• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سائنس نے جہاں انسان کو بہت سی آسائشیں دے کر خوش وخرم کیا ہے وہاں کئی مقامات پر اس نے اسے اداس بھی کیا ہے۔ہمارے زندہ دل شاعر سید ضمیر جعفری نےتبھی تو کہا تھا۔

زندگی نیچے کھڑی منہ دیکھتی ہی رہ گئی

کتنا اونچا لے گیا جینے کا معیار آدمی

اس بات کا احساس مجھے چند روز قبل اس وقت ہوا جب لاہور کی ایک سڑک پر تھوڑا سا پیدل چلنے کا اتفاق ہوا مزنگ چونگی چوک سے سڑک عبور کرنے لگا تو بقول ابن انشا شہر کے لوگوں نے رستہ ہی نہیں دیا تو بن میں جا بسرام کرنے کو جی چاہا اس سڑک کو گاڑیوں کے لیے سگنل فری کیا گیا ہے پہیوں کو تو اس کا فائدہ ہوگیا لیکن آدمیوں کی دو ٹانگوں کے لیے ایک مستقل مشکل پیدا ہو گئی ہے کوئی گاڑی والا کسی پیدل چلنے والے کو سڑک عبور کرنے کے لیے راستہ ہی نہیں دیتا۔ سڑک عبور کرنے کے لیے بنائے گئے پل اول تو بہت دور دور بنائے گئے ہیں۔ دوم یہ کہ ان کے اوپر منشیات کے عادی افراد نے مستقل قبضہ کر رکھا ہے موقع پاکر وہ اکیلے آدمی کو لوٹ بھی لیتے ہیں شہر کی سگنل فری سڑکوں پر مناسب فاصلے پر زیبرا کراسنگ بنائے جاسکتے تھے لیکن عام آدمی کے دل کی بات کون سنتا ہے۔

سائنس کی ایک اور ایجاد ریفریجریٹر اور ڈیپ فریزر ہے جب سے یہ ایجاد گھروں کے کچن میں داخل ہوئی ہے تب سے ہم نے اپنے گھروں کا بچا کھچا کھانا غریبوں کو دینا چھوڑ دیا ہے۔ کیا شاندار دن تھے جب کسی گھر میں کوئی اچھی، اچھوتی یا نئی چیز پکائی جاتی تھی تو ہمسائے کے گھر ضرور بھیجی جاتی تھی کبھی حق ہمسائیگی کے خیال سے اور کبھی اس ڈر سے کہ گھر کے کچن میں پڑی رہی تو خراب ہی ہو گی اب کچن کی ہر کھانے پینے کی اضافی چیز فریج میں محفوظ کر لی جاتی ہے حالانکہ ماہرین غذا بار بار کہتے ہیں کہ فریج میں رکھا ہوا کھانا، گرم کرکے کھانا صحت کے لیے نقصان دہ ہے لیکن ہم اپنی خود غرضی اور صدیوں کی بھوک کا کیا کریں جو چھپائے نہیں چھپتی۔

