• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

چند گھنٹوں کی تقریب نے 15 روز سولی پر لٹکائے رکھا

فلسطینی سفیر، ابو شینب اور مصری سفارت خانے میںپاکستانی رابطہ آفیسر، سعیدہ عنایت کے ساتھ
فلسطینی سفیر، ابو شینب اور مصری سفارت خانے میںپاکستانی رابطہ آفیسر، سعیدہ عنایت کے ساتھ 

بخدا !جو مرضی قسم اُٹھوا لیں مَیں نے ہرگز ایسا نہیں چاہا تھا کہ میری کتاب’’مصر ،میرا خواب‘‘ کی رُونمائی سنگینوں کے سائے اور پہرے داروں کے جلو میں ہو۔ پربُرے نصیب میرے ایسا ہی ہوا۔ ایک تو یہ میری نٹ کھٹ سہیلیاں، جنہیں گھر سے نکلنے اور محفل آرائی کے سو، سو بہانے چاہیے ہوتے ہیں۔طعنے دے دے کر نتھنوں میں دَم کر دیاتھا کہ’’تھوڑی سی جیب ڈھیلی کر لے،ہوا لگوا لے پیسوں کو۔ نہیں تو کُھل کربتا دے،ہم سار ی مِل ملا کر اپنے زکوٰۃ فنڈ سے کچھ مدد کردیتی ہیں۔‘‘

اب جب ہر روز ایسے طعن وتشنیع سے کلیجے میں چھید ہوتے جائیں تو بندے میں چُستی آہی جاتی ہے۔ پس ،تو جب اِس کام کے لیے طبیعت آمادہ ہوئی،تو یونہی اس خیال نے ٹہوکا دیا کہ ’’اب جب اِس پراگے میں پڑنے ہی لگی ہو، تو حرج ہی کیا ہے کہ تم، جو خود کو مصر کے ساتھ صدیوں پرانے دینی اور تہذیبی ناتوں میں جُڑا سمجھتی ہو،اِس کی بھید بھری زمین ہمیشہ تمہیں ہانٹ کرتی رہی ہے۔اُسے دیکھنا اور اس پر لکھنا تمہارا ایک خواب تھا۔ اب جب یہ کام کر ہی بیٹھی ہو، تو گھر والوں کو بھی بتادو کہ مَیں نے تیر مارلیا ہے۔ہاں، اس کے ساتھ تھوڑا سا شان وشوکت کا تڑکا بھی لگ جائے گا، تو تیری بلّے بلّے بھی ہو جائے گی۔‘‘ 

پس، مصر کے سفیر کو چِٹّھی لکھ بھیجی کہ’’ عزت مآب! آپ اپنے قیمتی وقت میں سے چند لمحے نکال کر لاہور تشریف لائیں۔ لاہور جیسے تاریخی شہر کے اہلِ قلم آپ کو خوش آمدید کہنے کو بے تاب وبے قرار ہیں۔‘‘ پر نہیں جی، یہ ہم ہی ماڑے موٹے لوگ ہیں،جو جی دار ہیں ۔ بلندو بالا،محفوظ دیواروں میں رہنے والے اہلِ اقتدار کو اپنی جانیں بڑی پیار ی ہوتی ہیں۔تو بس، سندیسے کا جواب کچھ یوں ملا کہ ’’محترمہ! آپ کی کتاب پڑھوائی گئی اور سُننے میں آیا کہ آپ نے ہمارے مُلک کی اچھی نمایندگی کی ہے،جس پرہم آپ کےممنون ہیں اور چاہتے ہیں کہ مصری سفارت خانہ اُس کا میزبان بنے۔ تاریخ کا فیصلہ کر دیجیےاور پچاس افراد کی لِسٹ بھی بھیج دیجیے۔‘‘

