گزشتہ دنوں مریم نواز نے ایک پریس کانفرنس میں عمران خان کو طعنہ دیا کہ اپنے بچے تو لندن میں پل رہے ہیں اور یہ شخص دوسروں کے بچوں کی قربانی چاہتا ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی فرما دیا کہ عمران خان کے بچوں اور سیاستدانوں کے بچوں میں بہت فرق ہے۔ اس بات سے بہت سے لوگوں پر یہ منکشف ہوا کہ جو شخص ہر مشکل گھڑی میں اسلام آباد پر لشکر کشی کرتا ہے اس شخص کے اپنے بچے تو لندن میں ناز و نعم سے پل رہے ہیں۔ میڈیا پرپانچ سال سے تحریک انصاف والے ہر ٹاک شو میں یہ مژدہ سناتے رہے کہ سیاستدانوں کے بچے تو لندن اور امریکہ میں پل رہے ہیں۔ یہ بات اس تواتر سے کہی گئی کہ کسی کی نظر عمران خان کے بچوں پر پڑی ہی نہیں۔ کسی کو بہتان کی گردان میں یہ یاد ہی نہیں رہا کہ اس ملک میں سیاستدانوں کے بچوں کے ساتھ کیا گزری۔ کن جاں گسل مرحلوں سے وہ گزرے۔ یہ تحریر موروثی سیاست کے حق میں نہیں بلکہ وراثت میں ملی خون کی جاگیر کے حوالے سے ہے۔
سب سے پہلے حمزہ شہباز کی بات کرتے ہیں۔ یہ کہنا تو بہت آسان ہے کہ موروثی سیاست نہیں ہونی چاہئے۔ باپ وزیر اعظم اور بیٹا وزیر اعلیٰ نہیں ہونا چاہئے۔ پارٹی میں جمہوریت ہونی چاہیے لیکن ان دلائل سے پہلے دیکھ لیں حمزہ شہباز کی زندگی کیسی گزری ہے؟ 1999 میں جنرل مشرف کے مارشل لا کے بعد حمزہ شہباز کو ضمانت پر رکھ کر نواز شریف اور باقی خاندان کو ملک بدر کر دیا گیا۔ حمزہ شہباز کی عمر کم تھی۔ سیاست کا بھی کچھ علم نہیں تھا۔ پہلے ان کو ایک ماہ جیل میں دھکیل دیا گیا پھر ماں باپ سے جدا کر دیا گیا۔ پانچ سال حمزہ شہباز اپنے ماں باپ سے نہ مل سکے۔ عمران خان کا دور حکومت آیا تو حمزہ شہباز پھر جیل کے اسیر ہو گئے۔ 22 ماہ قید میں رہے۔ شادی کے 20 سال کے بعد اولاد ہوئی۔ بچی کو دل کا عارضہ تھا۔ لندن میں آپریشن ہوا۔ اس کے بعد تین سال تک بچی کا چہرہ نہ دیکھ سکے۔ ملاقات صرف اس وقت ہوتی جب اسمبلی اجلاس کیلئے پروڈکشن آرڈر جاری ہوتا تو اہلیہ بچی کو اسمبلی میں لے آتیں اور حمزہ شہباز چند لمحے بچی کو دیکھ پاتے۔
مریم نواز ناز و نعم میں پلی تھیں۔ سیاست میں آنے کا ارادہ نہیں تھا۔ انہوں نے بھی وطن بدری کو جھیلا۔ دور عمران میں قید کو دو بار جھیلا۔ کال کوٹھڑی میں رہیں۔ رات کے بارہ بجے جیل کے کمرے میں مرد گھس آتے۔ ہر جگہ کیمرے لگائے گئے۔ اسی اذیت میں والدہ کا انتقال ہوا۔ انتقال سے پہلے کوئی ایک لمحہ والدہ سے بات کروانے پر تیار نہ ہوا۔ لیکن خود لندن سے واپس آکر قید ہوئیں۔ کبھی اُف تک نہ کیا۔ باپ کی زندگی کی جنگ مریم نواز نے اکیلے لڑی۔ مریم نواز کے صاحبزادے جنید جب لندن میں بستر مرگ پر موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا اپنی نانی کی عیادت کرنے جاتے تو راستے میں پی ٹی آئی کے غنڈے ان کو ماں بہن کی گالیاں دیتے۔ یہ سب آفتیں ان پر ا س لیے پڑیں کہ وہ ایک سیاستدان کے بچے تھے۔ انہوں نے اس لیے ان تکلیفوں کو سہا کہ یہ صرف ایک سیاستدان کی نہیں بلکہ تین دفعہ کے وزیر اعظم کی چہیتی اولاد تھیں۔ بلاول بھٹو کی مثال آپ کے سامنے ہے۔ بچپن ماں کی گود میں کورٹ کچہری میں گزرا۔ نانا کی قبر پر آنسو بہاتے جوان ہوئے۔ والدہ کی انگلی پکڑ کر چلنا سیکھا تو وطن بدر ہو گئے۔ کبھی ایک ماموں کو مار دیا گیا کبھی دوسرے کی لاش دیکھی۔ والدہ واپس آئیں تو انکی خون میں لت پت لاش پر ماتم کیا۔ دن دیہاڑے قتل کیا گیا۔ قتل کی جگہ سے بھی سب کے سامنے جرم کے نشانات مٹا دیئے گئے۔ یہ مناظر کو دیکھ کر آج وزیر خارجہ بنے ہیں تو یہ موروثی سیاست نہیں، خون کا دریا ہے جس سے گزر کر بلاول بھٹو یہاں تک پہنچے ہیں۔ ان پر اتنی تکالیف اس لیے آئی ہیں کہ وہ سیاستدان کے بچے ہیں۔ سیاستدانوں کے بچوں کی اتنی مثالیں ہیں کہ لکھ لکھ کر صفحے کالے ہو جائیں مگر تاریخ کی کالک ختم نہیں ہو گی۔ کے پی چلتے ہیں۔ غلام احمد بلور کا نام تو سنا ہو گا۔ ایک ہی بیٹا تھا شبیر بلور، الیکشن کے دوران مارا گیا۔ پورا بلور خاندان دہشت گردی میں ختم کردیا گیا۔ بھائی بشیر بلور کی لاش کے ٹکڑے ملےاور انکے جواں سال صاحبزادے ہارون بلور بھی دہشت گردی کے حملے میں جان سے گزر گئے۔ اے این پی کے رہنما میاں افتخار کے اکلوتے بیٹے میاں راشد کو دہشت گردی کے حملے میں مار دیا گیا۔ سابق وزیر اعلیٰ کے پی کے عنایت اللہ گنڈا پور کے دو جوان بیٹے مار دیئے گئے۔ ان سب کا قصور یہ تھا کہ یہ سیاستدانوں کے بیٹے تھےاور ملک میں جمہوریت کے رکھوالے تھے۔ عمران خان کو کیا پتا کہ اس سماج میں سیاستدان کا بچہ ہونا کیا معنی رکھتا ہے؟اِن ٘مثالوں سے بھی تسلی نہیں ہوئی تو اکبر بگٹی کی اولاد سے پوچھیں۔ ایک ڈکٹیٹر نے کس طرح ایک سیاسی رہنما کو بم سے اڑا دیا اور پھر مری کے پرتعیش ریسٹ ہائوس میں بیٹھ کراس فتح پر جام کے جام لنڈھائے۔ بلوچستان کی اور بھی بہت سی محرومیاں ہیں مگر اکبر بگٹی کے بچوں کا غم ان محرومیوں کے زخم کو ہمیشہ ہرا رکھے گا۔
عمران خان چونکہ ایک ’’لاڈلے سیاستدان‘‘ ہیں لہٰذا انکو اس سماج میں سات خون معاف ہیں۔ وہ چاہے آئین کو پیروں تلے روند دیں، چاہے قانون کی دھجیاں بکھیر دیں، چاہے عدالتوں کا مذاق اڑائیں، چاہے الیکشن کمیشن کی توہین کریں، چاہے اسلام آباد کو نذر آتش کر دیں ان کو کوئی نہیں روکتا۔ مسئلہ ان سیاستدانوں کا ہےجو اس دھرتی کے باسی ہیں اور دہائیوں سے معتوب کہلائے گئے ہیں۔ انکے بچوں کی زندگی کیسی رہی، بس یہ بتانا مقصود تھا۔
میری دعا ہے کہ عمران خان کے بچے ان تمام آفتوں سے محفوظ رہیں لیکن خان صاحب کو سیاستدانوں کی اولادوں پر کیچڑ اچھالنے سے پہلے یہ جان لینا چاہئے کہ جتنی قربانیاں اس ملک کے لیے اس ملک کے سیاستدانوں کے بچوں نے دی ہیں، اس کی مثال کسی اور خطے میں نہیں ملتی۔ یہ انہی قربانیوں کا اعجاز ہے کہ آج بھی اس ملک میں جمہوریت نامی نظام سانسیں لے رہا ہے۔