اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان جاری تصادم روکنے اور غزہ میں یرغمال قیدیوں کی رہائی کے لیے امن منصوبے کے پہلے مرحلے پر دست خط ہوچکے ہیں۔ امن مذاکرات میں امریکی مندوب اسٹیو وٹکوف، صدر ٹرمپ کے داماد جیرڈ کُشنر اور حماس کے راہ نما خلیل الحیہ نے شرکت کی۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر امن ڈیل ہونے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ تمام فریقوں کے ساتھ منصفانہ برتاؤ کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ یہ عربوں، مسلم دنیا، اسرائیل، پڑوسی اقوام اور امریکا کے لیے عظیم دن ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ ڈیل کا مطلب یہ ہے کہ تمام یرغمالی جلد رہا کردیے جائیں گے اور اسرائیل ایک مضبوط، پائے دار اور لازوال امن کی طرف پہلے قدم کے طور پر اپنی فوج کا متفقہ نکتے کے تحت انخلا کرے گا۔ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے صدر ٹرمپ کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ وہ اپنے پڑوسیوں کے ساتھ امن کے عمل کو توسیع دینا چاہتے ہیں اور امریکا کے ساتھ مل کر تمام اہداف حاصل کرلیں گے۔ اسرائیلی میڈیا کے مطابق سمجھوتے کے تحت حماس تمام ،یعنی 20 زندہ یرغمالیوں کو بہتر گھنٹے میں رہائی دے دے گی۔
دوسری جانب حماس کے راہ نما نے عرب میڈیا کو بتایا کہ تمام زندہ قیدی ایک ساتھ رہا کیے جائیں گے۔ تاہم مردہ قیدیوں کی لاشوں کو حوالے کیا جانا تاخیر کا شکار ہوسکتا ہے۔ اپنے بیان میں حماس نے ٹرمپ اور ضامن ریاستوں سے اسرائیل کی جانب سے غزہ امن معاہدے پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کا مطالبہ کیا ہے۔ فلسطین کی مزاحمتی تنظیم، حماس نے نو اکتوبر کو جنگ کے خاتمے اور جنگ بندی کے آغاز کا اعلان کیا۔
اپنے خطاب میں حماس کی مذاکراتی ٹیم کے سربراہ خلیل الحیہ کا کہنا تھا کہ ہم آج جنگ کے خاتمے اور جنگ بندی کے آغاز کا اعلان کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ معاہدے میں رفح کراسنگ سے آمد اور خروج کا راستہ کھولنا شامل ہے۔ معاہدے کے تحت اسرائیل کی جیل میں بند تمام فلسطینی خواتین اور بچوں کی رہائی شامل ہے۔ حماس کو ثالثوں اور امریکی انتظامیہ سے ضمانتیں موصول ہوئی ہیں۔ یہ ضمانتیں اس بات کی تصدیق کر رہی ہیں کہ جنگ مکمل طور پر ختم ہو گئی ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ کا ردعمل
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا غزہ جنگ بندی کے معاہدے کے پہلے مرحلے پر دست خط ہونے کے بعد کہنا تھا کہ غزہ محفوظ جگہ بننے جا رہا ہے۔ امریکی میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے صدر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ امن معاہدے کے پہلے مرحلے کے مکمل ہونے کے بعد آپ دیکھیں گے کہ لوگ ایک دوسرے کے ساتھ میل جول بڑھا رہے ہیں اور غزہ دوبارہ تعمیر ہو رہا ہے۔ غزہ وہ جگہ ہوگی جو اَز سرِ نو تعمیر ہوگی اور علاقے کے دوسرے ممالک بھی اس کی تعمیرِ نو میں مدد کریں گے۔ اِنہیں پورا یقین ہے کہ مشرقِ وسطیٰ میں امن قائم ہوگا۔
