• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اسلامی تاریخ کے درخشندہ ستاروں میں بعض ایسی شخصیات ہیں، جنہوں نے اپنے علم، زہد، تقویٰ، سلوک و معرفت اور تبلیغِ دین کی ایسی لازوال خدمات انجام دیں کہ ان کی یاد اور فیضان صدیوں بعد بھی زندہ و تابندہ ہے۔ انہی عظیم ہستیوں میں حضرت سیدنا الشیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ ہیں ،جنہیں دنیا بھر کے اہلِ ایمان ’’غوث الاعظم‘‘ اور ’’محی الدین‘‘ کے القاب سے یاد کرتی ہے۔ 

آپ کی شخصیت بیک وقت ایک عظیم محدث، فقیہ، صوفی، داعی اور مربی کی حیثیت رکھتی ہے۔ آپ کے فیضان نے صرف مشرقِ وسطیٰ ہی نہیں ،بلکہ برصغیر پاک و ہند سمیت دنیا کے کونے کونے کو منور کیا۔ آپ کی حیاتِ مبارکہ ایک ایسے کامل انسان کی تصویر ہے جس نے علم و عمل، زہد و تقویٰ اور سلوک و معرفت کو یکجا کر کے امتِ مسلمہ کے لیے دائمی مشعلِ راہ مہیا کی۔

حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت یکم رمضان 470ھ بمطابق 17 مارچ 1078ء کو ایران کے صوبہ کرمانشاہ کے علاقے گیلان میں ہوئی۔ گیلان کو بعض مؤرخین ’’کیلان‘‘ بھی لکھتے ہیں ۔ آپ کا شجرۂ نسب والد کی طرف سے حضرت امام حسن بن علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ سے اور والدہ کی طرف سے حضرت امام حسین بن علی شہیدِ کربلا رضی اللہ عنہ سے جا ملتا ہے، یوں آپ حسنی و حسینی سید تھے اور براہِ راست خاندانِ نبوت ﷺ سے تعلق رکھتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کی ذاتِ مبارکہ میں ایک خاص نورانیت اور جذب کی کیفیت ابتدا ہی سے نمایاں تھی۔

آپ کے والد ماجد کا وصال بچپن ہی میں ہوگیا تھا، اس کے بعد آپ کی پرورش و تربیت آپ کی والدہ اور نانا نے نہایت حکمت اور دینی ماحول میں کی۔ آپ کی والدہ ماجدہ نہایت متقی، پرہیزگار اور صاحبِ کرامت خاتون تھیں۔ روایت ہے کہ آپ بچپن ہی سے ولایت کے انوار کے حامل تھے۔ یہ کرامت مشہور ہے کہ آپ رمضان المبارک کے دنوں میں طلوعِ فجر سے غروبِ آفتاب تک کبھی دودھ نہیں پیتے تھے اور پورا علاقہ اس غیر معمولی کیفیت کو محسوس کرتا تھا۔

بچپن میں عام بچوں کی طبیعت کھیل کود کی طرف مائل ہوتی ہے، لیکن آپ کی فطرت بچپن ہی سے مختلف تھی۔ آپ خود فرمایا کرتے تھے کہ جب میں بچوں کے ساتھ کھیلنے جاتا تو ایک غیبی آواز مجھے پکارتے ہوئے کہتی: ’’اے برکت والے! میری طرف آ جا‘‘۔ یہ اس بات کی دلیل تھی کہ آپ کی ذات کو دنیاوی لہو و لعب سے محفوظ رکھا گیا تھا اور آپ کی زندگی کا مقصد ربّانی منصوبے کے تحت متعین ہو چکا تھا۔

آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے وطن میں حاصل کی لیکن حقیقی علمی سفر کا آغاز اٹھارہ برس کی عمر میں 488ھ/1095ء میں ہوا، جب آپ بغداد کی طرف روانہ ہوئے۔ اس وقت بغداد علمی و روحانی دنیا کا مرکز تھا، جہاں بڑے بڑے فقہاء، محدثین اور صوفیاء موجود تھے۔ 

آپ نے فقہ حنبلی کے جلیل القدر عالم ابو سعید مخرمی سے فیض پایا، علمِ حدیث میں ابوبکر بن مظفر اور تفسیر میں ابو محمد جعفر سے اکتسابِ علم کیا۔ بغداد کے مکتب و مدرسہ کی فضاؤں نے آپ کے ذہن و قلب کو مزید جلا بخشی اور آپ نہ صرف علومِ شریعت میں ماہر ہوئے بلکہ سلوک و معرفت کے بھی اعلیٰ مدارج طے کیے۔

