• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایک آیت میں اس آگ کا ذکر ہےجو گنہگاروں کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔ اُسے بجھانے کی کوشش کرو وہ آگ جلتی ہی رہتی ہے مگر ژوب کے علاقے اور کوہِ سلیمان کی ساڑھے گیارہ ہزار کی اونچائی پر لگی آگ کے قریب تو چند غریب گھرانے تھے جنہوں نے شہر کا ماحول نہیں دیکھا تھا۔ وہاں تو چلغوزوں کے جنگل تھے۔ سنا ہے آسمانی بجلی نے وہ طوفان مچایا کہ جنگل کے جنگل بھسم ہوگئے۔ 24دیہات جل گئے۔ اُدھر بلوچستان کے علاقے پیرکوہ میں ہیضے کی وبا نے چھائونی ڈال لی۔ آفات کو ختم کرنے کے لیے 2005ء کے زلزلے میں جانے والے ہیلی کاپٹر تک نہ تھے۔ ہم نے وہ ایران سے مانگے ہیں۔ رہا بلوچ حکومت کا معاملہ، وہاں تو کون بنے گا وزیراعلیٰ کے نام پر نوٹوں کی بوریاں چل رہی ہیں۔ وفاقی حکومت کے پاس وقت بہت ہے۔ اس لیے وہ بھی اتحادیوں کے اجلاس سے فارغ ہوگی تو کسی دوسرے علاقے کی خبر لے گی شاید وہ بھی جب اپنی مدت پوری کرلے گی پھر پروانوں کی راکھ ہی رات کا فسانہ سنائے گی۔

پرانا محاورہ ہے ’’اکیلا چنا کیا بھاڑ جھونکے گا‘‘۔ یہ قطعی طور پر منطبق ہوتا ہے، اکیلے جھومتے کبھی لڑکھڑاتے پنجاب کے چیف منسٹر پر صادق آتا ہے، آکے بیٹھے بھی نہ تھے۔ آگے مصرعہ ابھی نہیں کہ فی الوقت تو ان کی کابینہ ہی نہیں بن رہی۔ ہمارے صدر صاحب تو بہت مدبر اور معتدل طبیعت کے تھے، مگر کچھ فائلیں اور ان میں لکھے نام، ان کو کھٹکتے ہیں۔ اس کا فائدہ کسی کو نہیں ہورہا۔ ان کو بھی نہیں۔ لغاری صاحب جب صدر تھے۔ تو انہیں تو وزیراعظم کو بھی نکالنے کا گر آتا تھا۔ موجودہ حکومت کم از کم گزشتہ لانگ مارچوں کا روزنامچہ پڑھ لیتی، آدھی رات کو ہماری محترم بینظیر بھٹو کو ایک دفعہ نہیں، کئی دفعہ ہراساں کرنے کی کوشش کی گئی۔ مگر بیگم ناصرہ اقبال کا لحاظ علامہ اقبال کی بہو ہونے لے ناتے بھی نہیں کیا گیا۔

حکومت کرنے والوں کو ماضی کی غلطیوں سے کچھ تو سیکھنا چاہئے تھا۔ اب دیکھیں ہندوستان کے ریٹائرڈ افسروں نے دہائی دی ہے کہ 2019ء سے کشمیر میں دہشت گردی ہورہی ہے۔ دنیا، یوکرین اور فلسطین کی طرح خاموش تماشائی بنی ہے۔ اب مودی حکومت نے یٰسین ملک پر فرد جرم، تین سال کی قید کے بعد، نافذ کرنے کو عدالت سے رجوع کیا اور عمر قید دیدی۔ کیا منصف اور کیا حکومت۔ سب روز چیختی چلاتی عورتوں کو دیکھ رہے ہیں۔ بجرنگ دل نے اسکولوں میں ہتھیار چلانا سکھانا شروع کر دیا۔ نفرتیں، تاریخ کو مسخ کرکے حکومتی سطح پر بڑھائی جارہی ہیں۔ پھر بھی جوبائیڈن جاپان آتا ہے تو انڈین وزیراعظم کو بلاکر بات کرتا ہے۔ ہم بھلا کس کھیت کی مولی ہیں۔ ہم نے گزشتہ حکومتوں سے بھی تیز قدم، صحافیوں کے خلاف پکڑ دھکڑ، چھاپے، مقدمات وہ بھی اس طرح کہ جو صحافی اسلام آباد یا لاہور کا ہے تو اس پر مقدمہ تھرپارکر میں بنایا جا رہا ہے۔ پھر میڈیا پہ لاکر ’’جفا سے توبہ‘‘ کا اقرار کروایا جارہا ہے۔ اُدھر میڈیا گھڑی گھڑی، راکٹ کی رفتار سے ڈالر کو اوپر ہی اوپر جاتا دکھا کر، سبز قدم حکومت کو بیچ منجدھار دکھا رہا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ یہ بھی بتا رہا ہے کہ فلاں طاقتور کا فون تھا۔