یاد رہے کہ اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان جاری تصادم اور غزہ میں یرغمال قیدیوں کی رہائی کے لیے امن منصوبے کے پہلے مرحلے پر مصر میں دست خط ہوئے تھے۔ تاہم امن کے معاہدےپر باضابطہ طور پر دست خط بعد میں ہوئے۔
قیامِِ امن کے مذاکرات میں امریکی مندوب اسٹیو وٹکوف، صدر ٹرمپ کے داماد جیرڈ کُشنر اور حماس کے راہ نما خلیل الحیہ نے شرکت کی۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر امن معاہد ہونے کا اعلان کرتے ہوئے بتایا تھا کہ تمام فریقوں کے ساتھ منصفانہ برتاؤ کیا جائے گا۔
امریکی میڈیا کا کہنا تھا کہ پہلے مرحلے میں تمام یرغمالیوں کو غزہ سے رہا کیا جائے گا، اسرائیلی فوج ایک طے شدہ مقام تک پیچھے ہٹ جائے گی اور چند فلسطینی قیدیوں کو بھی رہا کیا جائے گا۔ ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ یرغمالیوں کی رہائی ممکنہ طور پر پیر کے روز ہوسکتی ہے۔
ٹاسک فورس کا قیام
غزہ امن معاہدہ نافذ العمل ہوگیاہے۔ترجمان قطری وزارت خارجہ کے مطابق امن معاہدے میں جنگ کا خاتمہ، یرغمالیوں اور قیدیوں کی رہائی اور امداد کی فراہمی شامل ہے۔ ایک ترک عہدے دار کے مطابق ترکیہ غزہ میں یرغمالیوں کی لاشوں کی تلاش کے لیے قائم مشترکہ ٹاسک فورس میں شامل ہوگا۔ واضح رہے کہ مشترکہ ٹاسک فورس میں امریکا، قطر، مصر اور اسرائیل شامل ہیں اور پاکستان، سعودی عرب، یو اے ای، مصر، برطانیہ، جرمنی، یورپی یونین سمیت کئی ملکوں نے غزہ جنگ بندی معاہدے کا خیر مقدم کیا ہے۔
طیب اردوان کا موقف
اس معاہدے کے ضمن میں ترکیہ کے صدر رجب طیب اردوان نے کہا ہےکہ امن قائم رکھنے کے لیے سارا بوجھ فلسطینیوں اور حماس پر ڈالنا درست نہیں ہوگا۔ غیر ملکی میڈیا کے مطابق طیب اردوان نے کہا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے امن معاہدے پر عمل درآمد کے لیے اب بھی سب سے بڑی رکاوٹ اسرائیل ہے۔
انہوں نے کہا کہ اسرائیل کو امن کے قیام کے لیے حملے بند کرنا ہوں گے۔ اپنی پارٹی سے تعلق رکھنے والے اراکینِ پارلیمان سے بات کرتے ہوئے اردوان نے کہا کہ امن کوئی ایسی چڑیا نہیں جو ایک پر سے اڑ سکے، یہاں امن کو قائم رکھنے کی تمام تر ذمے داری حماس اور فلسطینیوں پر ڈال دی گئی ہے۔
یاد رہے کہ اس سے قبل ترک صدرنے کہا تھاکہ حماس دہشت گرد تنظیم نہیں ہے، بلکہ ایک آزادی پسند گروپ ہے جو اپنی سر زمین کے تحفظ کے لیے جنگ لڑ رہا ہے۔پارلیمنٹ میں اپنی پارٹی کے منتخب اراکین سے خطاب میں اردوان نے کہاتھا کہ اسرائیل نے ترکی کے اچھے ارادوں کا ناجائز فائدہ اٹھایا ہے اور اسی وجہ سے وہ اب اسرائیل کا دورہ نہیں کریں گے۔
اسرائیلی ریاست سے کوئی مسئلہ نہیں، فلسطینیوں سے متعلق اسرائیلی پالیسیوں سے پریشانی ہے۔ دنیا اسرائیل کی مقروض ہو سکتی ہے، لیکن ترکیہ اس کا مقروض نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ غیر علاقائی ملکوں کو اسرائیل کی حمایت میں آگ میں تیل ڈالنا بند کرنا چاہیے۔ دیرپا امن، جنگ بندی کے لیے مسلم ممالک کو مل کر قدم اٹھانا چاہیے اور ترکیہ فلسطینی فریق کے لیے ضامن بننے کو تیار ہے۔