علم حاصل کرنے کے بعد آپ نے دنیاوی مشاغل کو ترک کر کے عراق کے جنگلوں اور صحراؤں میں 25 سال تک ریاضت و مجاہدہ کیا۔ یہ دور آپ کی زندگی کا وہ مرحلہ ہے جس میں آپ نے نفس کو توڑا، روح کو صیقل کیا اور حق کے قرب کو حاصل کیا۔ راتیں عبادت میں گزرتیں، دن تلاوت اور ذکر میں اور اس ریاضت نے آپ کے دل کو ایک ایسے آئینے میں بدل دیا جو اللہ کی معرفت کے انوار کو منعکس کرنے لگا۔ آپ کی زبان سے نکلنے والے الفاظ دلوں کو جھنجھوڑ دیتے اور قلوب کو منور کر دیتے تھے۔

جب آپ نے 521ھ/1127ء میں دوبارہ بغداد میں سکونت اختیار کی تو آپ کی شہرت و بزرگی کے چرچے ہر طرف پھیل گئے۔ آپ نے تدریس اور وعظ کا سلسلہ شروع کیا اور جلد ہی آپ کا حلقۂ درس بغداد کی سب سے بڑی علمی و روحانی مجلس بن گیا۔ 

ہزاروں طلباء و شیوخ آپ کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کرتے، آپ کے خطبات میں فقہ و شریعت کے دقائق بھی ہوتے اور تصوف و سلوک کے اسرار بھی۔ آپ کے وعظ کی خاص بات یہ تھی کہ وہ محض الفاظ کا ہیر پھیر نہ تھے، بلکہ دل کی گہرائیوں سے نکلنے والے وہ کلمات تھے جو سننے والوں کے دل میں جا گزیں ہو جاتے تھے۔

آپ کی حیاتِ مبارکہ میں ایک ایسا لمحہ بھی آیا، جب اللہ تعالیٰ نے آپ کو مرتبۂ غوثیت سے نوازا۔ روایت ہے کہ ایک خطبہ جمعہ کے دوران آپ پر کیفیتِ استغراق طاری ہوئی اور آپ کی زبان سے یہ الفاظ نکلے: ’’قدمی ہذا علیٰ رقبۃ کل ولی اللہ‘‘ یعنی میرا قدم تمام اولیاء اللہ کی گردن پر ہے۔ اسی لمحے عالمِ غیب سے منادی ہوئی کہ سب اولیاء اللہ اطاعتِ غوث الاعظم کریں۔ یہ آواز سن کر تمام اولیاء نے خواہ وہ زندہ تھے یا انتقال کر چکے تھے، سب نے سرِ تسلیم خم کر دیا۔

آپ کی کرامات بے شمار ہیں، جنہیں محدثین اور مؤرخین نے کتب میں محفوظ کیا ہے۔ ہزاروں لوگ آپ کے دستِ مبارک پر اسلام قبول کرتے۔ آپ کی دعا سے بیمار شفا یاب ہوتے، قیدی آزاد ہوتے اور مشکلات آسان ہو جاتیں۔ لیکن آپ ہمیشہ کرامت سے زیادہ اطاعتِ الٰہی اور اتباعِ سنت کی تلقین کرتے۔ فرمایا کرتے تھے کہ ’’اگر کوئی شخص ہوا میں اڑتا نظر آئے، لیکن اس کی زندگی شریعت کے مطابق نہ ہو تو وہ ولی نہیں ہے‘‘۔ یہ اصول آپ کی تعلیمات کی بنیاد تھا کہ شریعت کے بغیر طریقت کا کوئی وجود نہیں۔

آپ کی علمی و روحانی خدمات کا دائرہ بغداد تک محدود نہ رہا، بلکہ آپ نے اسلام کے پیغام کو دور دراز تک پہنچایا۔ تاریخ میں ذکر ہے کہ آپ نے تبلیغی سفر میں برصغیر کا رخ بھی کیا اور ملتان میں قیام فرمایا۔ اسی نسبت سے برصغیر کے مسلمانوں کے دلوں میں آپ کی محبت اور عقیدت غیر معمولی ہے۔ قادریہ سلسلہ جو آپ نے قائم کیا، آج تک دنیا بھر میں پھیلا ہوا ہے اور لاکھوں لوگ آپ کے روحانی فیضان سے مستفید ہوتے ہیں۔

آپ کے فرمودات صوفیانہ حکمت کا گراں قدر سرمایہ ہیں۔ آپ فرمایا کرتے تھے: ’’اے انسان! اگر تو اپنی محنت اور ریاضت سے اللہ کے ذکر کو دل میں بسانا چاہے تو ممکن نہیں جب تک کہ تجھے اللہ کے کسی کامل بندے کی صحبت نصیب نہ ہو‘‘۔ ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا: ’’اہلِ دل کی صحبت اختیار کرو، تاکہ تو بھی صاحبِ دل ہو جائے‘‘۔ یہ تعلیمات واضح کرتی ہیں کہ آپ کے نزدیک روحانی ارتقاء کے لیے صحبتِ صالحین بنیادی شرط تھی۔

