سندھ ہائر ایجوکیشن کمیشن اور جامعہ این ای ڈی کے اشتراک سے ہ دو روزہ ’’ریسرچ اینڈ ٹیکنالوجی شو کیس 2022ء‘‘ کا انعقاد کیا گیا، جس کا افتتاح وزیر ترقیِ نسواں، سیّدہ شہلا رضا نے کیا۔ اس موقعے پر اُن کہنا تھا کہ ’’آج کی نمائش نے ثابت کردیا ہے کہ ہمارا نوجوان تعمیری سوچ کا مالک ہے۔ نوجوان دنیا بھر میں ٹیکنالوجی اور تحقیقی میدان میں پاکستان کا مستقبل روشن کریں۔‘‘ نمائش کے حوالے سے شیخ الجامعہ این ای ڈی، پروفیسر ڈاکٹر سروش حشمت لودھی کا کہنا تھا کہ ’’آج کی نمائش این ای ڈی یونی وَرسٹی کے سو سال مکمل ہونے کی تقریبات کی ایک کڑی ہے۔
میرا خیال ہے کہ یہاں متعارف کروائی جانے والی ٹیکنالوجیز سے نہ صرف معمولاتِ زندگی میں جدّت پیدا ہوسکے گی، بلکہ اس کے مثبت نتائج بھی بر آمد ہوں گے۔‘‘ اس موقعے پر ڈائریکٹر اوریک(آفس آف ریسرچ انوویشن اینڈ کمرشلائزیشن)،ڈاکٹر ریاض الدّین اور مینیجر بزنس انکیوبیشن سینٹر، ڈاکٹر سندس نے کہا کہ ’’اس شوکیس میں سندھ بھر کی 35جامعات نے اپنے 340 سے زاید پراجیکٹس کی نمائش کی ہے، جن میں سے100 پراجیکٹس این ای ڈی یونی وَرسٹی کے ہیں۔‘‘
نمائش میں پیش کیے جانے والے پراجیکٹس سے متعلق آگاہ کرتے ہوئے کمیونی کیشن مینیجر اوریک نے کہا کہ’’نیشنل سینٹر فار سائبر سیکیوریٹی، این ای ڈی پراجیکٹ سیکیوریٹی اینڈ تھرڈ انٹیلی جینس پلیٹ فارم(STIP) بہت اہمیت کا حامل ہے، جس کی مدد سے صرف سِسٹم ہیک ہونے سے بچایا جاسکتا ہے۔ اس کی ایک خاص بات یہ ہے کہ دنیا بھر کے مقابلے میں ہمارا پلیٹ فارم سَستا ترین ہے۔ بے نظیر بھٹو شہید لیاری یونی وَرسٹی نے اسمارٹ والِٹ (پرس) تیار کیا ہے، جس میں سینسرز لگے ہیں، جو پرس کھوجانے یا چوری ہوجانے کی صُورت میں اس کی تلاش میں کارآمد ثابت ہوسکیں گے۔‘‘
اسی طرح سر سید یونی ورسٹی یونی وَرسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی کی جانب سے ایک آٹومیٹک (Cardiopulmonary resuscitations) (سی پی آر) ڈیوائس پیش کی گئی، جو حرکتِ قلب بند ہوجانے کی صُورت میں بغیر انسانی مدد کے مریض کو سی پی آرطریقۂ علاج فراہم کرسکتی ہے۔ ڈی ایچ اے صُفّا یونی وَرسٹی نے ایک ایسی ایکسرے مشین متعارف کروائی ، جو ڈاکٹر ز کی مدد کے بغیر رپورٹ بنانے میں مہارت رکھتی ہے۔ اسی طرح ذوالفقار علی بھٹو شہید یونی وَرسٹی نے ایک ایسی موبائل ایپلی کیشن بنائی ہے، جو غذائی صنعت کے لیے اہمیت کی حامل ہے کہ اس کے ذریعے ہوٹلز میں ضائع ہونے والے کھانے کا حساب رکھا جاسکے گا۔
