علامہ اقبال نے اپنے کلیدی تصورات بالخصوص خودی اور عشق کے فلسفوں کی تعبیر کرتے ہوئے جن عناصر کو فرد کے جذبۂ حرکت و حرارت کے لیے لازمی قرار دیا، ان میں یقین وہ قوتِ محرکہ ہے جو افرادِ ملت کو تشکیک کی فضا سے نکال کر راہِ عمل میں یوں گامزن کر دیتی ہے کہ وہ محبوب فطرت ٹھہرتے ہیں۔
یقین اسی کا سرمایہ ہے جو فرد کو شبہات و قیاسات اور گمانوں اور وسوسوں سے نہ صرف نکالتا ہے بلکہ مجموعی طور پر مزاجِ قوم کے تعین میں بھی اہم کردار ادا کرتا ہے۔
چنانچہ جہاں فرد کو عدمِ یقین کے باعث شک، شبہے اور وسوسے اس قدر ترساں و لرزاں کر دیتے کہ اس کے لیے قدم تک اٹھانا محال ہو جاتا ہے، وہیں یقین استحکام لیے ہوئے ہوتا ہے۔ اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ خوف، ترس اور خودرحمی جیسے منفی جذبات قوم کے مجموعی مزاج میں مایوسی پیدا کر دیتے ہیں۔
نہ ہی اس امر میں کوئی شک ہے کہ ایسی مایوسی ہی قوم کے لیے بے عملی کا پیش خیمہ بن جاتی ہے اور ایمان و ایقان کی کمی قومی ترقی کی راہیں مسدود کرکے رکھ دیتی ہے۔ یہ یقین ہی کی شمع ہے جسے روشن کرنے سے گردوپیش کی تاریکیاں چھٹ جاتی ہیں اور نشانِ منزل واضح تر ہو جاتے ہیں۔
چنانچہ اقبال جہاں دوسرے جذباتِ مثبت سے قومی مزاج کے رخ متعین کرتے ہیں، وہیں یقین کی قوت سے انفعالیت کا مقابلہ کرنے اور اپنے عمل سے تقدیر بدل ڈالنے کی با ت کرتے ہیں اور اپنے تیشے سے جادۂ منزل تراشنے کی ترغیب دلاتے ہیں۔
ان کے مطابق جذبۂ یقین شکوک و شبہات کو یوں ختم کر ڈالتا ہے کہ فرد کی توجہ ممکناتِ ذات کی جانب ہو جاتی ہے اور وہ بالآخر غوروتدبر اور تفحص و تفہم کی طرف راغب ہو تا ہے، جس کا حکم قرآن مجید فرقانِ حمید میں اکثر مقامات پر اصلاحِ احوال کی خاطر ذکر فرمایا گیا ہے۔
اسی سے قلب و نظر میں عظمت و توقیرِ ذات کے احساسات پیدا ہوتے ہیں، فرد اپنی تقدیر اپنے عمل سے سنوارنے کی جانب متوجہ ہوتا ہے اور ہر لحظہ نیا طُور نئی برقِ تجلی کے مصداق اس کی زندگی نشوو ارتقا پاتی ہے، جو فی نفسہٖ قوم و ملت ہی کی ترقی و خوشحالی ہے۔
ظاہر ہے کہ اس درجے تک پہنچنے کے لیے قوتِ یقین ضروری ہے۔ یہ ایک مسلّمہ حقیقت ہے کہ یقین وہ قوت ہے جس سے کام لینے پرمنظرنامہ یکسر تبدیل ہو جاتا ہے، اسی لیے علامہ جذبۂ یقین فرد کے لیے ایک سرمایہ قرار دیتے ہیں اور اسے جابجا اپنی تقدیر کو عمل سے بدلنے کی ترغیب دلاتے ہیں:
تو اپنی سرنوشت اب اپنے قلم سے لکھ
خالی رکھی ہے قدرتِ حق نے تری جبیں
_____
اپنی دُنیا آپ پیدا کر اگر زندوں میں ہے
سرِّ آدم ہے ضمیرِ کُن فکاں ہے زندگی
_____
تقدیر کے پابند ہیں نباتات و جمادات
مومن فقط احکامِ الٰہی کا ہے پابند
_____
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ
_____
تو رازِ کن فکاں ہے اپنی آنکھوں پر عیاں ہو جا
خودی کا رازداں ہو جا، خدا کا ترجماں ہو جا