یہ پڑھ کر ہمارے تو ہاتھ پاؤں پُھول گئےکہ پچاس افرادکہاں کے اور کون کون ہوں۔ اگر لاہور سے بلائے تو ڈبل ڈیکر بس کا بھی انتظام کرنا پڑے گا،پھر بس کا خرچہ ،اُوپر سے اُن کے ٹھہرنے کا انتظام وغیرہ وغیرہ ۔یہ تو اپنے آپ کو سیاپے میں ڈالنے والی بات تھی۔ ایسا کوئی کام تو ہرگز نہیں کرنا، جس سے مَیں کسی مسئلے میں پڑوں۔ میرے لیےپچھلے وختے (مصائب) ہی بہتیرے ہیں۔ اب اسلام آباد کا سوچا۔ فون نمبر ،پتا اور ہاں چیف گیسٹ کون ہو گا؟کوئی وزیر ہو تو پھر کوریج بھی ہو جائے گی۔

مصری سفیر، عامر مگدی کے ساتھ
مصری سفیر، عامر مگدی کے ساتھ

تو یہی سب سوچ کرشعیب بن عزیز کو فون کھڑکایا، تو اُنہوںنے تسلّی دی کہ ’’چلو کچھ سوچتے ہیں۔‘‘فخر زمان سے رابطہ کیاتوانہوں نے کہا۔’’اس میں اتنا گھبرانے والی کون سی بات ہے۔اکیڈمی والوں کو کہہ دیتا ہوں۔ البتہ میری شمولیت مشکل ہےکہ مَیں یورپ جا رہا ہوں۔ مگر جی ایم، اکیڈمی آف لیٹرز خالد اقبال یاسر آپ کی مدد کریں گے۔‘‘

خالد اقبال نےمہمانوں کی فہرست اور پروگرام ترتیب دینے میں بےحد مدد کی۔ اب یہ مسئلہ کہ مصریوں کا کتاب کی رُونمائی کا طریقۂ کار کیا ہوتاہے؟ اللہ، اگرمجھے اِس شُدنی کا پتا ہوتا تو قاہرہ کے ادباء کھوج کران سے پُوچھتی کہ ’’بھئی!آپ کے ہاں بُک لانچنگ کا طریقِ کار کیا ہے؟ ‘‘ خیر، اب کیا ہوسکتا تھا،قاہرہ جانے سے تو رہی۔ ابھی نام زیرِ غور ہی تھے کہ مصری سفارت خانے سے فو ن آگیا۔ ایک تیکھی آواز نے کہا۔ ’’آپ اتنی دیر کیوں کر رہی ہیں؟ ایمبیسی اپنے قومی دن پر اِس تقریب کا انعقاد چاہتی ہے۔‘‘بس جی یہ سُن کر فی الفور ناموں کا انتخاب کیا۔ 

امجد اسلام امجد سے میرا عقیدتوں اور محبّتوں کا رشتہ ہے اور بُشریٰ رحمان سے دوستی کا۔سو،دونوں سے عرض کی’’حضور !آپ لوگوں نے بندۂ ناچیز پر کچھ پڑھنا ہے۔ مَیں نے کوئی تیر تو نہیں مارا ہے، پراگر آپ اپنے مضمون میں مجھے تیرباز بنا دیں تو آپ کی نوازش ہوگی۔‘‘نیلم احمد بشیر تو خیر یار ِغار ہے۔ اُسے کیا کہنا سُننا تھا۔اُ س نے خو د ہی کہا۔’’مَیں نے تم پر ایک مضمون لکھا ہے۔ بس اُسی کے ٹوٹے نکالوں گی اور مہمانوں کوہنساؤں گی کہ سر تاپا تمہاری تو حرکات و سکنات ہی ہنسانے والی ہیں۔ ‘‘ فریدہ حفیظ سے پُرانی شناسائی تو تھی۔ پر مدّتوں سے کوئی رابطہ نہیں ہوا تھا اور ڈاکٹر کامران شاہد کو تو سِرے سے جانتی ہی نہیں تھی۔ نظامت کے لیے غضنفر ہاشمی کانام منتخب ہوا۔

