ایمان صغیر
موجودہ دور اگرچہ ترقی کا ہے، لیکن ترقی کے ساتھ آج کے انسان کو آلودگی تحفے میں ملی ہے۔ چناں چہ جدید دور کا انسان آلودہ ماحول میں زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ اسی وجہ سے وہ بے شمار بیماریوں کا بھی شکار ہورہا ہے۔آلودہ ماحول انسان کی زندگی کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ ہم سب کچھ جانتے ہوئے بھی اسے روکنے کے لیے موثر اقدامات نہیں کر رہے ہیں۔
درختوں کی کٹائی ،کوڑے کرکٹ کا ڈھیر ،فیکٹریوں ، گا ڑ یوں اور بسوں کا دھواں، سمندروں، نہروں اور ندی نالوں میں فیکٹریوں کے گندے پانی کی نکاسی،یہ سارے کام انسان ہی کررہے ہیں۔ درخت کاٹ کر انسان خود ہی آکسیجن کی کمی کے مسائل کا شکار ہورہا ہے اوردن بہ دن ماحولیاتی آلودگی میں بہت تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔ ماہرین ماحولیات کے مطابق ان حالات پر قابو پانا نہ صرف انسان بلکہ برّی اور بحری جان داروں کی زندگی کے لیے بھی ضروری ہے ۔
آج سمندروں میں بڑھتی ہوئی آلودگی کے سبب آبی حیات تیزی سے موت کا شکار ہورہی ہے اوراس کی متعد د اقسام ناپید بھی ہوگئی ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق ہر سال کئی سوآبی پرندے ،مچھلیاں اور کچھوے سمندر میں پھینکی جانے والی پلاسٹک کھانے سے مر جاتے ہیں۔ ماہرین کے اندازے کے مطابق تقریباً 34 فی صد آبی جان د ا ر 86 فی صد سمندری کچھوے اور44 فی صد آبی پرندوں کے پیٹ میں پلاسٹک پایا جاتا ہے۔
کیسپین سی(Caspian sea) میں گرنے والا 60 فی صد گندا پانی صاف کیے بغیر ہی سمندر میں شامل ہو رہا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق روزانہ پانچ سو ملین گیلن اور صنعتوں سے خارج ہونے والا 97 فی صد تک گندا پانی نالوں اور دریاؤں کے ذریعے سمندر کا حصہ بن رہا ہے۔
پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کا 28 فی صدگندا پانی صاف کیے بغیر ہی سمندر کی نذر کیا جارہا ہے۔ پاکستان کی سمندری حدود میں آلودگی کی سب سے بڑی وجہ، پلاسٹک مچھیروں کی جانب سے پھینکی جانے والی مردہ مچھلیاں،جہازوں اور لانچوں کا بہنے والا گندا تیل اور فیکٹریوں سے نکلنے والا فضلہ ہے۔
ماحولیاتی ماہرین کی تحقیق سے معلوم ہواہے کہ مصنوعی مرکبات سے تیار شدہ کپڑوں کی دھلائی کے دوران ان سے خارج ہونے والے پلاسٹک کے باریک ذرّات سمندروں میں جمع ہو کرغذائی چین میں شامل ہوجاتے ہیں۔ ماہرین نے سمندروں سے ملنے والے پلاسٹک کے ان باریک ذرّات کا منبع بھی تلاش کیا ہے۔
ان کے مطا بق اس کی سب سے بڑی وجہ مصنوعی مرکبات سے تیار ہونے والے کپڑے ہیں ۔سنتھیٹک یا مصنوعی مرکبات سے تیار ہونے والے کپڑے ہر دھلائی میں ایک ہزار نوسو باریک فائبر کے ذرّات خارج کرتے ہیں ۔چند سال قبل کی گئی ایک تحقیق کے مطابق انسانی زندگی میں پلاسٹک کی مصنوعات کا استعمال بہت زیادہ ہونے کی وجہ سےا س کے ایک ملی میٹر سے بھی چھوٹے ذرّات جانوروں کی خوراک میں شامل ہورہے ہیں۔
ماحول کے تحفظ کے لیے کام کرنے والوں نے خبردار کیا ہے کہ گاڑیوں کے ٹائروں کے باریک ذرّات سمندر میں شامل ہو کر اسے آلودہ کر رہے ہیں ۔ان کا کہنا ہے کہ ٹائروں اور مصنوعی کپڑوں سے پھیلنے والی اس آلودگی کا حل مشکل ہے۔آئی یو سی این کا کہنا ہے کہ ٹائروں اور ٹیکسٹائل سے نکلنے والے پلاسٹک کے باریک ذرّات سمندری آلودگی کی بڑی وجہ ہیں۔