اسرائیل کی سوچ پڑھنے کی ضرورت ہے
مشرقِ وسطی کے حالات پر نظر رکھنے والےبعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ آج اگرچہ اسرائیل کسی مصلحت کے تحت غزہ میں انسانوں کا قتلِ عام، نسل کشی اور سوچے سمجھے منصوبے کے تحت وہاں قحط کی صورت حال پیدا کرنے سے وقتی طور پر رک گیا ہے، لیکن اس کی پوری تاریخ وعدہ خلافیوں،معاہدوں سے پھر جانے اور توسیع پسندانہ کارروائیوں سے بھری پڑی ہے۔
لہذا اس کی سوچ پڑھنا ضروری ہےتاکہ یہ معلوم ہوسکے کہ وہ کب تک اس معاہدے پر کاربند رہ سکتا ہے اور اس کے بعد اس کا قدم کس نوعیت کا ہوگا۔ وہ اس ضمن میں کئی حوالے اور مثالیں پیش کرتے ہیں۔ اس ضمن میں تازہ حوالہ اسرائیلی وزیر خزانہ بیزلیل اسموترچ کےحالیہ بیان کا دیا جاتا ہے جس میں انہوں نے کہا تھاکہ وہ غزہ میں جنگ کے خاتمے کے لیے حماس کے ساتھ جنگ بندی کے معاہدے کے حق میں ووٹ نہیں دیں گے۔
اسی بیان میں ان کا کہنا تھاکہ غزہ سے اسرائیلی یرغمالیوں کی واپسی کے بعد حماس کو مکمل طور پر تباہ کردینا چاہیے۔ اِن کا کہنا تھا کہ اسرائیل کو حماس کے خلاف اپنی جنگ اس وقت تک جاری رکھنی چاہیے جب تک یہ تنظیم مکمل طور پر تباہ نہ کردی جائے۔ دوسرا حوالہ انتیس ستمبر کو اسرائیلی وزیراعظم، نیتن یاہوکی جانب سے دیے جانے والے بیان کا دیا جاتا ہے جس میں انہوں نے سوشل میڈیا کو بہ طور ہتھیار استعمال کرنے کا اشارہ دیاتھا اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز ٹاک ٹاک اور ایکس کی خریداری میں دل چسپی ظاہر کی تھی۔
نیویارک میں امریکی سوشل میڈیا انفلوئنسرز سے ملاقات میں نیتن یاہو کا کہنا تھا کہ اب ایک نئی قسم کی جنگ اور نئے ہتھیاروں کی ضرورت ہے اور دور حاضر کا سب سے اہم ہتھیار سوشل میڈیا پلیٹ فارمز ہیں۔ ٹک ٹاک اور ایکس سب سے مؤثر ہتھیار ہیں۔ نیتن یاہو کا کہنا تھا کہ اگر ہم ان دو پلیٹ فارمز کو حاصل کر لیں تو ہمارا معاملہ ٹھیک ہو جائے گا۔
مذکورہ تجزیہ کاروں کا موقف ہے کہ نیتن یاہو کا یہ بیان اسرائیل کی مستقبل کی منصوبہ بندی کا عکاس ہے ۔ اسی طرح وہ صدر ٹرمپ کے منصوبے کے بارے میں خدشات اور تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ منصوبہ اسرائیل کی قیادت میں فلسطینی کنٹرول ختم کرنےکی مہم ہے۔ ادہر الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق منصوبہ فلسطینی اداروں کی خودمختاری محدود کردے گا اور مقامی آبادی کے حقوق و انتظامی کنٹرول میں بڑی تبدیلیاں لائے گا۔
مذکورہ تجزیہ کاروں کے مطابق یہ منصوبہ پائے دار امن کے امکانات مزید کم کردے گا۔ وہ اسے ایک متنازع منصوبہ قرار دیتے ہیں جسے تنقیدی حلقوں نے ’’اسرائیل کی قیادت میں فلسطینی کنٹرول کو خارج کرنے کی مہم‘‘ قرار دیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ٹرمپ نیتن یاہو منصوبہ، بنیادی طور پر فلسطینیوں کو غزہ کے مستقبل کی ترتیب سے باہر رکھنے کی مہم ہے۔