سچّی بات ہے، بے چینی سی بے چینی تھی۔ ہم جیسے آزاد پنچھی سیدھے سادے لوگ سفارت خانوں کے آدابِ خسروانہ سے نا بلد، انتہائی مشکل میں پھنس گئے تھے۔اِدھر گیارہ بجتے، اُدھر سفارت خانے سے فون۔ رابطہ آفیسر، سعیدہ عنایت ہر روز کوئی نہ کوئی نیا پیغام گوش گزار کردیتیں۔’’ربّا میریا! مَیں تے سیاپے وِچ پے گئی آں۔‘‘’’پلیز ذرا واضح کیجیے کہ یہ جوپانچ نام آپ نے لکھے ہیں،یہ کیا کریں گے؟‘‘

’’بھئی ،یہ لوگ کتاب پر مضمون پڑھیں گے اور کیا کرنا ہے انہوں نے ۔‘‘ ’’ایک بندہ کتنا وقت لے گا؟‘‘اُس نے دوسراسوال داغ دیا۔ ’’کوئی پندرہ، بیس منٹ تو لے گا ہی۔‘‘’’فی مضمون نگار؟‘‘ فوراً سوال ہوا۔’’جی ہاں ۔‘‘ ’’اُن کے مضمون چھوٹے ہونے چاہئیں۔ تین چار منٹ سے زیادہ کا وقت نہیں ہونا چاہیے۔ ابھی مَیں سفیر صاحب سے میٹنگ کرکے آئی ہوں، ہمیں پتا چلا ہے کہ پاکستانی رائٹرز لمبے لمبے مضامین پڑھتے ہیں۔ اور ایک بار اسٹیج پر آ جائیں تو اُترنے کا نام نہیں لیتے۔ان کے بعد سفیر صاحب اور آپ کو بھی بولنا ہوگا۔‘‘ مَیں دل میں سوچ رہی کہ بی بی! مجھے تو بھاڑ میں ڈالو، مَیں بولوں نہ بولوں، خیر صلاّ۔ اب پریشانی یہ ہوئی کہ مضمون نگاروں کو کیسے اور کیوں کر کہوں کہ مضمون مختصر ہو ۔ 

خیر، دَبے دَبے الفاظ میں سب کےگوش گزار کیاکہ ’’باہر کے لوگ ہیں،ہماری طرف سے کوئی بھی ایسی بات نہ ہو کہ وہ ناپسندیدگی کے زُمرے میں آئے۔‘‘ایک دن فون آیا۔ ’’یہ جو آپ نے لسٹ بھیجی ہے،بڑی ادھور ی سی ہے۔ نہ تو نمبرز مکمل ہیں،نہ ایڈریس،نیز، اُن کے رینکس وغیرہ بھی درج نہیں ۔‘‘’’کیا مطلب؟ ‘‘مَیں نے گھبرا کر پوچھا۔ ’’ادباکے عُہدے درج ہونے چاہئیں ناں۔‘‘ ‘‘لڑکی نے فراٹے کی انگریزی بولتے ہوئے یوں کہا ،جیسے پاکستان میں نہ بیٹھی ہو، برطانیہ کے ہائی کمیشن آفس سے بول رہی ہو۔ میرے تو جیسے تن بدن میں آگ ہی لگ گئی۔’’ارے! وہ تو خود سب سے بڑے عُہدےدار ہیں۔ اُن کے لفظ عہد ہیں، جن میں وقت سانس لیتا ہے۔ اسٹیٹس اور رینکس اُن کے آگےپانی بھرتے ہیں۔ مجھے جو پذیرائی دی جا رہی ہے، تو یہ مجھے نہیں،کتاب اور حروف کو دی جا رہی ہے، سمجھاؤ انہیں۔ ہاں ،رہے فون نمبر ز وغیرہ، تو وہ مَیں درست کروا دیتی ہوں۔‘‘