کچھ عرصہ پہلے تک ریلوے اسٹیشن پر سرخ واسکٹ پہنے ہوئے قلی بادشاہوں کی طرح ایک پلیٹ فارم سے دوسرے پلیٹ فارم کی طرف سامان اٹھا کر جاتے دکھائی دیا کرتے تھے قلیوں پر بہت سی فلمیں بھی بنائی گئیں۔عام مسافروں کے جو مسائل ریلوے کے کلرک بابو حل نہیں کر پاتےتھے قلی چٹکی بجا کر حل کر دیا کرتے تھے۔ کلرک بابو سے زیادہ انہیں معلوم ہوتا تھا کہ کون سی گاڑی کے کس ڈبے میں کتنی نشستیں خالی ہیں ؟ کون سی گاڑی کس پلیٹ فارم پر آئے گی ؟ یہ قلی مسافروں کی گٹھڑیاں اور صندوق اٹھا کر اپنی روزی روٹی کماتے تھے لیکن جب سے پہیے والے بیگ آئے ہیں تب سے ان کی روزی روٹی کمانے کا سلسلہ بند ہو گیا ہے میں نے کئی بار ریلوے اسٹیشن پر مشاہدہ کیا ہے کہ اگر کسی فیملی کے پانچ افراد گاڑی سے جا رہے ہوں تو ان کے پاس پہیوں والے پانچ بیگ ہوتے ہیں ہر آدمی اپنا اپنا بیگ گھسیٹ کر ایک پلیٹ فارم سے دوسرے پلیٹ فارم تک آسانی سے لے جاتا ہے اور قلی بے چارے منہ دیکھتے رہ جاتے ہیں آن لائن بائیک، رکشا اور ٹیکسی سروس نے ریلوے اسٹیشن پر گھنٹوں انتظار کرنے والے رکشا ڈرائیوروں اور ٹیکسی والوں کا کاروبار ٹھپ کرکے رکھ دیا ہے۔ یوٹیوب کے آنے کے بعد کروڑوں روپے کی لاگت سے بنے ہوئے سینما کھنڈرات کی شکل اختیار کرتے چلے جا رہے ہیں آپ ایبٹ روڈ لاہور کی سینما مارکیٹ میں چلے جائیں آپ یہ دیکھ کر حیران ہوں گے کہ تقریباً ہر سینما میں کاروں کی ورک شاپیں بن چکی ہیں۔ کچھ سینما پارکنگ ہائوس بنا دیے گئے ہیں آج اسمارٹ فون کی شکل میں ہر آدمی سینما اپنی جیب میں لیے پھرتا ہے وہ یو ٹیوب پر اپنی پسند کی کسی بھی پرانی فلم کا نام لکھتا ہے اور اپنے گھر کے پرسکون ماحول میں بیٹھ کر وہ پوری فلم دیکھتا ہے نہ سینما جانے کا جھنجھٹ نہ ٹکٹ خریدنے کی دقت نہ ہاف ٹائم میں سینما کی کنٹین سے کچھ خریدنے کی ضرورت گھر کی چائے پیجئے کچھ کھاتے بھی رہیں گھر کے کام کاج بھی کرتے رہیں اور فلم بھی دیکھیں۔ اب لوگوں نے گھروں میں بڑے بڑے اسمارٹ ٹی وی دیواروں پر آویزاں کر رکھے ہیں پہلے وہ جو کچھ سینما میں جاکر دیکھتے تھے اب گھر میں بیٹھ کر دیکھ لیتے ہیں آج سے تیس چالیس برس پہلے ہر گلی محلے میں کوئی چھوٹی موٹی بیکری ہوا کرتی تھی تازہ بسکٹ بنتے تو پورے محلے میں خوشبو پھیل جایا کرتی تھی سرمائے کی بہتات نے ان چھوٹی موٹی بیکریوں کو منہ چھپانے پر مجبور کر دیا ہے اب بڑے بڑے سرمایہ داروں نے مختلف ذائقوں کے بسکٹ بیچنا شروع کر دیئے ہیں اب بسکٹ پہلے سے زیادہ بنتے اور بکتے ہیں لیکن ہم سب بسکٹوں کی خوشبو سے محروم ہو گئے ہیں لگتا ہے کہ ترقی کے اس دور میں ہر طرح کی خوشبو ہم سے روٹھ گئی ہے ستم تو یہ ہے کہ سائنس نے پلاسٹک کے پودے اورپھول بھی بنانا شروع کر دیے ہیں ان میں رنگ تو ہوتے ہیں لیکن خوشبو نہیں ہوتی۔

ہم سے بے چارگئی عشق نہ پوچھ

گل کو خوشبو سےجدا دیکھتے ہیں

عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ جہاں سائنس نے بہت سے انسانوں کو بہت کچھ دیا ہے وہاں اس نے بہت سے انسانوں سے بہت کچھ چھین بھی لیا ہے سائنس کی پیش قدمی جاری ہے ابھی یہ انسانوں کو بہت کچھ مزید بھی دے گی لیکن یہ کسی کو معلوم نہیں کہ ہم سے مزید کیا کچھ چھننے والا ہے ؟

آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پہ آ سکتا نہیں

محوِحیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس

ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین