔ 

مختلف موسمیاتی نقصانات، جن میں سیلاب، گرمی کی لہر اور فضائی آلودگی شامل ہیں، کی وجہ سے رواں برس میں بھی پاکستان کے مختلف حصوں میں اسکولوں کا نظام معطل ہو گیا ،جس سے بچوں کے لیے تعلیم کے مواقع کم ہو گئے ہیں اور ملک کو مجموعی سطح پر ایک تعلیمی ایمرجنسی کا سامنا ہے۔

ذہنی و جسمانی تشدّد کا سامنا

اسی طرح پاکستان میں اسکول جانے والے بچوں میں80سے85فی صد بچوں کو تعلیم کے دوران جسمانی اور ذہنی تشدد کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ اس ضمن میں پاکستان کچھ عرصہ قبل کولمبیا کے شہر بوگوٹا میں بچوں کے خلاف تشدد کے خاتمے سے متعلق عالمی وزارتی کانفرنس میں2027تک بچوں کے خلاف ہر قسم کے تشدد کے خاتمے کا عہد کر چکا ہے۔

ان خطرات سے نہ صرف بچوں کا حال بلکہ مستقبل بھی متاثر ہو رہا ہے۔اسکول نہ جانے والے دو کروڑ باسٹھ لاکھ بچے، غذائی قلت کی بلند شرح اور لاکھوں افراد کی صاف پانی تک عدم رسائی ایسے مسائل ہیں جن سے نمٹنے کے لیے فوری توجہ کی ضرورت ہے۔ 

ہمیں تمام بچوں کی پرورش کے لیے محفوظ اور ساز گار ماحول فراہم کرنے کے اپنے عزم کا اعادہ کرنا ہوگا۔ ہمیں بچوں کے حقوق کی فراہمی یقینی بنانی چاہیے تاکہ وہ اپنے خوابوں کو پورا کر سکیں اور مستقبل میں پاکستان کی تعمیر و ترقی میں کردار ادا کر سکیں۔

کم سِن مزدور

پاکستان میں بچوں کی مشقت کا مسئلہ بھی بہت سنگین ہے۔ لاکھوں بچے مختلف صنعتوں میں کام کرتے ہیں، جہاں انہیں سخت حالات میں کام کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ یہ بچے نہ صرف جسمانی طور پر مشقت کرتے ہیں بلکہ ذہنی طور پر بھی بہت زیادہ دباؤ کا شکار ہوتے ہیں۔ ان بچوں کو تعلیم حاصل کرنے کا موقع نہیں ملتا اور نہ ہی زندگی کے بہتر مواقعے انھیں حاصل ہوتے ہیں۔ 

بچوں کی مشقت کا مسئلہ خصوصاً فیکٹریوں، گھریلو ملازمتوں اور زراعت کے شعبے میں زیادہ پایا جاتا ہے۔ ان بچوں کو نہ صرف کم اجرت پر کام کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے بلکہ ان سے ایسے کام بھی کروائے جاتے ہیں جو ان کے لیے کم سنی کی وجہ سے کرنا مشکل ہوتا ہے۔

دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی بچوں سے مشقت لینا (چائلڈ لیبر) ایک اہم مسئلہ ہے۔ پاکستان کی معیشت کے رسمی شعبوں میں تو وفاق اور صوبائی قوانین کی وجہ سے بچوں سے مشقت لینے کی شرح نسبتاً کم ہے، تاہم غیر رسمی معیشت کے شعبوں میں یہ شرح بہت زیادہ ہے۔ 

لیکن ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ملک میں موجود اقتصادی بحران اور معیشت کی خراب حالت کی وجہ سے رسمی شعبہ سکڑ رہا ہے، جس کے نتیجے میں غیر رسمی شعبے فروغ پارہے ہیں اور یوں ان شعبوں میں بچوں سے مشقت لینے کے مواقعے بڑھ رہے ہیں۔ 

غیر رسمی شعبے میں بچوں سے مشقت لینے کے ضمن میں گھروں میں کام کرنے والے بچوں کی اصطلاح بہت گم راہ کن ہے، کیوں کہ اس اصطلاح کی آڑ میں بڑی تعداد میں بچوں سے مشقت لی جاتی ہے۔ پاکستان میں حکومتیں آتی اور جاتی رہیں، لیکن کسی حکومت نے ایسا مخصوص سروے نہیں کروایا جس سے یہ پتا چلتا کہ ملک میں کل کتنے چائلڈ لیبر ہیں اور وہ کس قسم کے کام کر رہے ہیں۔