ایک دن میاں نے کہا۔ ’’اپنی تقریر تو دِکھا ئیں۔‘‘میرے میاں کو ہر کام میں ٹانگ اَڑانے کا بہت شوق ہے، اسی لیے مَیں ہمیشہ کنّی کتراتی ہوں۔ پہلے تو بہتیرا ٹالنے کی کوشش کی ،پر جب بیٹے نے بھی کہا کہ’’ آخر دکھانے میں حرج ہی کیا ہے، ہو سکتا ہے آپ نے کچھ ایسے پوائنٹس لکھے ہوں،جو سفارتی لحاظ سے موزوں نہ ہوں ۔‘‘ تو پھر تو کوئی چارۂ کار نہ تھا، دکھانی ہی پڑی اور پھرجو وہ لیر لیر ہوئی اور جس جس انداز میں اُس کا حشر نشر ہوا، وہ ایک الگ ہی داستان ہے۔

مَیں تو بس رونکھی آواز میں کہتی رہ گئی کہ ’’آخر یہ بات کہنے میں حرج ہی کیا ہے کہ مجھے مصر کے ٹیکسی ڈرائیورز نے انڈینز کے مقابلے میں پاکستانی جان کر ترجیح دی۔ یہ تو اُن کا محبّت بھراا ظہاریہ تھا۔اِسے تو بیان کرناہی چاہیے۔‘‘ میاں بولے۔’’تم بےوقوف عورت ،جانتی ہو کہ اُ ن کے بھارت سے کیسے تعلقات ہیں؟سفارت خانے اپنے مُلک کے مفادات کا تحفّظ کرتے ہیں اور تم وہاںبھارت اور پاکستان کی بات کرو گی۔ یہ جذباتیت لکھاریوں کا کام ہے، سفارت کاروں کا نہیں۔ اور تمہیں اس پر کچھ نہیں بولنا۔‘‘ایسی زبردست دھمکی دی گئی کہ آنکھوں میں آنسو آگئے۔

مَیں تو وہاں دل کی باتیں کرنا چاہتی تھی،کچھ اور نکات بھی بیٹے اور شوہر کی سینسر قینچی کی بھینٹ چڑھ گئے۔ پھر ہوا کچھ یوں کہ باپ،بیٹے نے مل کر پونے چار منٹ کی تقریر تیار کی اور میرے ہاتھ میں تھما دی کہ بس اِس سے آگے پیچھے نہیں ہونا۔’’کپڑے کون سے پہننے ہیں۔ ‘‘بیٹی اور بہو دونوں نے پوچھا۔’’کوئی سے بھی پہن لوں گی۔ ‘‘لہجے میں ہمیشہ کی سی بے نیازی تھی کہ زندگی میں کبھی کپڑوں سے رغبت رہی،نہ زیور سے۔‘‘’’سُنیں!چلیں،امّی کے لیے جوڑا لے کر آتے ہیں‘‘۔بیٹی نے اپنےشوہر سے کہااور مارکیٹ چل دی۔ بڑاہی بے سواد سا رنگ لائی، مگر داماد ساتھ تھا،تو مَیں چُپ رہی۔

6جولائی شام سات بجے تقریب تھی۔ یکم جولائی کو سفارت خانے سے فون آیا۔’’آپ کی 6تاریخ سے قبل سفارت کار سے ایک ملاقات ہونی ضروری ہے۔‘‘ ’’لیکن کیوں؟‘‘مَیں نے پوچھا۔ ابھی مَیں گومگو میں تھی کہ پیغام ملا’’ تین جولائی کو گیارہ بجے سفیر صاحب آپ سے ملاقات کریں گے۔ اپنی گاڑی کا نمبر بتا دیجیے۔‘‘ ’’گاڑی کا نمبر …‘‘ مَیں نے ہونٹوں پر زبان پھیری اور دل میں کہا ’’گاڑی کا نمبر جانے میری بلا۔‘‘’’کل لکھواؤں گی۔‘‘کہہ کر جان چھڑوائی۔ دو جولائی کو دس بجے چک شہزاد میں چھوٹی خالہ کے ہاں ڈولا اُترا۔ 