آپ نے متعدد کتب تصنیف کیں جن میں ’’الفتح الربانی‘‘، ’’فتوح الغیب‘‘، ’’جلاء الخاطر‘‘، ’’ورد الشیخ‘‘ اور ’’بہجۃ الاسرار‘‘ خصوصاً مشہور ہیں۔ ان کتابوں میں آپ نے نہ صرف صوفیانہ نکات بیان کیے، بلکہ عوام و خواص کے لیے عملی رہنمائی فراہم کی۔ آج بھی ان کتب سے طالبینِ حق استفادہ کرتے ہیں۔

آپ کا وصال11 ربیع الثانی 561ھ بمطابق 10 دسمبر 1166ء ہفتہ کی شب ہوا۔ آپ کو آپ کے مدرسہ کے صحن میں سپرد خاک کیا گیا جو آج بغداد میں مرجعِ خلائق ہے۔ صدیوں سے اہلِ ایمان آپ کے مزار پر حاضر ہو کر روحانی سکون حاصل کرتے ہیں اور آپ کے فیضان سے مستفید ہوتے ہیں۔

حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کی حیاتِ طیبہ دراصل ایک مکمل نصابِ زندگی ہے۔ آپ نے اپنی ذات کو فنا کر کے اللہ کے دین کو غالب کرنے کا بیڑا اٹھایا اور اس مشن میں اپنی تمام توانائیاں صرف کر دیں۔ آپ کی شخصیت اس بات کی عملی تفسیر ہے کہ علمِ شریعت، عملِ صالح، ذکر و فکر اور خدمتِ خلق کے ذریعے انسان نہ صرف خود کو سنوار سکتا ہے، بلکہ پوری امت کو راہِ حق دکھا سکتا ہے۔ آپ کے خطبات اور ملفوظات امت مسلمہ کے لیے آج بھی تازہ ہوا کا جھونکا ہیں۔

یوں کہا جا سکتا ہے کہ اگر بغداد کی علمی و روحانی تاریخ میں کوئی شخصیت سب سے نمایاں ہے تو وہ حضرت سیدنا عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ ہیں۔ آپ کی ولادت سے وصال تک کے حالات، تعلیمات اور خدمات ایک ایسے درخت کی مانند ہیں جس کی شاخیں دنیا بھر میں پھیل گئیں اور جس کے سائے میں آج بھی اہلِ ایمان اپنی پیاس بجھاتے ہیں۔ آپ کا پیغام ہر دور میں یہی رہا کہ اللہ کی بندگی اور رسول اللہ ﷺ کی سنت کی اتباع ہی نجات کا راستہ ہے۔ یہی آپ کا اصل فیضان اور پیغام ہے جو قیامت تک باقی رہے گا۔

حکمت بھری باتیں…!

حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؒ نے فرمایا:٭…اگر برائی کا بدلہ برائی سے دیا جائے تو یہ دنیا خوں خوار درندوں کا گھر بن جائے۔٭…جو اللہ سے واقف ہوجاتاہے، وہ مخلوق کے سامنے متواضع (جھکنے والا) ہوجا تا ہے۔٭…جس کا انجام موت ہے،اس کے لیے (بھلا) کون سی خوشی ہے۔٭…شکستہ قبروں پر غور کرو کہ کیسے کیسے حسینوں کی مٹی خراب ہو رہی ہے۔٭…جو شخص شریعت کے( بیان کردہ) آداب سے ادب نہ سیکھے،اسے قیامت کے دن آگ ادب سکھائے گی۔٭…ہر وہ شخص جو اللہ کے حکم کی عظمت کوملحوظ نہ رکھے اور مخلوق پر شفقت نہ کرے، وہ اللہ سے دور ہے۔٭…اس شخص سے جس نے اللہ کی عبادت بغیر علم حاصل کیا (اس سے ) علیحدہ ہوجاؤکہ اس کا بگاڑنا سنوارنے سے زیادہ ہوگا۔٭… اللہ والے اللہ کی عبادت کرتے ہیں،پھر بھی خوف زدہ رہتے ہیں،جب کہ تم گناہ کرتے ہو، پھر بھی بے خوف ہو، یہ کھلا دھوکا اور فریب ہے، بچو، بچو، کہیں اللہ تمہاری گرفت نہ فرمائے۔٭…جو اپنے نفس کا اچھی طرح معلّم نہ ہو، وہ بھلا دوسروں کا معلّم کیسے ہو سکتا ہے؟

اسپیشل ایڈیشن سے مزید