بچّوں کا تحفِظ

پاکستان میں بچوں کے تحفظ کے حوالے سے بھی کئی چیلنجز ہیں۔ بچوں کے ساتھ زیادتی، جسمانی تشدد اور جنسی ہراسانی کے واقعات بڑھتے جا رہے ہیں۔ والدین کی غیر موجودگی، طلاق اور دیگر سماجی مسائل کے باعث بچے اکثر تشویش ناک حالات میں زندگی گزارنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔

اس کے علاوہ، پاکستان میں بچوں کو دہشت گردی، انتہاپسندی اور فرقہ واریت کی کارروائیوں میں بھی شامل کیا جاتا ہے۔ ایسے حالات میں بچے نہ صرف جسمانی بلکہ ذہنی طور پر بھی متاثر ہوتے ہیں۔ یہ سب بچوں کی زندگیوں پر طویل مدتی اثرات مرتب کرتے ہیں بچوں کو ایک محفوظ ماحول فراہم کرنے کی اشد ضرورت ہے۔

پاکستان نے بچوں کے حقوق کی پاس داری کے لیے متعدد بین الاقوامی معاہدوں پر دست خط کیے ہیں، جن میں اقوام متحدہ کے چائلڈ رائٹس کنونشن (CRC) پر دستخط شامل ہیں۔ حکومت پاکستان نے بچوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے مختلف قوانین بھی متعارف کرائے ہیں، جیسے ’’ چائلڈ پروٹیکشن اینڈ ویلفیئر ایکٹ‘‘ اور ’’چائلڈ لیبر پروہیبیشن ایکٹ۔‘‘ تاہم، ان قوانین پر عمل درآمد میں کمی ہے اور بچوں کے حقوق کی خلاف ورزیاں بہت عام ہیں۔

پاکستان میں بچوں کے حقوق کے حوالے سے بہت سی تنظیمیں کام کر رہی ہیں جو بچوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے آواز بلند کرتی ہیں، مگر ان کی کوششوں کے باوجود صورت حال میں کوئی خاص بہتری دیکھنے میں نہیں آتی اوربچوں کے حقوق کی صورت حال تشویش ناک ہے۔ 

تعلیم، صحت، مشقت اور تحفظ کے حوالے سے پاکستان کو کئی چیلنجز کا سامنا ہے۔ ان مسائل کو حل کرنے کے لیے حکومت، سول سوسائٹی اور بین الاقوامی اداروں کو مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ 

بچوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے آگاہی مہمات کی ضرورت ہے تاکہ والدین اور کمیونٹی کے افراد بچوں کی تعلیم اور بہتر زندگی کے حوالے سے آگاہ ہوں۔ اس کے علاوہ حکومت کو قوانین پر سختی سے عمل درآمد کرانے کی ضرورت ہے تاکہ بچوں کے حقوق کے تحفظ کو یقینی بنایا جاسکے۔

ڈھائی کروڑ بچّے اسکول سے باہر

اب آئیے تعلیم کی طرف! پاکستان میں بچوں کی تعلیم کے اعدادو شمار ہر ذی شعور کو سر پیٹنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ پاکستان بھر میں مجموعی طور پر ڈھائی کروڑ سے زائد بچے اسکولوں سے باہر ہیں، جن میں سےدو کروڑ بچوں نے کبھی اسکول کا راستہ تک نہیں دیکھا۔ 

آؤٹ آف ا سکولز بچوں کے اعدادوشمار پر مبنی پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ایجوکیشن (پی آئی ای) کی حالیہ رپورٹ کے مطابق اسکول نہ جانے والوں میں ایک ہزار84ٹرانس جینڈر بھی شامل ہیں۔ 

رپورٹ کے مطابق پنجاب میں96لاکھ بچے اسکولوں سے باہر ہیں جن میں47لاکھ لڑکے اور48لاکھ لڑکیاں ہیں۔ سندھ کی صورت حال بھی تشویش ناک ہے جہاں 78 لاکھ بچے اسکولوں سے باہر ہیں، جن میں37لاکھ لڑکے اور 40لاکھ لڑکیاں ہیں۔ خیبرپختون خوا (کے پی) میں49لاکھ بچے اسکولوں میں داخل نہیں ہو سکے۔ ان میں 20لاکھ لڑکے اور29لاکھ لڑکیاں ہیں۔