ایک رپورٹ کے مطابق سمندروں میں پہنچنے والے پلاسٹک کا 30 فی صد حصہ اِن باریک ذرّات سے آتا ہے نہ کہ پلاسٹک کے بڑے ٹکڑوں سے۔ ماہرین کے مطابق رگڑ کھاکر علیحدہ ہونے والے ٹائروں کے ذرّات اور مصنوعی اجزا سے بنے ہوئے کپڑے سمندری آلودگی کی بڑی وجہ ہیں۔ آئی یو سی این نے دنیا کے سات خطوں سے اعداد و شمار اکٹھے کیے ہیں، تاکہ معلوم کیا جا سکے کہ ہر سال سمندر میں شامل ہونے والے 95 لاکھ ٹن پلاسٹک کے تازہ کچرے میں باریک ذرّات کی مقدار کتنی ہے۔
رپورٹ کے مطابق 15 سے 30 فی صد تک پلاسٹک کی آلودگی ان باریک ذرّات کی وجہ سے ہوتی ہے جو مذکورہ کپڑوں اور گاڑ یو ں کے ٹائروں سے نکلتے ہیں۔تحقیق کے مطابق مصنوعی مرکبات سے تیار شدہ کپڑوںسےنکلنے وا لے پلاسٹک کے ذرّات سمندر میں ایشیا کے علاقوں سے زیادہ شامل ہوتے ہیں۔
آئی یو سی این کے سمندروں سے متعلق پروگرام کے ڈپٹی ڈائریکٹر فرانزیکو سمرڈ کا کہنا ہے کہ یہ نتائج حیران کن ہیں۔ ہم نے پایا کہ زیادہ تر پلاسٹک کے باریک ذرّات یا تو کپڑوں سے آتے ہیں یا ٹائروں سے۔ یہ باریک ذرّات سمندر میں ہر طرف جا رہے ہیں، ہماری خوراک میں بھی، پلاسٹک کےاس پھیلاؤ کو روکنا ہوگا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ٹائروں اور مصنوعی کپڑوں سے پھیلنے والی اس آلودگی کا حل نکالنا مشکل ہے۔
جدید دور میں کھانے پینے کی اشیا کو پلاسٹک کے ڈبوں، بوتلوں اور پیکٹس میں پیک کرنے کے رجحان میں مسلسل اضافہ ہورہاہے۔ ماحولیاتی ماہرین کے مطابق پلاسٹک کا یہ کوڑا کرکٹ نہ صرف ہماری زمین بلکہ سمندروں کو بھی آلودہ کر رہا ہے ، جس سے آبی حیات کے لیے خطرات بڑھ رہے ہیں۔ امریکی ریاست کیلی فورنیا کا ایک ادارہ یہ مسئلہ حل کرنے کی کوشش کررہا ہے۔تحقیق کے مطابق سمندروں میں پانچ مقامات ایسے ہیں جہاں دنیا میں ضا ئع کیا جانے والا بیش ترپلاسٹک جمع ہو تا ہے۔
یہ پلاسٹک استعمال کرنے کے بعد کوڑے میں ڈال دیا جاتا ہے یا ندیوں اور دریائوں میں بہا دیا جاتا ہے۔ چوں کہ پلاسٹک پائے دار مادّہ ہے، اس لیےیہ بحری ماحول کے لیے مسائل پیدا کرتا ہے۔ یہ پانی میں حل ہوتا ہے اورنہ بحری جان دار اس سے غذا حاصل کرسکتے ہیں۔ چناں چہ یہ کئی برس تک اسی طرح سمندر میں پڑا رہتا ہے اور آہستہ آہستہ پورے سمندر میں پھیل جاتاہے۔ تھیلے، بوتلیں، برتن، کھلونے، آج کل کون سی ایسی شئے ہے، جو پلاسٹک سے تیار نہیں کی جاتی۔
یہ مادّہ دُنیا بھر میں تقریباً ایک سو سال سے استعمال ہو رہا ہے لیکن اِس سے قدرتی ماحول کو بھی کافی بڑے پیمانے پر نقصان پہنچ رہا ہے۔ اِس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ پلاسٹک کے گل سڑ کر ختم ہونے کا عمل کہیں ساڑھے چار سو برس میں جا کر مکمل ہوتا ہے۔ ہماری زمین کے خشکی پر مشتمل حصے پر تو ہر طرف پلاسٹک کی مصنوعات کا کوڑا کرکٹ نظر آتا ہی ہے، لیکن اب عالمی سمندروں میں بھی پلاسٹک کے کوڑے کرکٹ کے بڑے بڑے ڈھیر تیرتے ہوئے نظر آنے لگے ہیں۔
