• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کمیٹی کے اجلاس میں شرکت ہمیشہ سے ہی میرے لیے تکلیف کا باعث رہی ہے۔ اِن اجلاسوں میں عموماً فروعی مسائل پر گفتگو ہوتی ہے اور اصل موضوعات کوبسااوقات پس پشت ڈال دیا جاتا ہے یا پھر انہیں اگلے اجلا س تک کیلئے موخر کر دیا جاتا ہے۔ لیکن ہر مرتبہ ایسا نہیں ہوتا۔جب سے اجلاس کی سربراہی نوجوان چمپنزی کے پاس آئی ہے حالات میں کافی بہتری دیکھنے میں آئی ہے۔صاحبِ صدر نہ صرف خوش شکل اور خوش اطوار ہیں بلکہ انہیں فنونِ لطیفہ سے بھی شغف ہے ۔ویسے تو اِن کا تعلق بن مانسوں کے نسبتاً غیر معروف قبیلے سے ہے مگر اپنی خوش مزاج طبیعت اور ہر مسئلے کو حل کردینے کی غیر معمولی صلاحیت کی بدولت انہوں نے بہت جلد اشرافیہ میں اپنی جگہ بنائی ہے۔اپنے پیشرو چمپنزی کے اعزاز میں منعقد ہونے والی تقریب میں کمیٹی کے اِس نئے سربراہ نے جو تقریر کی تھی اُس پر سب بندروں نے انہیں بہت داد دی تھی۔تقریر میں نوجوان بن مانس نے اِس عزم کا اظہار کیا تھا کہ وہ سابق سربراہ کی پالیسیوں کو جاری رکھتے ہوئے کمیٹی کو مزید فعال بنانے کی کوشش کریں گے۔اِس کے علاوہ بھی انہوں نے کافی دل لبھا دینے والی گفتگو کی تھی جو اخبارات میں نمایاں طور پر شائع ہوئی مگر بد قسمتی سے مجھے یاد نہیں کیونکہ میں اُس تقریب میں مدعو نہیں تھا، سننے میں آیا ہے کہ بن مانسوں نے کسی ہومو سیپئن کو دعوت نہیں دی۔خیر یہ ایسی کوئی معیوب بات بھی نہیں ، عام چمپنزی کو اِس سے کوئی سروکار نہیں ہے کہ ہومو سیپئن طبقے کے حقوق کیا ہیں اور انہیں تحفظ کیسے فراہم کیا جا سکتا ہے؟تاہم، یہ کہنابے جا نہ ہوگا کہ کمیٹی کی فعالیت سے کچھ زیادہ ہی امیدیں وابستہ کر لی گئی ہیں، اِس کمیٹی کا اختیار فقط سفارشات مرتب کرنے تک محدود ہے مگر بن مانسوں کی اکثریت اِس فرق کو نہیں سمجھتی اور یوں ہر مرتبہ نو منتخب سربراہ کی تقریر میڈیا میں اچھا خاصا موضوع بن جاتی ہے۔میرے لیے یہ ہمیشہ ایک نا خوشگوار تجربہ ہی ہوتا ہے۔

اکثر ساتھیوں کی شکایتیں مجھ تک پہنچتی رہتی ہیں جن میں وہ اپنے تجربات کے بارے میں بتاتے ہیں جو بن مانسوں کے ساتھ انہیں پیش آتے ہیں ۔ ایسے معاملات میں میری کوشش ہوتی ہے کہ انہیں سمجھا بجھا کر رُخصت کر دوں ۔ نہ جانے کیوں انہوں نے یہ سمجھ لیا ہے کہ میرے پاس اُن کے مسائل کا حل ہے۔شاید وہ اِس وجہ سے مجھ تک اپنی شکایتیں پہنچاتے ہیں کہ اُن کے خیال میں بن مانسوں کے بالائی طبقے تک میری رسائی ہے اور اکثر چمپنزی خواتین میری تحریریں پسند کرتی ہیں ۔مگر میں انہیں کیسے بتاؤں کہ یہ محض اُن کی خوش فہمی ہے ۔ اپنی تمام تر خوش اخلاقی اور ادب دوستی کے باوجودہم ان کی نظر میں انسان ہی ہیں۔اور مجھے یہ حقیقت تسلیم کرنے میں کوئی عار نہیں ۔میں باقی ہومو سیپئن برادری کوبھی یہی مشورہ دیتا ہوں کہ وہ حالات سے سمجھوتہ کر لیں ۔ مگر کچھ عرصے سے میں محسوس کر رہا ہوں کہ میری اِس اپیل کا خاطر خواہ اثر نہیں ہو رہا اور انسانوں میں غم و غصہ بڑھ رہا ہے ۔شاید یہ بات چمپنزیوں نے بھی محسوس کی ہے ۔ اسی لیے گزشتہ چنددنوں میں مجھے کچھ تقریبات کے دعوت نامے موصول ہوئے جو اِس سے پہلے صرف بن مانسوں کو ہی ارسال کیے جاتے تھے ۔میں نے وہ دعوت نامے پھاڑ کر پھینک دیے ، مجھے اِس قسم کی تقریبات سے وحشت ہوتی ہے ، میں ایک تنہائی پسند انسان ہوں اور اکثر اپنے گھرمیں ہی بند رہتا ہوں۔میرا گھر چونکہ شہر کے مضافات میں ہے اِسلئے مجھے شہر جانے میں خاصا وقت لگتا ہے۔ویسے بھی شہر کے مہنگے علاقے ہم انسانوں کی قوت خرید سے باہر ہیں ۔