اقبال کے نزدیک تاریخ شاہد ہے کہ جب کبھی بندۂ مومن کا ہاتھ اللہ کے ہاتھ میں مبدّل ہوا، تو یہ صرف اور صرف حرکت و عمل کے ساتھ ایقانِ آرزو کی بدولت ممکن ہو پایا ہے۔ بے یقین قومیں مردہ دلی کے سوا کچھ سرمایہ نہیں رکھتیں اور اگر سمجھا جائے تو مردہ دلی موت کے سوا کچھ نہیں۔
چنانچہ اقبال ’دلِ مردہ‘ کو زندہ کرنے کا سبق دیتے ہیں اور بجاطور پر سمجھتے ہیں کہ اُمتوں کے ’مرض کہن کا چارہ‘ یہی ہے کہ دلوں میں یقین کی شمعیں روشن کر دی جائیں کہ یقین ہی بے عملی کی ضد ہے۔ مومن کومحرومِ یقین ہرگز نہ ہونا چاہیے:
گماں آباد ہستی میں یقیں مردِ مسلماں کا
بیاباں کی شبِ تاریک میں قندیلِ رہبانی
_________
یقیں افراد کا سرمایۂ تعمیر ملّت ہے
یہی قوت ہے جو صورت گرِ تقدیرِ ملّت ہے
اقبال نے یقیں کو خدائے لایزال کا دستِ قدرت اور زبان قرار دیا ہے اور اس جانب توجہ دلائی ہے کہ فرد کو ہرگز مغلوبِ گمان نہ ہوناچاہیے۔ یہ گمان ہی ہیں جو اسے یقین سے محروم کر دیتے ہیں۔ یقین ہی وہ دولت ہے جس کی وساطت سے ایسی درویشی ہاتھ میں آتی ہے کہ جس کے سامنے فغفوری سر جھکا دیتی ہے۔
ان کے مطابق جہادِ زندگانی میں یقینِ محکم، عمل پیہم اور محبتِ انسانی کی ضرورت ہے۔ ایک جگہ اپنے فارسی کلام میں بڑے عمدہ پیرایے میں فرماتے ہیں کہ آخر ایک بہادر کو طبع بلند، وسیع المشربی، دلِ گرم، نگاہِ پاک اور جانِ بیتاب درکار ہوتے ہیں اور یہ ایسے خصائص ہیں جو بے یقین کی قسمت میں نہیں:
بے یقیں را لذتِ تحقیق نیست
بے یقیں را قوتِ تخلیق نیست
بے یقیں را رعشہ ھا اندر دل است
نقش نو آوردن اُو را مشکل است
اس کے برخلافِ سوزِ یقین کی دولت غلاموں کو سلاطین کے رتبے سے نوازتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اقبال غلاموں کے لہو کو سوز یقین سے گرمانا چاہتے ہیں اور کنجشکِ فرومایہ کو شاہین سے لڑوانے کے متمنی ہیں۔
علامہ نے تاریخِ اسلام سے ایسی بے شمار مثالیں اپنی شاعری میں پیش کی ہیں، جب دولت یقین سے سرشاراکابر و عساکر مسلم نے مٹھی بھر تعداد میں ہونے کے باوصف فتوحات کبیرہ و جلیلہ حاصل کیں۔ ’لا الٰہ ٗ کی زرّہ نے انھیں استقامت، جرأت اور ہمت سے نوازا، جس کے باعث وہ تاریخ میں امر ہو گئے؛ اس تناظر میں فرماتے ہیں:
مردِ سپاہی ہے وہ اس کی زرّہ لا الٰہ
سایۂ شمشیر میں اس کی پنہ لاالٰہ
ہاتھ ہے اللہ کا بندۂِ مومن کا ہاتھ
غالب و کار آفریں، کارکشا، کارساز
نقطۂ پرکارِ حق، مردِ خدا کا یقیں
اور یہ عالم تمام وہم و طلسم و مجاز
علامہ جذبۂ یقین کو اس حد تک قوی گردانتے ہیں کہ اس میں غلامی کی زنجیریں توڑ ڈالنے کی خاصیت محسوس کرتے اور کراتے ہیں۔ وہ افرادِ ملت کو متوجہ کرتے ہیں کہ غلامی میں نہ شمشیریں کام آتی ہیں اور نہ ہی تدبیریں، یہ ذوقِ یقین ہے جس کے باعث ہر قسم کی زنجیریں کٹ جاتی ہیں۔
