• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سپریم کورٹ آف پاکستان نے منگل 17مئی 2022کو آرٹیکل A-63کی تشریح کے لیے دائر کیے گئے صدارتی ریفرنس اور آئینی درخواستوں کو نمٹاتے ہوئے جو رائے جاری کی اس کے اثرات برسوں ملکی سیاست پر حاوی رہنے کی توقعات بےمحل نہیں۔ عدالتِ عظمیٰ نے قرار دیا کہ پارٹی پالیسی سے انحراف کے مرتکب رُکنِ اسمبلی کا ووٹ شمار نہیں ہوگا۔ پانچ رکنی لارجر بنچ نے دو کے مقابلے میں تین کی اکثریت سے جو رائے دی، اس کے بموجب اراکین کا انحراف سیاسی جماعتوں کو غیرمستحکم اور جمہوریت کو ڈی ریل کر سکتا ہے، پارٹی پالیسی سے انحراف سیاسی جماعتوں کے لیے کینسر کے مترادف ہے، سیاسی جماعتوں کے حقوق کا تحفظ ایک رکن کے حقوق سے بالاتر ہے۔ عدالت نے منحرف رُکن کی نااہلی کی میعاد متعین کرنے کا معاملہ پارلیمنٹ کو بھیج دیا اور منحرف اراکین کی تاحیات نااہلیت سے متعلق پاکستان تحریک انصاف کی آئینی درخواست مسترد کر دی گئی۔ قرار دیا گیا کہ آرٹیکل A-63کو اکیلا نہیں پڑھا جا سکتا، اسے آرٹیکل 17کے ساتھ مربوط کیا جائے گا اور آرٹیکل 17سیاسی جماعتوں کے حقوق کو تحفظ دیتا ہے۔ صدر عارف علوی نے آرٹیکل A-63کی تشریح کے لیے 21مارچ کو ریفرنس سپریم کورٹ میں بھیجا تھا جو 58دن زیر سماعت رہا اور اس پر 20سماعتیں ہوئیں۔ مذکورہ ریفرنس پنجاب اسمبلی میں پی ٹی آئی کے 26اراکین کے طرز عمل کے حوالے سے خاص اہمیت رکھتا ہے۔ جنہوں نے مبینہ طور پر گزشتہ ماہ صوبائی وزیر اعلیٰ کے انتخاب کے دوران پارٹی لائن کی خلاف ورزی تھی۔ سپریم کورٹ کی اس آئینی تشریح کے مستقبل کے سیاسی منظر نامے پردور رس اثرات مرتب ہونے کی توقعات کی جارہی ہیں۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس مظہر عالم خان میاں خیل، جسٹس منیب اختر اور جسٹس جمال خان مندوخیل پر مشتمل لارجر بنچ نے منگل کو سماعت مکمل ہونے پر فیصلہ محفوظ کرلیا تھا۔ شام کو 8صفحات پر مشتمل فیصلہ سنایا گیا جبکہ تفصیلی فیصلہ ابھی آناباقی ہے۔ عدالتی بنچ کے دو فاضل ارکان جسٹس مظہر عالم میاں خیل اور جسٹس جمال خان مندوخیل نے اکثریتی فیصلے سے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں اس صدارتی ریفرنس کے ذریعے پوچھے گئے سوالات میں کوئی جان نظر نہیں آتی، آرٹیکل A-63کا مقصد انحراف سے روکنا ہے، تاحیات نااہلی پر رائے دینا ہمارے لیے آئین دوبارہ لکھنے کے مترادف ہوگا۔ اکثریتی ججوں (چیف جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر) نے اپنی رائے میں قرار دیا کہ پارلیمانی جمہوریت میں سیاسی جماعتوں کا کردار کلیدی ہوتا ہے۔ سیاسی جماعتیں وہ لازمی جزو ہیں جن کے بغیر پارلیمانی جمہوریت کھڑی ہی نہیں ہوسکتی، کسی منتخب رکن کی طرف سے اپنی پارٹی کی پالیسیوں سے انحراف وہ راستہ ہے جس سے سیاسی جماعتوں کو غیر مستحکم کیا جاسکتا ہے۔ مزید کہا گیا کہ آرٹیکل 63۔اے کا مقصد اراکین کو انحراف سے روکنا ہے، پی ٹی آئی کے رہنما عمران خان نے کوہاٹ کے جلسے میں سپریم کورٹ کے فیصلے پر خوشی ظاہر کی، عدلیہ کا شکریہ ادا کیااور الیکشن کا مطالبہ دہرایا ہے، جبکہ وفاقی کابینہ، جوپی ٹی آئی کے ووٹوں کے بغیر بنی، اہم فیصلوں کی صورت میں اعتماد کا اظہار کرتی نظر آرہی ہے ۔ تاہم پنجاب میں حمزہ شہباز کیلیے مشکلات سامنے آسکتی ہیں۔ صوبائی گورنر کا عہدہ خالی ہونے کی باعث ان سے اعتماد کا نیا ووٹ لینے کے لیے کہا جاسکتا ہے جبکہ وہ پی ٹی آئی کے 26اراکین کی حمایت سے وزیراعلیٰ بنے تھے۔ اہم بات یہ ہے کہ سیاسی پارٹیاں جو جمہوریت کی لازمی ضرورت ہیں، مضبوط و موثر ہونی چاہئیں اور عشروں سے جاری ضمیروں کی منڈی پر قدغن عملاً نظر آنا چاہئے۔

تازہ ترین