بلوچستان میں بھی29لاکھ بچے اسکولز سے باہر ہیں جن میں 14 لاکھ لڑکے اور15لاکھ لڑکیاں ہیں۔ اس کے علاوہ وفاقی دارالحکومت میں6سے 16 سال تک کے 89ہزار بچے اسکولزسے باہر ہیں۔ پی آئی ای کی رپورٹ کے مطابق ان میں47 ہزار 849 لڑکے اور41ہزار 275 لڑکیاں شامل ہیں۔

رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ آؤٹ آف اسکولز بچوں کی تعداد میں ہر سال20ہزار کا اضافہ ہو رہا ہے۔ اس صورت حال کو بہتر بنانے کے لیے فوری اقدامات کی ضرورت ہے تاکہ ان بچوں کو تعلیم کے حق سے آراستہ کیا جا سکے۔

اقصادی منصوبہ بندی کے ماہرین کے مطابق پاکستان اپنے ہاں پڑھائی سے محروم کروڑوں بچوں کے لیے حصول تعلیم کو یقینی بنانے میں مسلسل ناکامی کے باعث مستقبل قریب میں لازمی طور پر ایسے حالات کا شکار ہو جائے گا جو کئی طرح کے بحرانوں کو جنم دیں گے۔ ان میں سے شدید ترین بحرانوں کا سامنا معیشت اور روزگار کی ملکی منڈی کو ہو گا۔

غربت کی وجہ سے ان بچوں کے لیے اس کے سوا کوئی راستہ نہیں ہوتا کہ وہ کچھ کام کرکے پیسے کمائیں تاکہ ان کے گھر کا خرچ چل سکے۔ بات یہیں ختم نہیں ہوجاتی۔ جب یہ بچے اسکول جانے کے بجائے کام کاج میں لگ جاتے ہیں تو کئی اور المیے جنم لیتے ہیں اور بعض انسانی المیوں سے کم سن مزدور جنم لیتے ہیں۔ 

مثلاً 2010ء اور 2011ء میں آنے والے سیلابوں کی وجہ سے ملک میں کم سن محنت کشوں کی تعداد میں اضافہ ہوا، بالخصوص سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں۔ اسی طرح صوبہ خیبر پختون خوا اور فاٹا میں کافی عرصے سے جاری دہشت گردی اور پرتشدد کارروائیوں کی وجہ سے نہ صرف ان علاقوں میں غربت میں اضافہ ہوا ہے بلکہ اسکول جانے والے بچوں کی شرح بھی کم ہوئی ہے۔ یہ اسکول نہ جانے والے بچے کم سن مزدور بن گئے ہیں۔

پاکستان کی پارلیمان نے 2010ء میں آئین میں 25-A کی شق کا اضافہ کیا تھا تو بہت سے افراد کو یہ امید ہوچلی تھی کہ اب ملک میں خواندگی کی شرح میں خاطر خواہ بہتری آئے گی۔ اس شق کے تحت ریاست کی جانب سے یہ لازم کیا گیا ہے کہ 16 برس کی عمر تک کے تمام بچوں کو مفت تعلیم کی سہولت ملے گی۔

بلاشبہ یہ ایک بہت اہم پیش رفت تھی۔ لیکن پھر پُرامید لوگوں کو پتا چلا کہ اس شق پر عمل درآمد کے لیے علیحدہ سے قواعد و ضوابط بنانے کی ضرورت ہے اور یہ مقصد حاصل کرنے کے لیے صوبائی میزانیوں میں علیحدہ سے رقم مختص کرنا ضروری ہے۔ 

واضح رہے کہ میلینیم ڈیولپمنٹ گولزکے ہدف نمبر 2کے تحت اس معاہدے پر دست خط کرنے والے ہر ملک کے لیے لازم ہے کہ وہ اپنے ملک کے تمام بچوں کے لیے پرائمری تک تعلیم کی سہولت مفت فراہم کرے، بالخصوص ان بچوں کے لیے جو نسبتاً زیادہ برے حالات کا شکار ہوں، مثلاً لڑکیاں اور اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے بچے۔

لیکن پاکستان میں یہ مقاصد حاصل کرنے کی راہ میں اب بھی بہت سی رکاوٹیں کھڑی ہیں۔ سب سے پہلی رکاوٹ ملک کا تعلیمی نظام ہے جو سماجی نا ہم واری اور معاشی مشکلات کی وجہ سے مزید پے چیدہ ہوجاتا ہے۔