ٹرمپ کا بیس نکاتی منصوبہ
امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے غزہ مے لیے بیس نکاتی امن منصوبہ پیش کیا تھا اور ساتھ ہی انہوں نے حماس کو دھمکی دی تھی کہ اگر اس نے امن منصوبہ تسلیم نہ کیا تو پھر اسے سنگین نتائج بھگتنا ہوں گے۔
ٹرمپ کے غزہ امن منصوبے کے تحت حماس کے مزاحمت کار مکمل طور پر غیر مسلح ہوں گے اور انہیں مستقبل کی حکومت میں کوئی کردار نہیں دیا جائے گا، البتہ جو ارکان پرامن بقائے باہمی پر راضی ہوں گے انہیں عام معافی دی جائے گی۔
منصوبے کے مطابق اسرائیل تقریباً دو سال سے جاری جنگ کے بعد بہ تدریج غزہ سے نکلے گا۔ تاہم ٹرمپ کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس کے بعد جاری کردہ ایک وڈیو بیان میں نیتن یاہو نے کہا تھا کہ فوج غزہ کے بیش ترحصوں میں رہے گی اور واشنگٹن میں مذاکرات کے دوران انہوں نے فلسطینی ریاست کے قیام پر اتفاق نہیں کیا۔
دوحہ کا حملہ اہم موڑ ثابت ہوا
بعض تجزیہ کاروں کے مطابق دوحہ میں حماس کے مذاکرات کاروں پر اسرائیلی حملہ اسرائیل کے لیے بہت تباہ کن غلطی ثابت ہوا۔ کیوں کہ اس کی وجہ سے ایک جانب قیامِ امن کی کوششوں کو شدید دھچکا پہنچا تو دوسری جانب اسلامی اور عرب ممالک کو نیا پیغام ملا تھا۔ اگر یہ حملہ نہ ہوتا تو شاید اسرائیل اتنی جلد امن معاہدے کے لیے تیار نہ ہوتا۔
اس حملے نے امریکا کو اپنی پالیسی واضح کرنے پر مجبور کیا اور اس نےقطر کو واضح سیکورٹی گارنٹیز دینے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ قطر کی سرزمین پر کسی بھی مسلح حملے کو واشنگٹن اپنی سلامتی کے لیے خطرہ سمجھے گا اور اس کا بھرپور جواب دیا جائے گا۔ صدر ٹرمپ کے ایگزیکٹو آرڈر کے مطابق امریکا قطر کی سلامتی اور علاقائی خودمختاری کے دفاع کے لیے سفارتی، اقتصادی اور ضرورت پڑنے پر فوجی اقدامات کرنے کا پابند ہوگا۔
یہ پیش رفت اس وقت سامنے آئی جب 9 ستمبر کو اسرائیلی حملے میں حماس کے راہ نماؤں کو نشانہ بنایا گیا جو غزہ میں تصادم روکنے کے حوالے سے امریکی امن منصوبے پر بات کر رہے تھے۔ وائٹ ہاؤس کے مطابق اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو نے قطر کے وزیر اعظم سے معذرت کی اور آئندہ ایسے حملے نہ کرنے کی یقین دہانی کرائی۔ یاد رہے کہ قطر کو خلیج میں امریکا کا کلیدی اتحادی سمجھا جاتا ہے اور یہاں العدید فوجی اڈہ واقع ہے، جو خطے میں امریکی سینٹرل کمانڈ کا اہم مرکز ہے۔
پاکستان کا موقف
صدر ٹرمپ کےقیامِ امن کے منصوبے کے ضمن میں وزیراعظم محمد شہباز شریف کا کہنا تھا کہ فلسطین میں جنگ بندی کی کوششیں بہت جلدرنگ لائیں گی اور امن کے ساتھ فلسطینی ریاست کے قیام کا دیرینہ خواب پورا ہوگا۔ پاکستان اسرائیلی ریاست کو تسلیم کرتا ہے نہ اس کے ساتھ سفارتی تعلقات ہیں۔ پاکستان کا مسئلہ فلسطین پر مؤقف دو ٹوک اور واضح ہے۔