اگلے دن صُبح آٹھ بجے تک سوچتی رہی کہ ابھی تو بہت وقت پڑا ہے،9 بجے اُٹھوں گی کہ ڈپلومیٹک انکلیو وہاں سے زیادہ دُور نہیں تھا۔ 9 بجے جب چائے کا کپ ابھی ہاتھ ہی میں تھا تو موبائل بجا۔’’کہاں ہیں آپ؟‘‘سعیدہ عنایت بولی۔’’ ابھی تو گھرہی میں ہوں۔ دس بجے نکلوں گی ۔‘‘’’ہائیں… محترمہ!دس بج رہے ہیں۔ گھر کی گھڑیاں ایک گھنٹہ پیچھے ہیں کیا؟‘‘اب گھبرانے اور بدحواس ہونے کی باری میری تھی۔ میری خالہ کے گھر ریٹائرڈ لوگ رہتے ہیں، جو وقت کی قید سے آزاد ہیں۔ 

جب میری طرف سے ذرا غصّے کا اظہار کیا گیا تو خالہ انتہائی اطمینان سے بولیں۔’’ہمیں وقت سے کیا لینا دینا؟حکومت کا تو کام ہی یہی ہے۔ گھنٹہ آگے کر لو، گھنٹہ پیچھے کر لو۔ کون ان وختوں میں پڑے۔‘‘ بہرحال،ایک منٹ میں کپڑے بدلے، ایک منٹ کنگھی نے لیا، ایک منٹ لپ اسٹک نےاور پانچ منٹ بعد میں اسلام آباد کی سڑکوں پر اُڑی جا رہی تھی۔گوکہ سڑکیں اسلام آباد ہی کی تھیں،پر ہر روز والی مانوسیت نہیں تھی۔ اشاروں پر ٹھہر کر، ٹیکسی والوں سے پوچھتی، ڈیوٹی پرکھڑے سپاہیوں سے گائیڈ لائنز لیتی سفارت خانے کی طرف گام زن تھی۔

ایک جگہ تو ہنسی بھی آئی کہ بیرئیر بریکرز کی لائن میں میری گاڑی اور کسی کی لینڈ کروزر ساتھ ساتھ کھڑی ایک دوسرے سے آگے نکلنے میں ہلکان ہو رہی تھیں۔ مَیں نے شیشے سے ڈرائیور کے ساتھ بیٹھے مرد کو اشارہ کیا کہ مجھے آگے نکلنے دو ۔ دو ، تین بار کی اس اشارے بازی کے نتیجے میں اُس نوجوان نے جھلّاتے اور منہ بناتے ہوئے،جو تاثر دیا ،وہ کچھ ایسا تھا کہ’’تُوں لنگھ جا مائی،ساڈی خیر اے۔‘‘ سفارت خانے پہنچی توچیک پوسٹ پر آدمی کھڑا تھا۔ جس نے گاڑی کا نمبر پڑھا۔ 

دروازہ کھولا ،اُس میں بیٹھا اور گاڑی آٹو میٹک کُھلتے دروازوں سے گزر کر پلک جھپکتے عمارت کے مرکزی شیڈ کے سامنے جا کھڑی ہوئی۔ ’’واہ میرے مولا !تیری شان ہے ۔ کل ویزا کے لیے باہر بنے شیڈز کے نیچے سوکھتے تھے اور آج…‘‘بہرحال، سفیر سے ملاقات ہوئی۔ دراز قامت گورا چِٹّا ،قریباً چالیس، پینتالیس برس کا سفیرِ مصر۔ اُن میں تو کوئی پھُوپھاں ہی نہیں تھی۔ نہایت منکسر المزاج،یوں اُٹھ کر ملے، جیسے زمانوں کے شناسا ہوں۔ باتیں ہوئیں،ہال اورا سٹیج دکھایا۔ ہال بہت بڑا اور خُوب صُورت تھا۔ کوئی ڈیڑھ سو کے قریب کرسیاں رکھی تھیں۔

