• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پچھلے دنوں شہر لاہور کی ایک پانچ برس کی ننھی پری کی بے حرمتی کی خبر نے پورے ملک کو جذباتی اور سوگوار کردیا تھا۔ گو اس سے میرا کوئی خونی رشتہ نہیں مگر لگا یہی تھا کہ وہ گویا میری بیٹی ہے، پوتی ہے یا پھر نواسی ۔ وہ میری ہی نہیں آپ سب کی بھی بہن، بیٹی، بھانجی، بھتیجی ، پوتی ، نواسی ہے۔ اس کے ساتھ ہم سب کا وہ رشتہ ہے، جس کے تقدس کی قسم کھائی جاسکتی ہے۔ پانچ برس کی عمر ہوتی ہی کیا ہے! فقط گڑیوں سے کھیلنے کی، تتلیوں کے پیچھے بھاگنے کی اور ہم جولیوں کے ساتھ ادھم مچانے کی۔ ایسے میں اس کلی پر وہ قیامت بیت گئی کہ الامان و الحفیظ۔ کوئی درندہ صفت شخص اسے آئس کریم اور ٹافیوں کا جھانسہ دیکر ہمراہ لے گیا اور پھر جو کچھ ہوا، زبان کہنے اور قلم لکھنے سے قاصر ہے۔ سول سوسائٹی اور الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا سمیت ہر کسی نے درندگی کی اس بہیمانہ واردات کا نوٹس ہی نہیں لیا، اس پر شدید ردعمل کا اظہار بھی کیا تھا اور اس سانحہ کی جزئیات دو ہفتوں تک برابر رپورٹ ہوتی رہیں۔ بے شک یہ ہماری سوسائٹی کے روایتی جذبہ ہمدردی اور خیرسگالی کا مظہر تھے۔ یہ الگ بات کہ اس پراسیس میں کچھ ایسی فروگزاشتیں بھی سرزد ہوگئیں، مہذب معاشرے جن کی اجازت نہیں دیتے۔
پنجاب کے کیپٹل سٹی میں رونما ہونے والی اپنی نوعیت کی یہ کوئی پہلی واردات نہیں ہے۔ اس قسم کی وحشیانہ حرکات ہر ملک اور خطے میں ہوتی رہتی ہیں مگر فرق صرف اتنا ہے کہ مہذب معاشروں میں بچوں کے خلاف جرائم، بالخصوص جنسی جرائم کو نہایت سنجیدگی سے لیا جاتا ہے اور ان سے نمٹنے کیلئے اسٹینڈرڈ آپریشنل پروسیجرز (SOPs) موجود ہیں۔ پہلی بات یہ کہ زیادتی کا شکار ہونے والے بچے اور اس کے اہل خانہ کے کوائف کو بہرطور صیغہ راز میں رکھا جاتا ہے۔ پولیس اور دیگر متعلقہ ایجنسیاں برق رفتاری کے ساتھ کام کرتی ہیں مگر پردے کے پیچھے رہ کر۔ کچی پکی خبریں کسی صورت باہر نہیں نکلتیں۔ پردہ تب اٹھتا ہے، جب سب فائنل ہوچکا ہوتا ہے اور مجرم گرفتار اور بعض صورتوں میں سزایاب بھی ہوچکا ہوتا ہے۔ جہاں تک ہمارا تعلق ہے۔ بے شک میڈیا ،سول سوسائٹی اور قانون نافذ کرنے والے اداروں سمیت پوری قوم نے اس حوالے سے بھی بہت کچھ سیکھنا ہے۔کیا سماج کی شکست و ریخت اس انتہا کو پہنچ چکی کہ ننھی کلیوں اور کھلتے شگوفوں کو اس بے دردی سے مسل دیا جائے؟ کیا قوم اپنے بچوں کی حفاظت کی بھی اہل نہیں رہی؟ کیا ہمارے سفلی جذبات کلی طور پر بے قابو ہوچکے؟ شرف انسانیت تو دور کی بات، کیا ہم حیوانوں سے بھی گرگئے؟ کیونکہ آج تک کسی حیوان نے اپنی نوع یا کسی دوسری نسل کے چوپایہ کے بچے کے ساتھ وہ رزیل حرکت نہیں کی، جس کی چیختی چنگھاڑتی سرخیوں سے ہر روز ہمارے اخبار آراستہ ہوتے ہیں اور طفلان مکتب ان پر غیر ذمہ دارانہ تبصرے کررہے ہوتے ہیں۔ مانا کہ جرم اور برائی پر پردہ نہیں ڈالنا چاہئے مگر اسے طشت ازبام بھی نہیں کرناچاہئے۔ اس کے بیان میں توازن، قرینہ اور سلیقہ ازبس ضروری ہے۔
