صدر جو بائیڈن نے انڈو پيسفک اسٹرٹیجی میں اضافہ کرتے ہوئے انڈو پيسفک اکنامک فورم کا اعلان کیا ہے۔ اس پر گزارشات علیحدہ مضمون کا تقاضا کرتی ہے جو میں ضبط تحریر میں بھی لاؤں گا مگر ان تمام حالات میں بھی عمران خان معاملات کو مزید خراب کرنے پر تلے بیٹھے ہیں تاکہ حکومت سنبھل کر قومی معیشت کو سنبھالنے میں کامیاب نہ ہوجائے حالانکہ اس وقت ہمارے گردوپیش میں ایسا بہت کچھ ہو رہا ہے کہ جس کی وجہ سے حکومت کی زبردست توجہ معاشی بحالی کے ساتھ ساتھ خارجہ امور پر بھی مرکوز رہنی چاہئے۔
اس وقت ہماری معاشی بحالی میں چین کا غیر معمولی کردار ہے اور اسی سبب سے وزیراعظم شہباز شریف کا امریکی ہم منصب سے ٹیلی فونک رابطہ ہوا جس میں دہشت گردی سے چینی باشندوں کی اموات اور سی پیک زیر بحث رہے، وزیر خارجہ بلاول بھٹو نے چین کا دورہ کرکے پاکستان کی ضروریات کو واضح کردیا ہے، ان حالات میں کوئی تبدیلی بالخصوص جو معاشی پلان کے نام پر چین کو روکنے کی غرض سے ہو پاکستان کے لیے کتنی اہم ہے محتاج بیان نہیں۔ چین ان امریکی سرگرمیوں کو کس نظر سے دیکھ رہا ہے اس کو سمجھنے کے لیے 2022ءمیں چینیCPPCC کے جن دو سیشنوں کا انعقاد ہوا تھا اور پھر اس کے بعد چینی وزیر خارجہ نے ان سیشنوں پر جو پریس کانفرنس کی تھی اس کو سامنے رکھنا ہوگا اور امید کی جا رہی ہے کہ اس میٹنگ کے بعد چین میں استحکام بھی رہیگا ۔ ان اجلاسوں میں چینی خارجہ پالیسی زیربحث آئی تو اس بات کو بھرپور طور پر بیان کیا گیا کہ امریکہ کی انڈو پيسفک اسٹرٹیجی ماسوا اس کے کچھ نہیں ہے کہ اس خطے میں نیٹو کے ایشیائی ورژن کو متعارف کروایا جائے اور چین جو اس خطے میں اقتصادی معاہدے کر رہا ہے ان معاہدوں کو ناکام بنایا جائے۔ اس اجلاس میں اس بات کا برملا اظہار کیا گیا کہ چین ایک خاص وژن کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے اور وہ سوچ یہ ہے کہ چین کی اقتصادی طاقت اور دیگر ممالک کی اقتصادی ضروریات کا ایک تال میل قائم کر دیا جائے تا کہ چین اپنی معیشت کو مزید ترقی دے سکے اور دیگر ممالک اپنے معاشی معاملات کو اس ترقی کے شانہ بشانہ لاسکیں۔ آسیان ممالک کے حوالے سے ایک ایشیا پیسفک کمیونٹی موجود ہے اور چین کسی نوعیت کے فوجی اتحاد کی بجائے اپنی توجہ صرف اقتصادی معاملات کی طرف مرکوز رکھنا چاہتا ہے۔ کیونکہ چین نے اپنی اس تاریخی کامیابی کو انہی پالیسیوں کے سبب حاصل کیا ہے اور وہ غربت پر فتح پانے کا اعلان کر چکا ہے اور اب وہ اپنے شہریوں کو گرین انرجی پالیسی دےرہا ہے تا کہ بتدریج صرف ماحول دوست انرجی کا استعمال کیا جائے۔ صدر شی جن پنگ چین کے پروایکٹو کردار کا اعلان کر چکے ہیں اور ان کا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ چین اپنی معیشت کو اس انداز میں بڑھائے گا کہ دیگر ممالک کی معیشتیں بھی اس کی معیشت کے ساتھ کھڑی رہيں۔ ان حالات میں اس کی توجہ کو تبدیل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
جس کے اثرات بہرحال پاکستان پر بھی مرتب ہونگے کیونکہ اس وقت ہم بدترین اقتصادی بحران کا شکار ہیں۔ انرجی بحران جو نواز شریف دور حکومت میں قصۂ پارینہ بن گیا تھا وہ دوبارہ عفریت بن کر سامنے آ کھڑا ہوا ہے اور رہی سہی معیشت کو بھی ہڑپ کرنے کی تیاریاں کر رہا ہے۔ توانائی کے بحران کے لیے جہاں پر سعودی عرب ہمارے لیے ایک اہمیت رکھتا ہے وہیں پر قطر اور ایران کی اہمیت سے بھی غافل نہیں رہا جا سکتا، ایران سے پاکستان نے گیس پائپ لائن کا معاہدہ کیا تھا جب تک ہم اس گیس پائپ لائن کے معاملات کو حل نہیں کر لیتے ہمیں بار بار توانائی کے بحران کا سامنا کرنا پڑتا رہے گا۔
اس میں جہاں حقیقی رکاوٹیں موجود ہے وہیں پر غیر حقیقی رکاوٹیں بھی ہمارے سامنے ہیں۔ ایران سے عوامی طور پر روابط میں بھی اس دوران کمی آئی ہے مگر اس کمی کو دور کرنے کے لیے ایران کے لاہور میں قونصل جنرل رضا نذیری اور ڈائریکٹر جنرل خانہ فرہنگ ایران لاہور جعفر بہت متحرک ہیں، حال ہی میں بہت بڑی کاروباری نمائش کا بھی انعقاد کیا گیا جب کہ دوبارہ سے ثقافتی پروگراموں کا آغاز بھی کردیا گیا ہے۔ بہرحال حکومت کو گیس پائپ لائن پر بھی توجہ دینی چاہئے کہ اس حوالے سے کوئی راستہ اگر دستیاب ہو سکتا ہے تو اِس سے فائدہ اُٹھانا چاہیے۔ ایک اور موضوع کی طرف بھی توجہ دلانا چاہتا ہوں، اس وقت پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر اپنے عہدے سے ریٹائر ہونے والے ہیں۔ نئے وائس چانسلر کی تقرری زیر غور ہے۔ ایک تو فوری طور پر اس کمیٹی کو ختم کیا جائے جو سابق وزیر اعلیٰ بزدار نے صرف پنجاب یونیورسٹی کے حوالے سے حقیقی کمیٹی سے ہٹ کر بنائی تھی۔ دوئم ان لوگوں کو سنڈیکیٹ سے علیحدہ کیا جائے جن کے پاس اپنی ڈگری تک موجود نہیں اور وہ سالہا سال سے اس فیصلہ ساز فورم میں موجود ہیں۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)