• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یاسین ملک مقبوضہ جموں و کشمیر کی حریت پسندی کی تاریخ کے درخشاں ستارے کا نام ہے۔ یاسین ملک کشمیر لبریشن فرنٹ کے سربراہ ہیں۔ جو جدوجہد آزادی کے جرم میں گزشتہ کئی سال سے نئی دلی کی تہاڑ جیل میں پابند سلاسل ہیں۔ اس بدنام زمانہ جیل میں مقبوضہ کشمیر کے کئی دیگر آزادی کے متوالے رہنما بھی جبری قید و بند کی صعوبتیں جھیل رہے ہیں۔ 56سالہ یاسین ملک نے اپنی جوانی کشمیریوں کی آزادی پر تو قربان کر ہی دی ہے۔ ان پر جیل میں بے پناہ تشدد کیا جارہا ہے۔ بھارت نے کشمیریوں کی زندگی اجیرن اور ان پر ظلم کے پہاڑ توڑنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی لیکن جیلوں میں بے گناہ قید ان کے رہنمائوں کے ساتھ نازی قیدیوں سے بھی بدتر سلوک کیا جارہا ہے۔ بھارت کو جب یاسین ملک اور ان کے چھ دیگر ساتھیوں کے خلاف تمام تر تشدد اور بہیمانہ سلوک کے بعد کچھ نہ ملا تو مقبوضہ کشمیر کے اس حریت پسند رہنما اور معروف سیاستدان کو دہشت گرد قرار دے دیا گیا اور ان کو پھنسانے اور سزا دینے کے لیے ایک 30سالہ پرانا کیس ان پر ڈالا گیا۔ اور کہا گیا کہ 1990 میں بھارتی فضائیہ کے چار اہلکاروں کو ہلاک کرنے میں یاسین ملک اور انکے دیگر چھ ساتھی ملوث تھے۔ واضح رہے کہ یاسین ملک کی تنظیم جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ پر بھارتی حکومت نے 2019سے پابندی عائد کر رکھی ہے۔ بھارت نے یاسین ملک پر دہشت گردی کے لیے فنڈنگ کا نہایت مضحکہ خیز الزام بھی عائد کیا ہے۔ ان کا اصل جرم بھارتی تسلط، مقبوضہ کشمیر پر بھارتی غاصبانہ قبضے اور کشمیریوں پر بھارتی جبر و تشدد کے خلاف آواز بلند کرنا ہے اور جب قید و بند اور ظلم و تشدد کے باوجود بھارت یاسین ملک کی آواز کو نہ دبا سکا تو اب ایسے من گھڑت اور جھوٹے الزامات سے اس آواز کو خاموش کرانا چاہتا ہے۔گزشتہ دنوں بھارتی نام نہاد عدالت نے یاسین ملک اور ان کے دیگر چھ ساتھیوں پر فرد جرم عائد کر دی۔ جموں کی اس نازی عدالت نے یاسین ملک کی جائیدادوں اور اثاثہ جات کی تفصیلات بھی طلب کی ہیں۔ گزشتہ سماعت پر فرد جرم عائد کرنے کے بعد عدالت نے 25مئی کو دوبارہ سماعت کے لیے تاریخ مقرر کی ہے اور واضح امکان ہے کہ اس تاریخ کو یاسین ملک اور ان کے دیگر چھ ساتھیوں کو سزائیں سنائی جائیں گی۔ یاسین ملک شدید علیل اور نہایت کمزور ہوچکے ہیں لیکن بھارت میں نہ تو انسانی حقوق کے لیے کوئی تنظیم ہے جو کشمیریوں اور بھارتی مسلمانوں کے خلاف بھارتی جبر و تشدد اور انسانی حقوق کی بدترین پامالی پر آواز اٹھائے۔ نہ ہی کوئی ایسا با ضمیر ہے جو یاسین ملک پر بھارت کے جھوٹے الزامات اور اب بھارت کی طرف سے غیر قانونی اور من پسند سزائوں کو روکنے کے لیے میدان میں آئے۔ صد افسوس کہ عالمی برادری اور انسانی حقوق کی نام نہادعالمی تنظیموں کے کانوں پربھی جوں تک نہیں رینگی۔ گزشتہ 75سال سے کشمیری اور بھارتی مسلمان بھارتی مذہبی تعصب کا شکار ہیں۔ کشمیر کے بارے میں اقوام متحدہ کی قراردادوں کی فائلیں وہاں کہیں یاد ماضی کے طور پر کسی کونے میں پڑی ہیں۔ اب یاسین ملک اور ان کے چھ ساتھیوں کی زندگیاں دائو پر لگی ہیں۔ پاکستان کی مذہبی اور سیاسی جماعتوں سے میری اپیل ہے کہ فوری طور پر یاسین ملک اور انکے ساتھیوں کی زندگیاں بچانے کے لیے باہر آئیں اور دنیا کو جگائیں۔ سابقہ عمران حکومت کے کشمیر کے سفیر بننے کا دعویٰ بھی ان کے دیگر دعوئوں اور وعدوں کی طرح وفا نہ ہوسکا۔ لیکن اب موجودہ حکومت کو چاہئے کہ اس بارے میں اپناکردار فوری ادا کرے۔ وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری کو یاد ہونا چاہئے کہ ان کے نانا ذوالفقار علی بھٹو نے کشمیر کے لیے ایک ہزار سال تک لڑنے کا اعلان کرکے کشمیریوں کے حوصلے کو تقویت دی تھی۔ اب فوری اقدامات اور کوششوں کی ضرورت ہے۔سابق وزیراعظم اور پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان نے اسلام آباد کی طرف مارچ کرنے کی تاریخ 25مئی مقرر کی ہے۔ کیاہی اچھا ہوتا کہ وہ اس مارچ کے بجائے یاسین ملک کے حق میں اس دن احتجاج کرتے لیکن افسوس کہ انہوں نے ایسا نہیں کیا اور بقول ان کے آزادی مارچ کا اعلان کردیا۔ یہ کسی کو سمجھ نہیں آرہی کہ وہ کس سے آزادی مانگتے ہیں، اور اس عجیب و غریب آزادی کا جذبہ و خیال ان کی حکومت ختم ہونے کے دوسرے دن کیسے جاگا، جبکہ چار سال وہ اس ملک کے صدر کے فون کال کا روز و شب نہ صرف انتظار کرتے رہے بلکہ اسکے لیے کوشش بھی کی۔ اگر وہ امریکہ کے ساتھ تعلقات نہیں رکھنا چاہتے تھے تو نہ رکھتے اس میں غلامی کیسی۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ اپنے چار سالہ دور اقتدار میں پاکستان کو معاشی طور پر مضبوط کرتے تو وہ عوام کے پسندیدہ رہنما ہوتے اس کے بجائے ان کی حکومت میں مہنگائی عروج پر پہنچی۔ لوگوں کو بے روزگار کیا گیا۔ اقتدار سے محرومی کے بعد آزادی کا ایک عجیب شور و غلغلہ اُٹھایا جس میں کبھی عدلیہ کو کبھی دفاعی اداروں کو نشانہ بنایا گیا اور وہی کنٹینر والے الزامات جو چار سال میں ثابت نہ ہوئے پھر دہرائے۔ اگر وہ بقول ان کے امریکی غلامی سے قوم کو نجات دلانا چاہتے ہیں تو کیا امریکہ لکھ کر دے گا کہ ہم نے پاکستان کو غلام بنایا تھا اور اب ہم نے اس کو آزاد کر دیا۔ یہ کیسی طفلانہ باتیں ہیں۔

بہر حال مجوزہ لانگ مارچ اور دھرنا ان کی باقی ماندہ سیاست کے لیے نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے۔ دوسری طرف اس سیاسی انتشار پھیلانے کا مقصد سول نافرمانی کے سابق اعلان کے مترادف تصور کیا جاسکتا ہے کیونکہ اس سے معاشی و معاشرتی نقصان بہرحال ملک و قوم کا ہوگا جو پہلے ہی نازک صورت حال سے دوچار ہے۔ ذرائع کے مطابق نہ کوئی بیک ڈور اور نہ ہی فرنٹ ڈور بات چیت میں کوئی صداقت ہے نہ ہی قبل از وقت الیکشن پر بات ہوئی ہے۔ گزشتہ روز پشاور میں عمران خان کی پریس کانفرنس میں فون کال بھی بس ایسی ہی تھی۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین