• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سوشل پالیسی اور ڈویلپمنٹ سینٹر نے ملک کی معاشی بحالی کیلئے ایک ورکنگ پیپر مجھ سمیت مختلف معاشی ماہرین کو بحث کیلئے بھیجا ہے۔ پاکستان نے پچھلے دو دہائیوں میں کئی معاشی ریفارمز کے پروگرام تشکیل دیئے لیکن ان میں سے زیادہ تر طویل المیعاد بنیاد پر کامیاب نہ ہوسکے۔ موجودہ حکومت نے بھی آئی ایم ایف سے قرضے لیتے وقت معاشی ریفارمز لانے کا معاہدہ کیا ہے۔ میں نے سوچا کہ اس اہم پیپر کو اپنے قارئین سے شیئر کرکے ان کی آراء بذریعہ ای میل معلوم کروں۔ انسٹی ٹیوٹ کی منیجنگ ڈائریکٹر اور میری دوست پروفیسر ڈاکٹر خالدہ غوث کے ساتھ ان پیپر کی تیاری میں ڈاکٹر قیصر بنگالی نے ان کی مدد کی ہے جس میں حکومت سے سفارش کی گئی ہے کہ وہ بجٹ کے 8% مالی خسارے میں کمی لائے، ڈالر اور روپے کے فرق کو کم کرے، سیلزٹیکس 17% سے کم کرکے 5% کرے اور ملکی و غیر ملکی سرمایہ کاری سے صنعتی ترقی کو فروغ دے۔ انہوں نے حکومت کے Direct ٹیکسز کے بجائے Indirect کے انحصار کو غلط قرار دیتے ہوئے زراعت، تجارت اور خدمات کے شعبوں پر ٹیکس عائد کرنے کی سفارش کی۔ انہوں نے نئے ٹیکس دہندگان کو ٹیکس نیٹ میں لانے کے بجائے موجودہ صنعتوں پر ٹیکسزلگانے کو ملک میں صنعتی فروغ کے منافی بتایا جبکہ بینکوں سے لئے گئے بڑھتے ہوئے حکومتی قرضوں اور نوٹ چھاپنے کو افراط زر میں اضافے سے منسوب کیا۔
ملک کی معاشی بحالی کیلئے گفتگو کرتے وقت ہمارے لئے یہ جاننا ضروری ہے کہ ملک کا موجودہ معاشی بحران روپے گیپ اور ڈالر گیپ کی وجہ سے ہے لہٰذا ہمیں روپے گیپ کو کم کرنے کیلئے Direct ٹیکسز کے ذریعے اپنے ریونیو کی وصولی کو بڑھانا ہوگا۔ پاکستان کی آبادی 18کروڑ سے زائد ہے لیکن یہاں صرف ڈھائی لاکھ افراد ٹیکس دیتے ہیں جبکہ معیشت میں 50% حصہ رکھنے والے شعبے زراعت سے ٹیکسوں کی ادائیگی نہ ہونے کے برابر ہے۔ معاشی بحران پر قابو پانے کیلئے حکومت کو غیر ترقیاتی اخراجات میں کمی اور مقامی بینکوں سے اضافی قرضے لینے کے رجحان کو کم کرنا ہوگا جبکہ ڈالر گیپ کیلئے تیل اور ڈیزل کی امپورٹ میں کمی لانا ہوگی جس کیلئے ہمیں فرنس آئل سے چلنے والے بجلی گھروں کی کوئلے پر منتقلی، قدرتی گیس کا موثر و ترجیحی استعمال اور صنعتوں کو گیس کی بلاتعطل سپلائی کو یقینی بنانا ہوگا تاکہ ملکی ایکسپورٹس بڑھے اور ملکی زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہوسکے۔ اس وقت ملکی زرمبادلہ کے مجموعی ذخائر 10.4 بلین ڈالر ہیں جس میں اسٹیٹ بینک کے 5.4 بلین ڈالر اور باقی کمرشل بینکوں کے کھاتے داروں کے ڈالر ڈپازٹس ہیں۔ اسٹیٹ بینک کے موجودہ ذخائر سے ہم صرف6 ہفتے کے امپورٹ بل کی ادائیگی کرسکتے ہیں جبکہ اسے کم از کم 3 ماہ کے امپورٹ بل کے برابر ہونا چاہئے۔ اسٹیٹ بینک کے مطابق عازمین حج کو حج اخراجات کے لئے فی کس 2 ہزار ڈالر کے حساب سے تقریباً 600 ملین ڈالر فراہم کئے گئے ہیں جس کی وجہ سے بھی مارکیٹ میں ڈالر کی طلب میں اضافہ ہوا ہے۔زرمبادلہ کے ذخائر میں 4 ذرائع سے اضافہ کیا جاسکتا ہے۔ پہلا ذریعہ ملکی ایکسپورٹس ہے جو 24 سے 25 بلین ڈالر سے زیادہ نہیں بڑھ رہی۔ بینکوں کے شرح سود میں کمی، بجلی اور گیس کی بلاتعطل فراہمی اور ملک میں امن و امان کی بہتر صورتحال سے ہم اپنی ایکسپورٹس بڑھاسکتے ہیں۔ 1990ء تک ملک میں بجلی کی صنعتی کھپت گھریلو کھپت سے زیادہ تھی مگر اب گزشتہ دو دہائیوں سے صورتحال اس کے برعکس ہے جو کہ ہماری معاشی ترقی کے مفاد میں نہیں۔ زرمبادلہ کے ذخائر کو بڑھانے کا دوسرا ذریعہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے بھیجی جانے والی ترسیلات زر ہے جو ریکارڈ 14 بلین ڈالر تک پہنچ چکی ہے۔ زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافے کا تیسرا بڑا ذریعہ بیرونی سرمایہ کاری (FDI) ہے جو بجلی، گیس کے بحران اور امن و امان کی ناقص صورتحال کے باعث تقریباً ختم ہو چکی ہے لہٰذا زرمبادلہ کے ذخائر کو سپورٹ دینے کیلئے چوتھا ذریعہ بین الاقوامی مالیاتی اداروں سے قرضے لینا ہی رہ جاتا ہے۔روپے کی گرتی ہوئی قدر کے حوالے سے گزشتہ دنوں محمد علی جناح یونیورسٹی میں ایک پینل ڈسکشن کا انعقاد کیا گیا جس میں میرے ساتھ ایم بی اے کے طلباء کے علاوہ بورڈ آف انویسٹمنٹ کے زبیر احمد، سینیٹر عبدالحسیب خان، فاریکس ایسوسی ایشن کے چیئرمین بوستان علی ہوتی اور یونیورسٹی کے ڈین ڈاکٹر عبدالوہاب نے حصہ لیا۔ اس ٹی وی ٹاک شو میں، میں نے شرکاء کو بتایا کہ سابق وزیراعظم شوکت عزیز کے دور میں حکومت پاکستانی روپے کی قدر محدود رکھنے اور مارکیٹ میں ڈالر کی طلب و رسد میں توازن رکھنے کیلئے مختلف اقدامات کرتی تھی جبکہ ڈالر کی قدر میں اضافے کے خطرے کے پیش نظر اسٹیٹ بینک فرنس آئل کی امپورٹ کی ادائیگی خود کرتا تھا جس سے مارکیٹ میں ڈالر کی طلب میں یکدم اضافہ نہیں ہوتا تھا،اس طرح اس دور میں ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر 62 روپے تک رہی لیکن بعد میں آئی ایم ایف سے قرضے لیتے وقت معاہدے میں روپے کی قدر آزاد یعنی ’’فری فلوٹ‘‘ رکھنے اور فرنس آئل امپورٹ بلز کی ادائیگی اسٹیٹ بینک کے بجائے کمرشل بینکوں کے ذریعے کرنے کی شرط رکھی گئی جس کے باعث مارکیٹ میں ڈالر کی طلب یکدم اضافہ ہوجاتا تھا لیکن معاہدے کی رو سے اسٹیٹ بینک روپے کی قدر برقرار رکھنے کیلئے مارکیٹ میں مداخلت کرنے سے قاصر تھا جس کے نتیجے میں گزشتہ دور حکومت میں پاکستانی روپے کی قدر 5% سالانہ کم ہوکر 99 روپے تک پہنچ گئی تھی تاہم موجودہ دور حکومت میں روپے کی قدر میں کمی کی وجہ فرنس آئل اور سونے کی امپورٹ میں اضافہ اور 3 ماہ میں بیرونی قرضوں کی ادائیگی تھی جس کے باعث ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر ریکارڈ 5.5% کم ہوکر 108 روپے کی سطح تک پہنچ چکی تھی تاہم اسٹیٹ بینک کی مداخلت سے اب روپے 106 کی سطح پر دوبارہ آگیا ہے لیکن سال کے اختتام تک روپے کی قدر میں مزید کمی متوقع ہے۔ اسی دورانیے میں بھارتی روپے کی قدر بھی ڈالر کے مقابلے میں 8% کم ہوئی تھی جس کے نتیجے میں بھارتی روپے 68.85 روپے کی سطح تک پہنچ گیا تھا اور امکان تھا کہ یہ 70 روپے کی سطح تک پہنچ جائے گا تاہم انڈین سینٹرل بینک کے فوری اقدامات کی وجہ سے بھارتی روپے 64 روپے کی سطح پر آچکا ہے۔ اس دوران بنگلہ دیشی ٹکے کی قدر میں بھی 4% کمی ہوئی تھی جو ڈالر کے مقابلے میں 81.5 ٹکے کی سطح تک پہنچ گیا تھا تاہم اب یہ دوبارہ مضبوط ہوکر 77.68 ٹکا کی سطح پر پہنچ گیا ہے جو بنگلہ دیش میں زرمبادلہ کے مستحکم ذخائر کی نشاندہی کرتا ہے۔میں نے شرکاء کو بتایا کہ پاکستان اور بھارت میں روپے کی قدر میں کمی کی ایک وجہ سونے کی امپورٹ میں خاطر خواہ اضافہ ہے۔ بھارت نے سونے کی امپورٹ کم کرنے کیلئے اس پر 15%کسٹم ڈیوٹی عائد کر رکھی ہے لیکن اس کے برعکس پاکستان میں سونے کی قیمت میں اضافے کے خدشے کے پیش نظر اس کی امپورٹ پر کوئی اضافی کسٹم ڈیوٹی عائد نہیں جس کے باعث ملک میں سونے کی امپورٹ 200 کلوگرام سے بڑھ کر 1400 کلوگرام تک جاپہنچی ہے اور اس سونے کو پاکستانی درآمد کنندگان بغیر کسٹم ڈیوٹی امپورٹ کرکے بھارت اسمگل کررہے ہیں۔ فاریکس ایسوسی ایشن کے صدر سے یہ سوال پوچھنے پر کہ کیا مستقبل قریب میں پاکستانی روپے کی قدر مضبوط ہوگی؟ انہوں نے بتایا کہ حکومت آئی ایم ایف، ایشین ڈویلپمنٹ بینک، ورلڈ بینک اور اسلامک ڈویلپمنٹ بینک سے مجموعی طور پر 12بلین ڈالر کے قرضے لے رہی ہے جس کے بعد ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر مستحکم ہوں گے کیونکہ بدقسمتی سے ہمیں ابھی تک امریکہ سے کولیشن سپورٹ فنڈ کے 600 ملین ڈالر، پی ٹی سی ایل کی نجکاری کے بقایا جات کی مد میں 800 ملین ڈالر اور تھری جی لائسنس کی نیلامی سے تقریباً ایک بلین ڈالر کے متوقع فنڈز نہیں ملے ہیں،اس وقت اگر ہم ایک ڈالر ایکسپورٹ سے کماتے ہیں تو 1.88 ڈالر امپورٹ پر خرچ کردیتے ہیں جس کے باعث ہمارا تجارتی خسارہ بڑھ جاتا ہے جسے پورا کرنے کیلئے ہمیں قرضے لینے پڑتے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ چند مہینوں کے دوران امریکہ اور یورپ کی معیشت بہتر ہونا شروع ہوئی ہے جس سے ان ممالک میں تیل کی کھپت میں اضافہ ہوگا اور عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتیں بڑھیں گی جو پاکستان سمیت آئل امپورٹ کرنے والے دیگر ممالک کیلئے مزید مشکلات کا سبب بنے گا لیکن ان مشکلات پر قابو پانے کیلئے ہمیں فوری اقدامات کرنے ہوں گے۔
تازہ ترین