دوسری جانب نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ اسحق ڈار نے کہا کہ غزہ امن منصوبے کے لیے صدرٹرمپ نے جوبیس پوائنٹس دیے وہ من وعن ہمارے نہیں۔ آٹھ مسلم ممالک کی ٹیم سے ٹرمپ کے مذاکرات میں شیئرکیےگئے ڈرافٹ کےجواب میں ہم نے اپنا مسودہ دیا تھا، لیکن جو اعلان ہوا اسلامی ملکوں کا نہیں ہے۔ جو 20 نکاتی ڈرافٹ فائنل ہوا اس میں تبدیلیاں کی گئیں جو ہمیں قبول نہیں۔ فلسطین کے حوالے سے قائد اعظم کی پالیسی پر ہی عمل پیرا ہیں۔
اس میں کوئی تبدیلی ہوئی نہ ہوگی ۔ غزہ میں امن بیانات سے نہیں عملی اقدامات سے ہی ممکن ہوگا۔ آٹھ وزرائے خارجہ کی ٹرمپ سے باضابطہ ملاقات سے قبل بھی ایک ملاقات ہوئی۔ اسرائیل کا لفظ ہمارا نو گو ایریا ہے۔ پاکستان کی ریاستی پالیسی تو دو ریاستی حل ہی ہے۔ قومی اسمبلی اجلاس سے پالیسی خطاب کرتے ہوئے اسحق ڈار نے کہا تھا کہ جنرل اسمبلی جانے سے پہلے ہماری بات ہوئی کہ اقوام متحدہ، یورپی یونین اور عرب ممالک غزہ میں خوں ریزی رکوانے میں ناکام ہوچکے ہیں۔
ہماری کوشش تھی کہ کچھ ممالک کے ساتھ مل کر امریکا جو آخری امید ہے اسے انگیج کیا جائے اور خوں ریزی، بھوک سے اموات اور بے دخلی اور مغربی کنارے کو ہڑپ کرنے کے منصوبے کو روکا جائے۔ نائب وزیراعظم نے کہا تھا پانچ عرب ممالک، پاکستان، ترکیہ اور انڈونیشیا کے صدور اور وزرائے اعظم نے اپنے وزرائے خارجہ کے ساتھ امریکی صدر سے ملاقات کی۔ اسحٰق ڈار نے انکشاف کیا تھا کہ ٹرمپ سے ہونے والی مسلم ممالک کے راہ نماؤں کی ملاقات سے قبل ایک اور بھی ملاقات ہوئی تھی۔ یہ بات ذرائع ابلاغ میں نہیں آئی کیوں کہ خدشہ تھا کہ اس معاملے کو خراب کرنے والے میدان میں کود پڑیں گے۔
حمّاس کا موقف
حماس نے ٹرمپ کے امن منصوبے پر مشروط طور پر آمادگی کا اظہار کرتے ہوئے چار اکتوبر کو کہا تھا کہ وہ غزہ کا کنٹرول آزاد فلسطینی ٹیکنوکریٹس کو سونپنے، قیدیوں کی رہائی اور مذاکرات کے لیے تیار ہے۔قیام امن کے لیے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ، عالمی برادری ، عرب اور مسلم ممالک کی کوششوں کو سراہتے ہیں۔
امن منصوبے پر غور وخوص کے بعد قیادت، فلسطینی دھڑوں، اپنے دوستوں اور ثالث ممالک کے ساتھ مشاورت کے بعد اپنا جواب ثالثوں کے حوالے کردیاہے۔حماس نے اپنے جواب میں جنگ کے خاتمے، قیدیوں کے تبادلے ، انسانی امداد کی فوری رسائی کو یقینی بنانےکا مطالبہ کیا تھا۔ تاہم غزہ پر قبضے اور فلسطینیوں کو بے گھر کرنے کے منصوبے کو مسترد کردیا تھا۔
حماس نے یہ بھی کہاتھا کہ قیدیوں کی رہائی کے لیے زمینی حالات کو محفوظ بنایا جائے، اسرائیلی افواج کا مکمل انخلا چاہتے ہیں۔ حماس نے اپنے بیان میں یہ بھی کہا تھا کہ جہاں تک صدر ٹرمپ کی تجویز میں غزہ کے مستقبل اور فلسطینی عوام کے ناقابلِ انتقال حقوق سے متعلق دیگر معاملات کا تعلق ہے، یہ ایک متحد قومی فلسطینی مؤقف سے جڑے ہوئے ہیں، جو متعلقہ بین الاقوامی قوانین اور قراردادوں پر مبنی ہیں اور ان پر ایک جامع قومی فریم ورک کے اندر بات چیت کی جائے گی جس میں حماس فعال اور ذمے دارانہ طریقے سے حصہ لے گی۔