ٹیکنالوجی کی بے پناہ ترقی کے زمانے میں دنیا بھر نے 25اور 26مئی کی درمیانی شب میں شیلنگ کی وہ انتہا دیکھی کہ جیسے دشمن کی فوجوں سے لڑ رہے ہوں۔ یہ بھی دیکھا کہ کنٹینرز ہٹانے والی کرین نے کیا رنگ دکھایا۔ کیسے میڈیا پاکستان کا پیچھے رہ گیا کہ وہ ڈی۔ چوک میں تقریر کر رہا تھا اور ارجنٹ نیوز کے نام پر اعلان تھا کہ مظاہرین ڈی۔چوک کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ کسی میڈیا والے نے یہ نہیں دکھایا کہ گاڑیوں میں بیٹھے لوگ کس طرح پیدل چلنے والوں کو پانی اور چاول دے رہے تھے۔ یہ بھی نہیں پوچھا وہ کیا سوچ کے رات بھر پیدل چلتے اور جاگتے رہے ہیں۔ یہ بھی نہیں بتایا کہ پی ٹی آئی کے اپنے رینجرز تھے جو اسلحہ اور جھنڈوں کے ساتھ تھے۔

امریکہ خلاف جملہ بقول حبیب جالب ’’چل گیا‘‘۔ یہ قوم کب سے سڑی ہوئی بیٹھی تھی کہ ان پر بے جا حکومت کرنے والے ڈالروں کے عوض وصول کرکے، اپنی تین نسلوں کا مستقبل بناتے تھے۔ یہ الگ بات کہ یہ سب جو مظاہرے میں شامل تھے اور گاڑیوں میں تھے۔ میرا اندازہ ہے کہ وہ سب امریکی ویزا لیے ہوئے ہیں کہ بوقتِ ہنگام کام آئے۔ ورنہ سوچیں تین سال بعد پلٹنے اور دو مہینے ہوئے وزارت خزانہ چھوڑنے والی مقتدر شخصیات ملک کیوں لوٹ رہی ہیں۔ پہلے ذلیل کرکے نکالا تھا اب کیا لعل لگ گئے کہ واپس آرہے ہیں اور باقاعدہ پروٹوکول دیا جا رہا ہے۔ قوم کو کروڑوں درخت لگانے کا کہنے والے کے کارندوں کو بلیو ایریا اور دوسرے علاقوں کےدرخت جلاتے ہوئے شرم نہیں آئی۔ 31پولیس افسران کو زخمی کرنے کی بھی معذرت نہیں کی۔

ہمارا دوست نجم سیٹھی ہمیں روز نئی خبر سنا کر کبھی حیران تو کبھی پریشان کرتا ہے۔ اس کے بقول موجودہ حکومت مضبوط قدم لے رہی اور عدالتوں کے بارے میں کیا کہوں کہ سیاسی معاملات کی جانب توجہ زیادہ ہے۔ رات بارہ بجے کھلنے والی عدالتوں نے لوگوں کے دلوں میں یہ جستجو ڈال دی ہے کہ جانے کس لمحہ وہ ہمارے مسائل حل کر دے گی۔ اب جبکہ پیٹرول 30روپے فی لیٹر بڑھ گیا ہے۔ ’’حیراں ہوں دل کو رئوں کہ پیٹوں جگر کو میں‘‘۔ مجھے پرائم منسٹر سے اختلاف ہے کہ وہ جو 2ہزار روپے۔ ثانیہ نشتر کے احساس پروگرام کی طرح غریبوں کو بخشنے کا اعلان فرمایا ہے۔ براہِ کرم ان سب کو کام سکھا کر پیسے دو۔ قومی غیرت اس طرح پیسے ضائع کرنے کا تقاضا نہیں کرتی۔ موجود فیکٹریوں ہی میں دس دس مرد اور عورتوں کی تربیت کا اہتمام کریں چاہے وہ دو گھنٹے کی تربیت ہو۔ پھر تربیت کے دوران یہ رقم دی جائے۔ تربیت حاصل کرنے کے بعد، ان کو اپنا کاروبار چلانے کے لیے بے شک مدد کرو اور اس سلسلے میں شازیہ مری بی بی کو ٹیکنیکل مدد فراہم کریں، اول تو شازیہ بی بی ہی بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کو ری وائنڈ کریں ہر صوبے میں یونین کونسل کی مدد سے مستحق افراد کی فہرست بنائیں۔ ٹائیکون سرمایہ داروں کو تعلیم کے شعبے میں میٹرک تک مفت تعلیم کی ذمہ داری سونپ دیں۔ چھوٹی صنعتوں کو علاقائی فصل اور ہنر کے مطابق ہرپچاس دیہات پر مشتمل فیکٹری لگائیں۔ ابتدا میں تربیت کے دوران یہ فنڈز اور دیگر بین الاقوامی فنڈنگ ز وظیفہ دیے جائیں بعدازاں یہی لوگ آہستہ آہستہ اس چھوٹی صنعت کو، اپنے زیر انتظام چلانے کے قابل ہو جائیں گے۔ یہ محنت طلب اور صبر طلب کام ہے جس کے نام پر حکومت میں بے شمار ادارے بنے ہیں۔ لوگ لمبی لمبی تنخواہیں لے رہے ہیں۔

تازہ ترین