• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میں ٹوکیو کےایک فائیو اسٹار ہوٹل میں داخل ہورہا تھا ،میری ٹانگیں کپکپا رہی تھیں ،آواز میں لڑکھڑاہٹ تھی کیونکہ جس شخصیت سے اب سے کچھ دیر بعد میری ملاقات ہونے والی تھی وہ کوئی عام شخصیت نہیں بلکہ خانہ کعبہ کے امام تھے جو جاپان کے دورے پر آئے ہوئے تھے اور مجھے اپنے ادارے جیو نیوز اور روزنامہ جنگ کے لیے ان کا انٹرویو لینے کی سعادت حاصل ہونے والی تھی ،بلاشبہ کسی بھی مسلمان کے لیے امام کعبہ سے ملاقات بہت بڑی سعادت ہے ،اسلام اور پاکستان سے دوستی کے حوالے سے ان کا انٹرویو ہمیشہ ہی یادوں کا حصہ رہے گا ، انٹرویو کے بعد میں نے اپنے تین سالہ صاحبزادے کو امام کعبہ سے ملوایا اور انھیں بتایا کہ میری اہلیہ جاپانی ہیں اور مسلمان ہوئی ہیں اور دین اسلام کا مطالعہ بھی کررہی ہیں جس پر امام کعبہ نے نہ صرف ہمیں دعائوں سے نوازا بلکہ حج بیت اللہ کی دعوت بھی دی جو کچھ ذاتی وجوہات کی بناپر ادا نہ ہوسکا ۔ چند برس قبل پیش آئے اس واقعے اور امام کعبہ کی دعائوں کا اثر آج تک میری اور میرے اہلِ خانہ کی زندگی میں شامل ہے، بہرحال حقیقت یہ ہے کہ بطور پاکستانی جب بھی ہم سعودی عرب کا نام سنتے ہیں تو ہمارے ذہنوں میں ایک بڑے بھائی ، قابلِ فخر دوست ،مشکل وقت میں دوستی نبھانے والے ملک کا خاکہ سا آتا ہے ۔ ہر حکومتی قیادت اس بات پر فخر محسوس کرتی ہے کہ اس کا پہلا دورہ سعودی عرب کا ہو اور سلام ہو سعودی حکومت پر جو نہ صرف ہماری ہر حکومت کو ایک بڑے بھائی کی طرح خوش آمدید کہتی ہے بلکہ انھیں پاکستان کی معاشی مشکلات کے خاتمے کیلئے بھاری مالی امداد بھی فراہم کرتی ہے ۔ ہمیشہ کی طرح اس وقت بھی پاکستان کے ساتھ سعودی عرب کے تعلقات شاہ سلمان اور ولی عہد محمد بن سلمان کی قیادت میں تاریخ کی بلندیوں کو چھو رہے ہیں ، ہمیشہ کی طرح اس وقت بھی پاکستان معاشی بحران کا شکار ہے اور وزیر اعظم شہباز شریف بھی حکومت سنبھالنے کے فوراََ بعد سعودی عرب پہنچے ،سعودی ولی عہد محمد بن سلمان سے ملاقات کی ،جس کے بعد ایک بار پھر سعودی عرب پاکستان کی معاشی مدد کیلئے تیاری کررہا ہے ، امید ہے آئی ایم ایف سے معاہدے کے ساتھ ہی پاکستان کو سعودی عرب سے بھی بڑی امداد مل جائے گی۔

بطور پاکستانی شہری ہمیں تو اب شرم سی آنے لگی ہے کہ کب تک ہم اپنے ہر مشکل وقت میں سعودی عرب کی طرف دیکھتے رہیں گے اور کب تک سعودی عرب ہماری مدد کرتا رہے گا ؟اب وقت آگیا ہے کہ پاکستان اپنا کشکول توڑپھینکے اور محنت اورمنصوبہ بندی کے ذریعے اپنے معاشی مسائل پر خود قابو پائے ،لیکن بطور پاکستانی شہری ہم سعودی حکومت کے بھی شکر گزار ہیں جس نے ہر مشکل وقت میں پاکستان کا ساتھ دے کر ایک مہربان اور بڑے بھائی جیسا رویہ اپنایا، دوسری جانب پاکستان نے بھی سعودی عرب کی سلامتی کے لیے تن ،من ،دھن کی بازی لگانے کا فیصلہ کررکھا ہے ،خصوصاََ خانہ کعبہ اور مسجد نبوی ﷺ کی حفاظت کے لیے نہ صرف پاک فوج بلکہ پاکستان کا بچہ بچہ اپنی جان دینے پر فخر محسوس کرے گا ۔بلاشبہ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان اعلیٰ نوعیت کے دفاعی تعلقات قائم ہیں اور پاکستان کے سابقہ آرمی چیف جنرل ر احیل شریف اسلامی اتحادی فوج کے سربراہ بھی ہیں، جہاں تک معیشت کی بات ہے تو یہ سعودی عرب ہی ہے جس نے تقریباََ بیس لاکھ پاکستانیوں کو اپنی سرزمین پر ملازمت فراہم کی ہے جہاں سے یہ پاکستانی سالانہ ساڑھے چار ارب ڈالر کا قیمتی زرمبادلہ پاکستان بھیجتے ہیں ،اس وقت پاکستان میں سعودی عرب کے سفیر نواف بن سعید احمد المالکی اپنی بہترین سفارتکاری سے پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان سفارتی گرمجوشی میں مزید اضافے کے لیے بہترین کردار ادا کررہے ہیں اور ان کے میڈیا ڈائریکٹر فواز عبداللہ العثیمین میڈیا کے ذریعے پاک سعودی تعلقات کو پروان چڑھانے میں اپنا بہترین کردار ادا کررہے ہیں جس سے دونوں ممالک کے عوام بھی ایک دوسرے کے مزید قریب آرہے ہیں، یقین ہے ہرگزرتے وقت کے ساتھ دونوں ممالک کے عوامی اور حکومتی تعلقات مضبوط سے مضبوط تر ہوتے جائیں گے ۔

تازہ ترین