پاکستان میں تین مختلف اقسام کے مکاتب ہیں جن کی وجہ سے بچوں کے علم کے حصول کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی ہوجاتی ہیں۔ ان مکاتب میں تین مختلف اقسام کے نصاب پڑھائے جاتے ہیں۔

ایک جانب سرکاری یا اردو میڈیم اسکول ہیں، دوسری جانب غیر سرکاری یا انگریزی میڈیم اسکول ہیں اور تیسری جانب مذہبی مدارس ہیں۔ پاکستان میں خواندگی کی کم شرح کی وجہ سے ایک جانب ملک کی معیشت پر برے اثرات مرتب ہو رہے ہیں اور دوسری جانب ملکی خزانے پر بوجھ بڑھتا جارہا ہے۔ کیوں کہ ناخواندگی دیگر مسائل کے ساتھ بیماریاں اورجرائم جنم دیتی ہے۔

وہ وعدے، وہ نعرے

میلینیم ڈیولپمنٹ گولز کے تحت ہمیں 2015ء تک شدید غربت اور بھوک ختم کرنا، بچوں کی شرح اموات کم کرنا، ماؤں کی صحت بہتر کرنا، ایچ آئی وی؍ایڈز، ملیریا اور دیگر انفیکشن والی بیماریوں کے خلاف موثر انداز میں لڑائی لڑنا اور پائے دار ماحول کو یقینی بنانا تھا۔ لیکن بدقسمتی سے ہم یہ تمام اہداف حاصل کرنے کے لیے مربوط اور موثر منصوبہ بندی کرنے میں اب تک ناکام رہے ہیں۔ 

دوسری طرف پاکستان میں صحت کے مسائل اس طرح دیگر مسائل سے الجھے ہوئے ہیں کہ ان کی وجہ سے پاکستان کی ترقی رکی ہوئی ہے۔ ملک کی موجودہ سیاسی اور اقتصادی صورت حال پاکستان کےصحت کے حوالے سے ایم جی ڈی کے اہداف حاصل کرنے کی راہ میں روڑے اٹکا رہی ہے۔ 

ایک جانب سست رفتار معیشت اور توانائی کا بڑھتا ہوا بحران ہے تو دوسری جانب دہشت گردی، دہشت گردوں کے خلاف ملٹری آپریشن اور دو تباہ کن سیلابوں کے نتیجے میں رونما ہونے والے انسانی المیے ہیں۔ پاکستان میں صحت کے شعبے میں سب سے خطرناک بحران پولیو کے خلاف مہم کا بعض علاقوں میں رکنا اور پولیو کے نئے کیسز سامنے آنا ہے۔ اس کے علاوہ خسرہ اور غذائی قلت کے شکار بچوں کی تعداد بھی بڑھ رہی ہے۔

صحت کے مسائل

مختلف ذرایع سے حاصل شدہ اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں غذائی قلت بڑھ رہی ہے اور اس کے سب سے زیادہ شکار بچے ہیں۔ تاہم اس ضمن میں صرف غربت کو مورد الزام نہیں ٹھہرایا جاسکتا ہے بلکہ متعدد ماحولیاتی عوامل، بیماریاں اور ماؤں کی غذاؤں کے استعمال کی صورت حال بھی ذمے دار ہے۔ پاکستان میں بچوں کی نوے فی صد اموات کی چھ بنیادی وجوہات ہیں، یعنی پیدائش کے وقت کی پے چیدگیاں، نمونیا، ڈائریا، ملیریا، خسرہ اور ایچ آئی وی؍ ایڈز۔ 

ایک تحقیق کے مطابق 2011ء میں پانچ سال سے کم عمر کے بچوں کی اسّی فی صد اموات صرف 25 ممالک میں ہوئی تھیں۔ ان میں سے آدھی اموات بھارت، نائیجریا، کانگو، پاکستان اور چین میں ہوئی تھیں۔ پاکستان میں پانچ سال سے کم عمر کے بچوں کی اموات کی شرح ایک دہائی سے مسلسل کم ہو رہی ہے، لیکن ایم جی ڈی کے اہداف حاصل کرنے کے حوالے سے ہم اب بھی کافی پیچھے ہیں۔ 

یونی سیف کے مطابق 1990ء میں پاکستان میں پیدا ہونے والے ہر ہزار بچوں میں سے 122 انتقال کر جاتے تھے، لیکن 2011ء میں انتقال کرنے والے بچوں کی تعداد کم ہوکر 72 ہوگئی تھی۔ تاہم 2010ء اور 2011ء میں آنے والےاور حالیہ سیلابوں کی وجہ سے دیہی علاقوں میں صحت کی صورت حال خراب ہوئی اور اس کے برے اثرات بچوں کی شرح اموات پر بھی مرتب ہوئے۔ 