دُنیا بھر میں سالانہ 240 ملین ٹن پلاسٹک تیار ہوتا ہے، تاہم اِس سے پیدا ہونے والے کوڑے کو ری سائیکل کر کے دوبارہ قابلِ استعمال بنانے کے بجائے یہ کوڑا ٹنوں کے حساب سے سمندر میں پھینک دیا جاتا ہے۔ دنیا بھر میں ہر سال تیار ہونے والے تین سو ملین ٹن پلاسٹک کی دَس فی صد مقدار کوڑے کرکٹ کی شکل میں سمندروں میں پہنچ جاتی ہے۔ پلاسٹک کے تھیلے یا پھر کاروں کے ٹائروں کے ربڑ کی گرد اُڑ کر سمندروں تک پہنچ جاتی ہے۔ جرمنی کی یونیورسٹی آف اولڈن برگ کے محققین نے کچھ عرصہ قبل ایک انوکھے منصوبے کا آغاز کیا تھا۔
اس منصو بے کا مقصد یہ پتہ چلانا ہے کہ پلاسٹک کا کوڑا کرکٹ کہاں سے آتا ہے اور پانی میں اس کے بہاؤ کی نوعیت کیسی ہوتی ہے۔ مختلف موٹائی کے حامل آٹھ سو چھوٹے چھوٹے چوبی بلاک جرمن ساحلوں سے بحیرہٴ شمالی میں چھوڑے گئے۔ ہر بلاک پریہ پیغام لکھا ہے کہ جسے بھی جہاں بھی یہ چوبی بلاک ملیں وہ ایک مخصوص ویب سائٹ کو اس بلاک کے ملنے کے مقام اور وقت سے مطلع کرے ۔ 2018ء تک جاری رہنے والے اس منصوبے کے دوران مجموعی طور پر ایک لاکھ چوبی بلاک چودہ مختلف مقامات سے دریاؤں اور سمندروں میں چھوڑے گئیں۔
اس منصوبے کے روحِ رواں روزانا شوئنائش آرگینٹ کے مطابق ہر چوبی بلاک کو ایک نمبر دیا گیا ہے۔ جیسے جیسے لوگوں کو یہ بلاک ملتے جاتے ہیں، ویسے ویسے ہم درج کرتے چلے جاتے ہیں کہ فلاں بلاک کہاں اور کس وقت ملا۔ کسی ایک مقام پر بہت سے چوبی بلاک ایک ساتھ ملنے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ موجیں اور ہوا کا رُخ اُنہیں دھکیل کر وہاں لے گئے ہیں۔ پھر محققین موقعےپر جا کر جانچ پڑتال کرتے ہیں کہ آیا وہاں پلاسٹک کا کوڑا بھی جمع ہے۔ ایسا ہو تو پھر یہ پتا چلانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ وہ کوڑا آیا کہاں سے ہے۔ پھر ذمے داروں کے ساتھ جا کر مسئلے کے حل پر بات کی جاتی ہے۔
فلوریان ہاہنرکے بہ قول کئی فیکٹریز بھی اس منصوبے میں تعاون کر رہی ہیں۔پلاسٹک بُری چیز نہیں ہے۔ ہم لوگوں کو بس یہ بتانا چاہتے ہیں کہ وہ استعمال کے بعد اسے پھینکیں نہیں بلکہ دوبارہ استعمال میں لائیں۔ پانی میں پلاسٹک کی ایک بوتل کی باقیات اندازاً ساڑھے چار سو سال تک موجود رہ سکتی ہیں۔ پلاسٹک کا کُوڑا باریک سے باریک تر ذرّات میں بدل کر سمندری حیات کی خوراک بنتا ہے اور نہ صرف مچھلیوں اور دیگر سمندری جان داروں کو نقصان پہنچاتا ہے بلکہ بالآخر خود انسانی صحت کے لیے بھی مُضر ثابت ہو سکتا ہے۔
دوسری جانب ایک اندازے کے مطابق ہر سال 12 ملین میڑک ٹن سمندری پانی پیٹرولیم اور تیل کے ٹینکرزکی وجہ سے آلودہ ہوجاتاہے، جس کی وجہ سے سمندری آلودگی میں روز بہ روزاضافہ ہو رہا ہے۔ سمندر کی شکل میں دنیا کے تین حصوں پر مشتمل پانی کا ذخیرہ،جو انسانی ِزندگی کےلیے نہایت ضروری ہے، خاموش تباہی کی سمت بڑھ رہا ہے۔
علاوہ ازیں عالمی سطح پر بڑھتی ہوئی حِدّت کے سبب سطح سمندر میں نمایاں تبدیلیاں محسوس کی جارہی ہیں، جن سے نہ صرف جزائر کو خطرات لاحق ہیں بلکہ دنیا بھر میں سمندر کی وجہ سے زمینی کٹاو کے سبب سمندروں کے کنا رے وا قع آبادیوں کے لیے بھی مسائل پیدا ہوگئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بحیرہ عرب خشکی کی جانب بڑھ رہا ہے۔