الحمدللہ ہم دین اسلام کے پیروکار ہیں اور اس حوالے سے اعلیٰ اخلاقی اقدار کے امین بھی۔ برائی کی روک اور اچھائی کا فروغ ہمارے ایمان کا حصہ ہے۔ ہمارے لئے ہر وہ فعل ممنوع ہے، جس سے سماج میں بگاڑ کا اندیشہ ہو، اس نوع کی خبریں پہلے اخبار میں چھپتی تھیں تو پھر بھی کچھ بھرم رہ جاتا تھا کیونکہ اخبار بینی کے کچھ لوازمات ہیں کہ آپ پڑھے لکھے ہوں، اخبار تک رسائی ہو اور مطالعہ کیلئے وقت اور ماحول میسر ہو اب ایسے کسی تردد کی ضرورت نہیں۔ بس کان سلامت ہوں۔ ایسے میں کیا کبھی آپ نے غور کیا کہ ہم اپنے بچوں کے ساتھ کیا کررہے ہیں؟ ان کی تربیت کیلئے کیسا کیسا اہتمام ہورہا ہے؟ ایسی خبروں سے ان کے قلب و ذہن پر کیا اثرات مرتب ہورہے ہیں؟ اور کیسے کیسے سوال ان کی زبانوں سے پھسل رہے ہیں۔ میرا چھ سالہ پوتا اس حوالے سے ذہن کی گرہیں کھولنے کیلئے بظاہر بے ضرر، مگر پراسرار قسم کے سوالات پوچھتا رہا اور میرے پاس اسے مس گائیڈ کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا۔ ہم اس لحاظ سے خوش بخت ہیں کہ باہمی شرم و لحاظ اور ادب آداب سوسائٹی میں ابھی تک موجود ہے۔ اگر خدانخواستہ یہ بند بھی ٹوٹ گیا تو معاشرہ جن اتھاہ گہرائیوں میں جاگرے گا، اس کا تصور بھی ناممکن ہے۔
رہا ایسے مجرموں کی سزا کا معاملہ تو وہ اس قدر کڑی ہونا چاہئے کہ کوئی بھی شخص ایسی قبیح حرکت سے پہلے سوچنے پر مجبور ہو۔ ضیاء الحق کے زمانے میں بھی اس کیس کے مجرموں کو سرعام پھانسی ہوئی تھی، تو طویل عرصے تک اس حوالے سے امن و امان رہا تھا۔ ریپ کے مجرموں کو سزائے موت کوئی نئی بات نہیں۔ انڈیا میں میڈیکل کی طالبہ سے زیادتی کرنے والوں کو سزائے موت کوئی نئی بات نہیں۔ انڈیا میں میڈیکل کی طالبہ سے زیادتی کرنے والوں کو سزائے موت کی بازگشت پوری دنیا میں سنی گئی ہے۔ امریکہ کی بعض ریاستوں میں بھی بچوں کے ساتھ زیادتی کی سزا موت ہے۔ اس حوالے سے ٹیکساس، اوکلوہاما، سائوتھ کیرولینا ، مونٹانا، لوزیانہ اور جارجیا والوں نے خصوصی قانونی سازی کی ہوئی ہے۔ سعودیہ میں ریپ کے مجرموں کو بالالتزام موت کی سزا دی جاتی ہے اور ہر برس درجنوں مجرم اس غیرانسانی فعل کی وجہ سے گردن کٹوا بیٹھتے ہیں۔ زیادہ دن نہیں ہوئے کہ سرکار کیساتھ جڑے ایک بدنصیب پاکستانی کی ماں اور بیوی کے ساتھ بھی یہ سانحہ ہوا، جنہیں دنیائے اسلام کے مقدس ترین شہروں کے درمیان سفر کے دوران اغوا کرکے بے آبرو کیا گیا تھا اور سعودی پولیس اور متعلقہ ایجنسیوں کی محنت شاقہ سے مجرم گھنٹوں میں گرفتار ہوگئے تھے۔ جب شناخت وغیرہ ہوگئی تو متعلقہ حکام نے متاثرہ خاندان سے صرف اس قدر پوچھا تھا کہ سانحہ کے وقت وہ مکہ کے قریب تھے یا مدینہ کے؟ جب یہ طے پاگیا کہ جرم مکہ کے قریب ہوا، تو اگلے ہی جمعہ مقدس شہر کے ایک چوک میں مجرموں کی کٹی گردنیں دھول چاٹ رہی تھیں۔
تازہ ترین