• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مجھے انگریزی اتنی واجبی آتی تھی، جتنی کسی بھی ٹاٹ اسکول کے چَھٹی جماعت کے طالب علم کو آتی ہے، مگر کتابوں کا ایسا لالچ ہوتا تھا کہ انگریزی رسائل سے مفہوم کشید کرہی لیتا تھا۔ اسی طرح فیروزسنز سے بھی کتابیں خریدتا تھا۔ اس کی کتابیں منہگی، مگر دیدہ زیب ہوتی تھیں اور مجھے اُنھیں خریدنے کے لیے خاصی بچت کرنا پڑتی تھی۔ راول پنڈی میں اتوار کے روز تمام دکانیں بند ہوتی تھیں، تاہم باؤمحلہ، کوئلہ گودام اور ریلوے اسٹیشن کی دکانیں کھلی ہوتی تھیں۔ کینٹ سے آزاد کشمیرکے لیے اِکّادُکّا بسیں چلاکرتی تھیں۔ میسی گیٹ سے باغ، آزاد کشمیر کے لیے روزانہ بس سروس چلتی تھی۔ 

اتوار والے روز میسی گیٹ، بینک روڈ پر پرانی کتابوں کا بازار سجتا تھا۔ یہ اپنی وسعت اورتنوّع میں پاکستان کا سب سے بڑا کتاب بازار تھا۔ وہاں چاروں طرف کتابیں دَھری ہوتی تھیں، جن میں ادبی رسالے ’’نقوش‘‘ سے لے کر آرایش اور ڈیکور کے امریکی رسالے اور ادبی کتب سے لے کر قلمی دوستی کے رسالے تک مل جاتے تھے۔ وہاں اتنی زیادہ تعداد میں کتابیں ہوتی تھیں کہ مطلوبہ کتاب ڈھونڈنا تُوڑی میں سوئی تلاش کرنے کے مترادف تھا۔‘‘ اسحاق نُورتوقف کرکے گویا ہوئے۔ ’’مَیں جب چَھٹی جماعت میں تھا، تو پاکستان ٹائمز پڑھنے کی کوشش کرتا تھا۔ مجھے سب سے زیادہ انتظار اتوار کے ایڈیشن میں بچّوں کے صفحے کا ہوتا تھا۔ اس میں ایک پوراکالم قلمی دوستی کا ہوتا تھا، جس میں پتے درج ہوتے تھے اور اس کے ساتھ کُوپن بھی ہوتا تھا۔ 

اس کُوپن کو پرُکرکے بھیجا جاتا تھا۔ اخبارمنتخب کوپنوں سے نام، پتے اور مشاغل اس کالم میں شائع کردیتا تھا۔ ایک مرتبہ مَیں نے کوپن بھرکر بھیجا تو مہینے بھر بعد میرا نام اور مشاغل وغیرہ بھی شائع ہوئے۔ مَیں اتنا خوش ہوا کہ دوستوں اور محلّے داروں کو وہ کالم دکھاتا پھرا اور وہ مجھے رشک کی نگاہوں سے دیکھتے رہے۔ اس اشاعت کے ایک مہینے بعد مجھے ایک جرمن لڑکی کا خط ملا، جو فرینکفرٹ میں رہتی تھی۔ وہ خط انگریزی میں تھا۔ مَیں نے تگ ودو کے بعد وہ خط پڑھ تولیا لیکن اُس کا جواب لکھنے کے لیے میٹرک کے ایک لڑکے کی مدد حاصل کرنا پڑی۔ بعد ازاں، مَیں نے وہ جواب اپنے ہاتھ سے ایک پوسٹ کارڈ پرنقل کرکے پوسٹ کردیا۔ چند خطوط کا تبادلہ ہوا، جس کے بعد یہ سلسلہ منقطع ہوگیا۔‘‘