قبل ازیں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نےحماس کو دھمکی دیتے ہوئے غزہ میں قیامِ امن کا معاہدہ قبول کرنےکےلیے الٹی میٹم دیاتھا اور کہا تھا کہ وہ کل تک اس معاہدے پر دست خط کردے ورنہ ایسا قیامت خیز طوفان ٹوٹ پڑے گا جو اس سے قبل کسی نے نہیں دیکھا ہوگا۔ ٹرمپ نے اسے حماس کے لیے آخری موقع قرار دیاتھا۔
امریکی صدر نے ساتھ ہی معصوم فلسطینیوں کو غزہ کے محفوظ علاقوں میں منتقل ہو جانے کا کہا تھا۔ تاہم ڈونلڈ ٹرمپ نے یہ واضح نہیں کیاتھا کہ وہ (محفوظ علاقے) کہاں ہیں۔ بعد ازاں ڈونلڈ ٹرمپ نے حماس کے جواب کے بعد کہا تھا کہ ان کا خیال ہے کہ حماس امن کےلیے تیار ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پرلکھا کہ اتوار کی شام واشنگٹن کے مقامی وقت کے مطابق چھ بجے تک حماس کے ساتھ ایک معاہدہ طے پانا ضروری ہے۔ انہوں نے لکھا کہ ہر ملک اس پر دست خط کر چکا ہے۔ ٹرمپ نے دھمکی دیتے ہوئےکہاتھا کہ اگر معاہدہ نہ ہوا تو غزہ میں جو باقی ماندہ حماس کے کارکن پھنسے ہوئے ہیں انہیں نشانہ بنایا جائےگا۔
بعد ازاں حماس نے ثالث ممالک کو دیے گئے اپنے جواب میں کہا تھاکہ ٹرمپ کے منصوبے کے تفصیلی جائزے کے بعد حماس نے اپنا فیصلہ کیا اور ثالثوں کے ذریعے یہ جواب پہنچایا۔ حماس نے ان عرب، اسلامی اور بین الاقوامی کوششوں کو سراہا ہے، بہ شمول امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی کوششوں کے، جن کا مقصد غزہ پر جنگ کے خاتمے، قیدیوں کے تبادلے، فوری انسانی امداد کی فراہمی، غزہ کی پٹی پر قبضے کو مسترد کرنے اور ہمارے عوام کی جبری بے دخلی کو روکنے کے لیے کیا گیا۔
بیان میں کہا گیا تھا کہ اسی تناظر میں اور مکمل جنگ بندی اور غزہ کی پٹی سے مکمل انخلا کے حصول کی راہ میں، حماس اس بات کا اعلان کرتی ہے کہ وہ صدر ٹرمپ کی تجویز میں بیان کردہ تبادلے کے فریم ورک کے تحت تمام اسرائیلی قیدیوں، خواہ زندہ ہوں یا باقیات کی صورت میں، کو رہا کرنے پر آمادہ ہے، بشرط یہ کہ تبادلے کے لیے ضروری زمینی حالات کو یقینی بنایا جائے۔
حماس ثالثوں کے ذریعے اس عمل کی تفصیلات پر بات کرنے کے لیے فوری مذاکرات شروع کرنے کی تیاری کا اعلان کرتی ہے۔ تحریک اس امر کی بھی تجدید کرتی ہے کہ وہ غزہ کی پٹی کی انتظامیہ کو ایک ایسی فلسطینی اتھارٹی کے حوالے کرنے پر راضی ہے جو آزاد (ٹیکنوکریٹ) شخصیات پر مشتمل ہو، قومی اتفاقِ رائے سے تشکیل پائے اور اسے عرب و اسلامی حمایت سے تقویت حاصل ہو۔حماس کے ایک عہدے دار کا کہنا تھاکہ اسلامی مزاحمتی تنظیم اسرائیلی قبضے کے خاتمے تک غیر مسلح نہیں ہوگی۔
خدشات اور تحفظّات
مصر میں ہونے والے طویل مذاکرات کے بعد اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی اور قیدیوں کی رہائی کا معاہدہ طے توپا گیا ہے، جس کے بعد غزہ میں دو سال سے جاری تصادم اپنے خاتمے کے قریب ہے، لیکن بعض تجزیہ کاروں کے اس ضمن میں بہت سے تحفظّات اور خدشات ہیں کہ کیا واقعی جنگ ختم ہو جائے گی۔وہ کہتے ہیں کہ اس ضمن میں کوئی ضمانت نہیں دی جا سکتی۔