کمیٹی کے نو منتخب سربراہ نے کمیٹی کے ذمے یہ کام لگایا ہے کہ وہ ہوموسیپئنز کے حقوق کے حوالے سے سفارشات مرتب کرکے انہیں پیش کریں ۔ اِس کام کی ذمہ داری انہوں نے چند ترقی پسند بن مانسوں کو سونپی ہے ۔یہ ایک مشکل کام ہے تاہم نہ جانے کیوں میری برادری نےاِس حوالے سے کچھ امیدیں وابستہ کر لی ہیں۔ حالانکہ یہ پہلا موقع نہیں ہے۔ ماضی کا تجربہ بتاتا ہے کہ اِس قسم کی سفارشات آخر میں بالعموم کاغذی کارروائیوں تک ہی محدود رہتی ہیں۔کچھ دوستوں نے مجھے مشورہ دیا ہے کہ میں کمیٹی کے سامنے پیش ہو کر اُن تمام معاملات پر اپنا موقف دوں جو ہم انسانوں کے بنیادی حقوق سے متعلق ہیں ۔ یوں لگتا ہے جیسے انہیں ترقی پسند بن مانسوں پر کچھ زیادہ ہی اعتماد ہے ۔ اپنی برادری کے اصرار پر میں نے کمیٹی کے اگلے اجلاس میں شرکت کا فیصلہ کیا ہے ،گوکہ مجھے ایسی کوئی خوش فہمی نہیں کہ اِس سے حالات میں جوہری تبدیلی واقع ہوگی مگر اِس کے باوجود میں پوری نیک نیتی کے ساتھ کمیٹی کے سامنے اپنی گزارشات پیش کروں گا۔

مجھے خدشہ ہے کہ آپ لوگ میری اِن معروضات کو سمجھ نہیں پائیں گے اوریہ بھی ممکن ہے کہ کچھ لوگوں کومیری یہ سب باتیں بالکل بے معنی لگیں۔ یقین جانیے مجھے اِس پر کوئی حیرانی نہیں ہوگی ،بن مانسوں کے ساتھ جنگل میں رہتے ہوئے یوں بھی ہماری زندگی بے معنی ہی ہوگئی ہے ۔ہمارا تو کوئی مطالبہ بھی نہیں ہے ، بس خواہش ہے ، چھوٹی سی خواہش ، کہ درختوں پر جھولتے ہوئے ہمیں کوئی خوف محسوس نہ ہو، اپنی مرضی سے بازو پھیلاتے ہوئے جب ہم شاخوں کو پکڑ یں تو یہ اندیشہ نہ ہو کہ کوئی انسان آ کر ہمیں دبوچ لے گا اور پنجرے میں بند کر دے گا۔ہمیں یہ محسوس نہ ہو کہ ہم اپنے ہی جنگل میں بے گھر ہو گئے ہیں۔ہمارا کوئی اور نصب العین نہیں ، کوئی منشور نہیں اور کوئی عظیم مقصد نہیں ۔ہمیں تو اپنے زخموں کو کھرچنے سے ہی فرصت نہیں ۔ میں اعتراف کرتا ہوں کہ میری یہ گزارشات کمیٹی کے بعض معزز اراکین کو بے ربط اورلغو لگیں گی اور شاید ایسا ہی ہوکیونکہ کمیٹی کے ارکان کبھی غلط نہیں سوچتے ۔اُن کے پیش نظر ہمیشہ کمیٹی کا وسیع تر مفاد ہوتا ہے ۔ میں نہایت ادب سے اُن سے درخواست کروں گاکہ اِن معروضات کو ایک بے حیثیت اور بے وقعت انسان کی رائے سمجھ کرنظر انداز کردیں ۔ اپنی برادری کے دباؤ میں آکر اگر میں نے کوئی گستاخی کی ہو تو اسے بھی معاف کردیا جائے ۔ ہم انسانوں کو بن مانسوں سے اختلاف کرنےکا کوئی حق ہے اور نہ ہی جرأت !

نوٹ : فرانز کافکا کے افسانے ’A report to an Academy‘ سے متاثر ہوکر لکھی گئی ایک تحریر۔

تازہ ترین