سُرخ قالین سے سجا اسٹیج بھی انتہائی شان دارلگ رہا تھا۔بتایا گیا کہ اس پر دو لوگ،سفیر صاحب اور مَیں بیٹھیں گے۔مَیں نے بھونچکی سی ہو کر انہیں دیکھا اور پوچھا۔ ’’مضمون نگار کہاں بیٹھیں گے۔‘‘’’سامنے کی نشستوں کی طرف اشارہ ہوا۔ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی درخواست کی کہ ’’پلیز! جو پڑھا جائے، مختصر ہو کہ ہمارے ہاں پروگرامز طویل نہیں ہوتے۔‘‘ مَیں نے دل میں کہا’’اب آپ ناراض ہوں یا راضی، بار بار تو کسی کو نہیں کہہ سکتی کہ مختصر پڑھو۔‘‘

6جولائی کو 9بجے چار عورتوں نیلم احمد بشیر، سیما پیروز، رخشندہ نوید اور سلمیٰ اعوان نے امجد اسلام امجدکو جا پکڑا۔ فردوس امجد کو سندیسہ بھیجا کہ ’’تمہارا میاں ہم اغوا کر کے لے چلی ہیں۔ رپورٹ وغیرہ درج مت کروا دینا۔‘‘مہمانوں کے کارڈز میرے پاس تھے۔ہائے!اُس میں بڑی گڑبڑ مچی۔میرے توحواس ہی اُڑگئے تھے ۔ سفیرِ مصر،عامر مگدی بہ نفسِ نفیس اپنے عملے اور بیگم کے ساتھ میرے استقبال کے لیے کھڑے تھے۔اور مَیں بد حواسی کے عالم میں سفیر صاحب،اُن کے عملے اور بیگم سے کیسے ملی ،مجھے خود بھی یاد نہیں۔

اُس خُوب صُورت ہال میں ایک جانب اسلام آباد کی نام وَر اہلِ قلم شخصیات جمع تھیں،جنہیں دیکھ کر آنکھوں میں خوشی کی لہروں نے رقص کیا۔تو دوسری جانب، مختلف اسلامی ممالک کے سفرا مع بیگمات موجود تھے۔پروگرام کا طریقِ کار ہم نے اپنے طور پر تیار کیا تھا، جس کے مطابق سفیر صاحب کی تقریر اختتام میں رکھی تھی، مگر پتاچلا کہ وہ آغاز ہی میں خطاب کریں گے۔تو چلوبھئی، ایسا ہی سہی۔ٹھیک ساڑھے سات بجے پروگرام شروع ہوا۔

سفیر مگدی عامر نے پاکستان اور مصر کے درمیان تاریخی،مذہبی اور ثقافتی رشتوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’’پاکستان اور مصر کے درمیان کلچرل او رتجارتی روابط بہت ضروری ہیں۔ لکھنے والوں کے وفود کا تبادلہ ہونا چاہیے۔‘‘ امجد اسلام امجد،بشریٰ رحمن ، نیلم احمد بشیر،کامران شاہد اور فرید ہ حفیظ نے کتاب اور مصنّفہ پر با ت کی۔ یوں یہ کچھ گھنٹوں کی تقریب خیر سےاختتام کو پہنچی،جس نےلگ بھگ پندرہ دن مجھے سولی پر لٹکائے رکھا۔

تازہ ترین