اگر اسحاق نُور کو مطالعے کا شوق نہ ہوتا تو وہ اپنے دیہی پس منظر اور نچلے درجوں میں پاس کردہ امتحانات کے باعث ایک خاص سطح سے بلند نہ ہو پاتے۔ حد یہ ہوتی کہ وہ دست شناسی اور علمِ نجوم پر مہارت حاصل کرکے فقط ایک نجومی کی حد تک رہ جاتے۔ ان کے وزیروں، مشیروں، صدور، جرنیلوں اور اعلیٰ کاروباری طبقے تک قائم تعلقات میں مطالعے سے شخصیت میں پیدا شدہ نکھار اورمختلف امور و علوم پرمہارت نے خاص بلکہ موثر ترین کردار ادا کیا۔ بےشک، وسعت مطالعہ شخصیت میں انقلاب لاتا ہے۔ یہاں ذہن قابلِ احترام شاعر، احسان دانش کی جانب چلا جاتا ہے، جو دِن بھر مزدوری، راج گیری کرتے اور شام کو مطالعہ۔ 

اُنھوں نےاُس پنجاب یونی ورسٹی کا ایک تدریسی بلاک اپنے ہاتھوں سے تعمیر کیا تھا، جس میں بعدازاں اُنھیں مہمانِ خصوصی کے طور پر بھی مدعوکیا گیا۔ اُن کی شاعری، خودنوشت’’جہانِ دانش‘‘ اور اُردومترادفات پرمرتب کردہ کتاب خاصّے کی چیزیں ہیں۔ اسی طرح معروف بھارتی فلمی شاعر، ہدایت کار اور کہانی نویس گُل زار(سمپورن سنگھ کالرا) نے بھی اپنی عملی زندگی کا آغاز کپڑے کی دکان اور موٹر میکینکی سے کیاتھا۔ اُنھیں بھی مطالعہ اور فطری خوبی مقامِ ارفع تک لے گئی۔ بہرحال، ایسی مثالیں جہاں مطالعے کی اہمیت واضح کرتی ہیں، وہیں اُسی دَورمیں عام آدمی میں ذوقِ مطالعہ اور اس کے معیار کی نشان دہی بھی کرتی ہیں۔ 

یہاں ایک اورمثال برَمحل ہے۔ سڑک پر چلتے عام آدمی کی پسند کا ایک پیمانہ اُس کے دَور کی فلموں، مکالمات اور گیتوں کا معیار ہوتا ہے۔ اُس دَور کے فلمی گیت ہی دیکھ لیجیے کہ عام آدمی کا ذوق کیا تھا، اور وہ کس معیار کی شاعری پسند کرتا تھا۔ پاکستان کی سیاسی قیادت میں مفتی محمود، مولانا ابوالاعلیٰ مودودی، نواب زادہ نصر اللہ خان، اصغر خان سے لے کر ذوالفقار علی بھٹّو تک کا ذوق مطالعہ اور تحریروتالیف کا معیار ہی دیکھ لیاجائے، توتب کی سیاسی قیادت کے ذہنی اُفق کی نشان دہی ہوجاتی ہے۔ اسحاق نُور بھی اُسی دور کی پیداوار، ایک عام آدمی تھے۔ 

مکتبی لحاظ سے وہ خاص کام یاب نہ ہوپائے اور میٹرک بھی بمشکل ہی کیا، جس کی وجہ سے اُنھیں پولی ٹیکنیک انسٹی ٹیوٹ میں داخلہ نہ مل سکا اور وہاں داخلہ نہ ملنا اُن کی زندگی کے سب سے بھرپور اوررنگین دَور کا باعث بن گیا۔ اُنھیں کسی نے بتایا کہ لاہور میں واقع ایم اے اوکالج میں کم نمبر والوں کو بھی داخلہ مل جاتا ہے، لیکن یہ مسئلہ آن پڑا کہ ان کے والدین، جواُنھیں غربت کے باعث گجرات میں بھی تعلیم نہیں دلوا سکتے تھے، اُن کی لاہور میں تعلیم اور اس پر مستزادسکونت کے اخراجات کس طرح اٹھاپائیں گے۔ 

کالج کی فیس زیادہ نہ تھی، محنت مشقّت کرکے ادا کی جاسکتی تھی، اصل مسئلہ سکونت اور خوراک کے اخراجات تھے۔ انسان قدم اٹھائے تو اللہ سَو رستے نکال دیتا ہے۔ اسحاق نُورکو ایم اوکالج میں داخلہ مل گیا۔ وہاں معاشی تنگی کے باعث کبھی وہ کلاس اٹینڈ کرتے، تو کبھی کام کاج کی تلاش میں نکل جاتے۔ کالج کے سامنے کھانے کا ایک ڈھابا تھا، جو ساری رات کُھلا رہتا اوروہاں شب بھرخُوب رونق لگی رہتی۔ اسحاق نے سحری کے وقت چوبرجی میں لگے میونسپلٹی کے ایک نلکے سے سخت سردیوں میں ٹھنڈے یخ پانی سے رکشے دھونے شروع کردیے۔ 

اس سے گزر بسرتو ہونے لگی، لیکن نیند کی کمی اورتھکاوٹ کی وجہ سے تعلیم نظر انداز ہونے لگی۔ اس کے علاوہ انھوں نے موسیٰ پاک ٹرین پر ریوڑیاں بیچنی شروع کردیں۔ وہ ریل پر اوکاڑہ تک جاتے اوروہاں سے دوسری گاڑی پکڑ کر واپس آجاتے۔ یہ بھی ایسا کام تھا، جس سے کالج کی تعلیم متاثر ہوتی تھی، سو نسبت روڈ پر واقع کباڑخانے سے پرانے ڈائجسٹ لے کر انارکلی میں فٹ پاتھ پربیچنے شروع کردیے۔ رہایش کا انتظام اس کے باوجود نہ ہوسکا۔ رات گزارنے بادشاہی مسجد کے سامنے حضوری باغ چلے جاتے۔ اندرونِ لاہور میں گھٹن سے تنگ آئے لوگ بھی اپنے خاندانوں کے ساتھ حضوری باغ چلے آتے تھے۔ 

حضوری باغ میں گرمیوں کی راتوں میں مچھر اتنا تنگ نہ کرتے تھے، جتناپولیس تنگ کرتی تھی۔ وہ رات کو باغ میں سوتےافراد کو ٹھوکریں مارکر اٹھادیتی تھی۔ بہت بعد میں مَیں نے ایران میں ایک مشاہدہ کیا کہ لوگ باگ، خاندان کے خاندان باغوں میں راتیں گزارتے ہیں اور اُنھیں ریاست تحفّظ دیتی ہے۔ وہاں لوگ باغوں میں پکنک مناتے ہیں اور راتوں کوسو بھی جاتے ہیں۔ کوئی اُن کی جانب نظر بھی نہیں کرتا۔ بلکہ بعض اوقات تو ایسا بھی ہوتا ہے کہ کوئی ملزم پولیس سے بچتا ہواباغ میں داخل ہوجائے تو پولیس اسے پکڑنے کے لیے باہر انتظارکرتی رہتی ہے۔ بھلے اس میں خاصا سمے بیت جائے۔

ایک مرتبہ اسحاق نُور بادشاہی مسجد کے سامنے باغ میں سوئے ہوئے تھے۔ اُنھوں نے اپنی قمیص تکیہ بنا کر سر کے نیچے رکھی ہوئی تھی۔ گرمیوں کے دن تھے اور آدھی رات کا وقت۔اچانک اُنھیں پولیس اہل کارکی زور دار ٹھوکر لگی تو وہ اپنی قمیص وہیں چھوڑکر بھاگ لیے۔ خاصی دیر بعد وہ وہاں آئے تو قمیص ندارد۔ سو، وہ بغیر قمیص کے گھومتے رہے، یہاں تک کہ لنڈےسےایک بیوپاری کی منّت سماجت کرکے فوجیوں کی پرانی استعمال شدہ قمیص لی۔ اُن کے دن یوں ہی گزرتے رہے۔ اس دوران اُنھوں نے کوپر روڈ پر برتن دھونے کا کام کیا، گڑھی شاہومیں ایک باورچی کی معاونت کی اور ٹیکنیشن کے طور پر بھی کام کیا۔ 

رمضان کا مہینہ آیا تو کالج کے ایک پروفیسر نے اُن کی مشکلات دیکھتے ہوئے اُنھیں دعوت دی کہ وہ سحری اُن کے گھر کرلیا کریں، سو وہ شاہ نور اسٹوڈیو کے پاس واقع ان کے گھر سحری کھانے جانے لگے۔ وہیں سے انھوں نے شاہ نور اسٹوڈیو جانا شروع کردیا۔ وہاں وہ فلموں کی شوٹنگ دیکھتے اور فلم میں کام ملنے کے چانس کے منتظر رہتے۔ اُنھیں فلم ’’الزام‘‘ میں ایک گانے کی فلم بندی کے دوران کلب میں بیٹھنے کا موقع ملا۔ اُنھوں نے ایک پنجابی فلم ’’سردھڑ دی بازی‘‘ میں بطور ایکسٹرا، لڑائی میں حصہ بھی لیا۔ یوسف خان کی فلم ’’بابل‘‘ میں ثانوی کردار اداکیا، کئی اداکاروں سے علیک سلیک ہوگئی اور جلد ہی فلموں میں کام کرنے کا سر پر سمایا سودا اُترگیا۔ 

فلموں میں کردار ادا کرنےمیں دل چسپی توختم ہوگئی، مگر کرشن چندر اور منٹو کے افسانوں کی وساطت سے افسانوی کرداروں کے بارے میں تجسّس گہرا ہوگیا اور اُن میں دل چسپی خاصی بڑھ گئی۔ وہ لاہور کی ثقافتی زندگی میں پوری طرح داخل ہوگئے۔ ایک روزانھوں نے’’مشرق‘‘ اخبار میں اشتہار دیکھا کہ ایک میڈیکل اسٹور پرکاؤنٹر سیلزمین کی ضرورت ہے۔ وہ میڈیکل اسٹورلبرٹی مارکیٹ، گلبرگ میں واقع تھا۔ اس کا نام غالباً ہیلتھ اسپاٹ تھا۔ اسٹور کے مالک میاں بیوی نے اُنھیں ملازم رکھ لیا۔ اسٹور کے ساتھ کتابوں کی ایک دکان تھی، جہاں اسحاق کتابیں خریدنے یا ان کی ورق گردانی کے لیے چلے جایاکرتے تھے۔

اُس کے قریب گوگو کافی شاپ بھی تھی اسحاق وہاں جا بیٹھتے تھے۔ میڈیکل اسٹور چوبیس گھنٹے کُھلا رہتا تھا۔ سو، اُن کی ڈیوٹی رات کو لگا دی گئی۔ مالکان کی دو چھوٹی بیٹیاں تھیں۔ اسحاق کی ڈیوٹی میں اُنھیں سرِشام سامنے والی مسجد کے برابر گراؤنڈ میں جھولے دِلانا بھی شامل تھا۔ اتوار کو چُھٹی ہوتی تھی۔ اُس روز اسحاق گجرات چلے جایا کرتے تھے۔ اسحاق نے تنگ دستی میں وقت گزارا تھا۔ اُن میں ایک عادت راسخ ہوچُکی تھی کہ وہ میرے ساتھ ہونے والی نشستوں میں فلم کی ٹکٹ کی قیمت، ویگن کے کرائے سے لے کر روٹیوں کے ساتھ ملنے والی مفت دال کا زمانی اعتبار سے حساب بھی بتاتے جاتے تھے۔ آگے اُن کی زبانی اُن کی زندگی کی کہانی کچھ یوں ہے۔ ’’مَیں دس روپے میں گجرات کا چکر لگا آیا کرتا تھا۔ 