ملک میں بنیادی ڈھانچے کی خستہ حالی، ترقیاتی عمل کی خامیوں اور آفات سے نمٹنے کے لیے موثر منصوبہ بندی اور سہولتیں نہ ہونے کی وجہ سے سیلابوں کے بعد کئی نئے مسائل پیدا ہوئے، مثلاً ملیریا، ڈائریا، نمونیا اور ہیضے کی بیماریاں پھیلیں جس کی وجہ سے بالخصوص بچوں کی صحت کافی متاثر ہوئی۔ 

اسی طرح پاکستان میں 423000 بچے پانچ برس کی عمر تک پہنچنے سے قبل ہی انتقال کر جاتے ہیں۔ ایسی پانچ میں سے ایک موت کی وجہ نمونیا کی بیماری ہوتی ہے۔ ملک کے دیہی علاقوں میں بچوں کی شرح اموات خاص طور سے زیادہ ہے۔

کم سِن قیدی

مئی 2012ء میں اس وقت کے صدر مملکت آصف علی زرداری نے جو وینائل جسٹس سسٹم ترمیمی آرڈی نینس 2012ء پرد ست خط کیے تھے اور ملک میں جو وینائل کورٹس بنانے کی بھی بات ہوئی تھی۔ لیکن پھر بھی جیلوں میں موجود بچوں کی حالت میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی۔ جو وینائل جسٹس سسٹم آرڈی نینس مجریہ 2000ء کی موجودگی کے باوجود ایسے بچوں کے ساتھ بالغ قیدیوں ہی کی طرح سلوک کیا جاتا ہے۔ 

ان بچوں کو عدالتوں میں پیشی کے وقت ہتھکڑیاں لگے ہوئے دیکھا گیا ہے اور بعض صورتوں میں انہیں رسیوں سے باندھا جاتا ہے۔ پروبیشن آفیسرز خصوصاً خواتین پروبیشن آفیسرز کی شدید قلت ہے جس کی وجہ سے جیلوں میں حد سے زیادہ قیدی بچے رکھے جاتے ہیں جو جو وینائل جسٹس سسٹم کا مذاق اڑانے کے لیے کافی ہے۔

واضح رہے کہ عالمی معیار کے مطابق قیدی بچوں کے ساتھ جرائم پیشہ افراد کی طرح سلوک نہیں کیا جاسکتا اور جیلوں میں ان کی اصلاح کے لیے کوششیں کی جانی چاہیں۔ لیکن یہاں پولیس عموماً ان بچوں کے ساتھ بالغ جرائم پیشہ افراد والا سلوک کرتی ہے، انہیں تھانوں اور جیلوں میں غیر محفوظ حالت میں رکھا جاتا ہے لہٰذا بالغ قیدی ان پر تشدد کرتے اور استحصال کرتے ہیں جس میں بعض اوقات جنسی زیادتی بھی شامل ہوتی ہے۔

قوانین تو بنے، مگر۔۔۔۔۔

درج بالا اعدادو شمار بتاتے ہیں کہ پاکستان میں نومولود سے لےکر بڑی عمر تک کے بچے کن مسائل اور خطرات کا شکار ہیں۔ ہم نے مختلف عالمی معاہدوں اور قرض دینے والے اداروں اور امداد کرنے والے ممالک کے دباؤ پر یا ان کی شرائط کو تسلیم کرتے ہوئے بچوں کے حقوق کے تحفظ کے ضمن میں بعض اچھے قوانین تو بنا لیے لیکن انتظامی پے چیدگیوں، متعلقہ قواعد و ضوابط کی عدم موجودگی، سرخ فیتے کی رکاوٹوں اور فنڈز کی کمی کی وجہ سے ان پر عمل درآمد کا معاملہ یا تو کھٹائی میں پڑا ہوا ہے یا ان قوانین پر نیم دلی کے ساتھ عمل کیا جاتا ہے۔ یہ صرف چند شعبوں کے اعداد وشمار ہیں۔ لیکن ان کے ذریعے بچوں کے مسائل کی پوری تصویر دیکھی جاسکتی ہے جو یقیناً اچھی نہیں ہے۔

اسپیشل ایڈیشن سے مزید