بے یقین شخص غلام سے بدتر ہے اور ضعفِ یقین کا علاج آج تک کوئی فلسفی فراہم نہ کر سکا، اس کے برعکس قوتِ یقین کے ثمرات سے مسلم تاریخ کے اوراق روشن ہیں کہ اس کے پس منظر میں جذبہ ہاے عشق و مستی کارفرما تھے:
علاجِ ضعفِ یقیں ان سے ہو نہیں سکتا
غریب اگرچہ ہیں رازی کے نکتہ ہاے دقیق
_____
یقیں مثلِ خلیلؑ آتش نشینی
یقیں اللہ مستی، خودگزینی
سُن اے تہذیبِ حاضر کے گرفتار
غلامی سے بتَر ہے بے یقینی
یاد رہے کہ قوتِ یقین سے سرشار ہونے کے لیے جوان یا پیر کی قید نہیں اور یہ ہر کہہ و مہہ کے نصیب میں بھی نہیں، بلکہ لاکھوں میں کوئی ایک صاحب یقین بھی تقدیر امم بدل کے رکھ دیتا ہے۔
اقبال ایسے ہی صاحبانِ یقین کے متمنی تھے جو اپنے عمل کی حرارت سے ملت کے بدن میں خونِ زندگی دوڑا سکیں۔ ایک مقام پر صاحبِ یقیں کے اہداف و مقامات کی وضاحت کرتے ہوئے تمثیلی انداز میں یوں تحرک کا جذبہ پیدا کرتے ہیں:
آگ اس کی پھونک دیتی ہے برنا و پیر کو
لاکھوں میں ایک بھی ہو اگر صاحبِ یقیں
تو اپنی سرنوشت اب اپنے قلم سے لکھ
خالی رکھی ہے خامۂ حق نے تری جبیں
یہ نیلگوں فضا جسے کہتے ہیں آسماں
ہمت ہو پرکشا تو حقیقت میں کچھ نہیں
بالائے سر رہا تو ہے نام اس کا آسماں
زیرِ پر آگیا تو یہی آسماں، زمیں
یاد رہے کہ یہ محض ماضی کے قصّے نہیں جو علامہ نے ہمیں سنائے ہیں بلکہ زیادہ عرصہ نہیں گزرا کہ افواجِ پاکستان کے دلوں میں موجزن یقینِ محکم کا عملی مظاہرہ ہم نے یوں دیکھا، گویا ’آسماں‘ بالائے سر نہ رہا بلکہ عساکر پاکستان کے زیرِ پر آ کر گویا زمین بوس ہوگیا۔
حقیقت یہ ہے کہ علامہ اقبال کی شاعری دلوں کو جذبۂ یقین سے سرشار کرتی ہے اور تشکیلِ مقاصد کے لیے جذبوں کو مہمیز کرنے کی قدرت رکھتی ہے۔ خود اُنھیں اس بات کا ادراک بھی تھا کہ ان پر فیضانِ نظر ہے اور ان کا کلام دلوں کو بدلنے کی خاصیت سے متصف ہے۔
اسی لیے تو اقبال نے خود اپنے کلام کے حوالے سے فرمایا کہ میرے دل میں جنم لینے والے خیالات گمانوں کے لشکروں میں یقین کا ثبات پیدا کرنے کی خاصیت رکھتے ہیں، چنانچہ وہ تمام عمر کاروانِ ملت میں اپنی اس متاعِ بے بہا کو اور اپنے دردو سوزِ آرزومندی کو لٹا دینے کے متمنی رہے:
مرا دل مری رزم گاہِ حیات
گمانوں کے لشکر، یقیں کا ثبات
یہی کچھ ہے ساقی متاعِ فقیر
اسی سے فقیری میں ہوں میں امیر
مرے قافلے میں لُٹا دے اسے
لُٹا دے ٹھکانے لگا دے اسے
آج وطنِ عزیز کو بہت سے مسائل کا سامنا ہے۔ اخلاقی، تعلیمی، سماجی، معاشی اور سیاسی اعتبار سے ہمیں بے شمار چیلنج درپیش ہیں۔ قوموں کی زندگی میں ایسے مراحل آتے رہتے ہیں۔ ایسے میں مایوسی کی تاریکی میں روشنی کی جستجو کرتے رہنا چاہیے۔
ہم خوش نصیب ہیں کہ ہمارے لیے شاعرِ مشرق کا کلام بھرپور رہ نمائی کے لیے موجود ہے جو افراد قوم کو یقین کی اس دولت سے ہمکنار کر سکتا ہے جو راہ ترقی کے لیے حقیقی معنوں میں سرمایۂ تعمیرِ ملّت ہے۔