یاد رہے، عالمی ادارۂ صحت کے مطابق دنیا کی 20فی صد آبادی بھوک سے متاثرہے، جس کی مدد اس ایپ کی بدولت کھانے کو ضائع ہونے سے بچا کر کی جاسکتی ہے۔ یہی نہیں، طلبہ نے ایسی موبائل ایپلی کیشن بھی پیش کی، جو آرٹی فیشل انٹیلی جینس کا استعمال کرتے ہوئے غذائی اور ورزش کا پلان تیار کرسکتی ہے۔ طلبہ نے ایک ایسا مینیجمنٹ سِسٹم، ایک ایسی ایپ بھی بنائی ہے، جوکرائے دار اور مکان مالک کے مابین پیسوں کے لین دین کا حساب رکھنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
پیٹرول کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے پیشِ نظر خیال کیا جارہا ہے کہ جلد ہی دنیا بھر میں بجلی سے چلنے والی گاڑیوں کا استعمال عام ہو جائے گا، جسے مدّنظر رکھتے ہوئے اسرٰی یو نی وَرسٹی، حیدرآباد کے طلبہ نے ایک ’’الیکٹرک وہیکل‘‘ کا ماڈل تیار کیا، جو کہ ابھی پروٹو ٹائپ ہے۔ نمائش میں یہ بھی بتایا گیا کہ این ای ڈی یونی وَرسٹی کے شعبۂ کیمیا میں شکر بنانے کے دوران فاضل مادّہ ( sugarcane wax)نکال کر اس کے استعمال پہ تحقیق کی جارہی ہے اور کارآمد نتائج آنے کی صُورت میں بائی پراڈکٹ کی صنعت لگا کر ملکی اور معاشی فائدہ حاصل کیا جاسکے گا۔
اسی شعبے کے تحت آئل کو پانی سے الگ کیے جانے کے منصوبے پر بھی کام کیا جا رہا ہے۔ اسی طرح آئی بی اے، سکھر نے ’’ائیر مانیٹرنگ الرٹ سسٹم‘‘ ڈیزائن پیش کیا، جس سے ہوا میں موجود میتھین،کاربن ڈائی آکسائیڈ، امونیا کی سطح، درجۂ حرارت اور نمی کی پیمائش کی جاسکے گی، جو مُلک بھر کی آب و ہوا بہتر کرنے میں معاون ثابت ہوگا۔ سندھ مدرستہ السلام کے طلبہ نے ’’ہائی وے ایپ‘‘’’فصلوں کی بیماری پتا لگانے والی ایپ‘‘ اور ’’آپ کی کیئر ایپ‘‘ پیش کیں۔’’ہائی وے ایپ، ایک جی پی ایس اپیلی کیشن ہے ، جس سے سیاحوں اور مسافروں کو قریبی مقامات تلاش کرنے میں مدد ملے گی۔ فصلوں کی بیماری پتا کرنے والی ایپ، آرٹی فیشل انٹیلی جینس پر مبنی اینڈ رائیڈ ایپلی کیشن ہے،جس کی مدد سے فصلیں محفوظ بنائی جاسکتی ہیں، جب کہ ’’آپ کی کئیر ‘‘ ایپ مریضوں کی میڈیکل ہِسٹری محفوظ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
نمائش کے دونوں روز سندھ بھر کی جامعات سے شرکا ءکی آمد کا سلسلہ جاری رہا۔ نیز، مختلف جامعات کے وائس چانسلر ز سمیت اساتذہ،سیاسی وسماجی شخصیات نے بھی بھر پور شرکت کی۔ اس موقعے پر اساتذہ اور طلبہ کا کہنا تھا کہ ’’اس طرح کی نمائشوں سے ہماری حوصلہ افزائی ہوتی ہے اور ٹارگیٹ مارکیٹ تک پہنچنا بھی آسان ہوجاتا ہے۔ نمائش میں محمد علی جناح یونی ورسٹی کی طالبہ، حسنہ نے پرسنیلیٹی ٹیسٹ کی بدولت شرکاء کی توجّہ اپنے اسٹال کی جانب مبذول کروائے رکھی، تو دوسری جانب روبوٹس نے بھی اپنے کمالات دکھائے۔ یوں پاکستانی نوجوانوں کی نت نئی ایجادات سے سجی اس بزم کا اختتام اس عزم و ارادے کے ساتھ ہوا کہ اس طرح کی نمائشوں کا سلسلہ جاری رکھا جائے گا، تاکہ ہمارے مُلک کے معماروں کو اپنی صلاحیتیں سامنے لانے کا موقع بھی ملے اور ان کی حوصلہ افزائی بھی ہو۔