مذکورہ معاہدے میں جن اُمور پر اتفاق ہوا ہے وہ واشنگٹن میں صدر ٹرمپ کے اعلان کردہ غزہ امن منصوبے کا پہلا حصہ ہے۔ وائٹ ہاؤس میں ہونے والی معاہدے کی تقریب میں اسرائیلی وزیراعظم بھی صدر ٹرمپ کے ساتھ تھے، جن پر الزام ہے کہ انہوں نے ماضی میں امن کے لیے کی گئی کوششوں کو نقصان پہنچایا۔
اطلاعات کے مطابق اس بار صدر ٹرمپ نیتن یاہو سے ناراض ہیں اور اُن کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا ہے۔ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ بہ ظاہر اسرائیل پر اثرانداز ہونے کی جو طاقت امریکیوں کے پاس ہے، اسے مد نظر رکھتے ہوئے اسرائیلی وزیراعظم کے پاس قیامِ امن کے عمل میں شامل ہونے کے علاوہ کوئی اور آپشن موجود نہیں ہے۔ امریکی صدر ٹرمپ کی جانب سے مکمل خاتمے کی دھمکی سے حماس بھی شدید دباؤ میں ہے۔ عرب اور دیگر مسلم ممالک نے صدر ٹرمپ کے منصوبے کو تسلیم کیا اور مذاکرات میں مصر، قطر اور ترکی نے بھرپور کردار ادا کیا۔
اگرچہ حالیہ معاہدے کی تفصیلات تادمِ تحریرجاری نہیں کی گئی ہیں، لیکن اس کے تحت تمام یرغمالیوں کو رہا کیا جائے گا جن میں بیس یرغمالیوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ زندہ ہیں۔ تمام زندہ بچ جانے والے یرغمالیوں کو ایک ساتھ ممکنہ طور پر اتوار تک رہا کر دیا جائے گا۔
ہلاک ہونے والےاٹھائیس یرغمالیوں کی باقیات مرحلہ وار واپس کی جائیں گی۔ معاہدے کے تحت اسرائیلی جیلوں میں قید سیکڑوں فلسطینیوں کو رہا کیا جائے گا، اسرائیلی افواج غزہ کے کچھ علاقے سے انخلا کریں گی اور علاقے میں انسانی امداد کی ترسیل بڑھائی جائے گی۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بلاشبہ یہ ایک اہم لمحہ ہے لیکن یقینی طور پر یہ نہیں کہا جا سکتا کہ غزہ امن معاہدہ مکمل ہو جائے گا، کیوں کہ اہم تفصیلات پر ابھی مزید کام کرنے کی ضرورت ہے۔ جیسے اسرائیل کا اہم ترین مطالبہ حماس کو غیر مسلح کرنا، یا پھر کس حد تک اسرائیلی افواج انخلا کریں گی اور غزہ میں کس کی حکومت ہو گی۔
حماس جانتی ہے کہ یرغمالیوں کی رہائی کے بعد مذاکرات میں اُس کا پلڑا ہلکا ہو جائے گا۔ اسی لیے اس نے یرغمالیوں کی رہائی کے بعد اسرائیل کی جانب سے لڑائی دوبارہ نہ شروع کرنے کی ضمانت مانگی ہے۔ شکوک و شبہات کی کئی دیگر وجوہات بھی ہیں، مثلا مارچ میں اسرائیل نے جنگ بندی ختم کی اور مہلک فضائی حملے شروع کر دیے۔ ادہر نیتن یاہو کو اب بھی سیاسی مسائل کا سامنا ہے۔
ان کی حکومت انتہائی قوم پرست افراد کی حمایت سے چل رہی ہے اور انہوں نے معاہدہ ہونے پر اتحاد چھوڑنے کی دھمکی دی ہے۔ یہی سبب ہے کہ وہ اس جنگ کو طول دینے پر مجبور ہیں۔ انہوں نے حماس کے خلاف مکمل فتح حاصل کرنے کا وعدہ کیا ہے اور کوئی ایسا معاہدہ چاہتے ہیں جس کے تحت وہ یہ کہہ سکیں کہ انہوں نے یہ سب کر دیا ہے۔ البتہ نیتن یاہو نے اس معاہدے کو اسرائیلی ریاست کی قومی، اخلاقی اور سفارتی کام یابی قرار دیا ہے۔