اُن دِنوں برکی سے بادامی باغ کا رکشے کا کرایہ دو روپے پینتیس پیسے بنتا تھا، لاہور سے گجرات کا بس کاکرایہ سوا دو روپے تھا۔ اس اسٹور پر زیادہ تر فلمی اداکار آیا کرتے تھے، جن میں نمایاں فلم ایکٹر سدھیر اور اداکارہ نبیلہ تھے۔ دونوں اکٹھے آیا کرتے تھے۔ اُن دنوں ان دونوں کا رُومان خاص وعام کی زبان پر تھا۔ یہ فلم ایکٹر نبیلہ وہی تھی، جس نے سعادت حسن منٹو کی تحریر پر بنائی گئی فلم ’’بدنام‘‘سے شہرت حاصل کی تھی۔ وہ اسٹورسےنشہ آور گولیاں لیتی تھی۔ اُن دنوں نشے کے لیے مینڈرکس کا استعمال عام تھا۔ نبیلہ پر ’’بدنام‘‘ فلم میں مشہور زمانہ گانا ’’بڑے بے مروّت ہیں یہ حسن والے…‘‘ فلمایاگیا تھا اور یہی اُس کی وجہِ شہرت بنا۔ 

اسٹور کی مالکن ذرا تنک مزاج تھی۔ مجھے عموماًڈانٹا کرتی تھی۔ مجھے سیلزمین کم اور گھر کا ملازم زیادہ سمجھتی تھی۔ چوں کہ اُن کی اقامت دکان کے اوپر ہی تھی، اِس لیے بعض اوقات گھر کا کام کرنے کے لیے اپنے فلیٹ میں بھیج دیا کرتی اور مَیں برتن دھونے کے علاوہ جھاڑو پونچھا بھی کر آیا کرتا۔ جَلدمیرا دل وہاں سے بھی اُکتا گیا۔ پھر میں نے چوبرجی پر واقع ایک اور میڈیکل اسٹور پر انٹرویو دیا۔ اُس اسٹور والے نے چند دن دکان پر رکھ کر میری قابلیت کو آزمایااور پھرمجھے ایک میڈیکل اسٹور کےسیٹ اَپ کی ذمّے داری سونپ دی۔ اس اسٹور کی تمام خریداری مَیں نے اندرون شہرواقع میڈیسن کی ہول سیل مارکیٹ سے کی۔ 

مَیں نے اسٹور بڑی کام یابی سے چلایا۔ اسٹور پر مشہور نیورو سرجن، ڈاکٹر رشید چوہدری کے مریض ڈاکٹری نسخے لے کر آتے تھے اور دوا لے کر جاتے تھے۔ پیچھے شاہ جمال کی آبادی تھی، جس کا شمار لاہور کے پوش علاقوں میں ہوتا تھا۔ اِسی آبادی میں فلم ایکٹریس، صبیحہ سکونت پذیر تھی اور فلم ایکٹریس، نیّرسلطانہ کا بھی گھر تھا۔ مَیں عموماً شاہ جمال کے مزار پر جاتا تھا اوررات وہیں گزارتا تھا۔ وہاں کا ماحول بڑا عجیب سا تھا، جو مجھے بہت اچھا اور پُرسکون لگتا۔ اُس دربار کے کونے پر کچھ چرسی موالی قسم کے نوجوانوں کی ٹولی بیٹھا کرتی تھی۔ وہاں نہ صرف چرس چلتی بلکہ سلفیوں کے کش بھی لگائے جاتے تھے۔ مَیں بھی اس ماحول کا حصّہ تھا۔ چرس اور سلفیوں کی لاٹ سے یہ گوشہ ایک عجیب ماحول پیش کرتا تھا، جسے مَیں بیان نہیں کرسکتا۔ وہاں پر باری باری اُردو، پنجابی گانے بھی گائے جاتے، اور زیادہ تر منظور جھلّا کے گانے۔‘‘

ایک اورگفت گومیں اُنھوں نے میڈیکل اسٹورز میں ملازمت کے حوالے سے اپنی تربیت کے علاوہ چند تجربات کا بھی تذکرہ کیا۔ ’’لاہور میں قیام کے دوران بیچ بیچ میں مَیں گجرات بھی چلاجاتاتھا۔ اپنے آبائی شہر میں ایک میڈیکل اسٹور پر جھاڑ پونچھ کا کام کرتا تھا اور کام بھی سیکھتاتھا ۔ یہ اسٹور ڈسٹرکٹ سول اسپتال کے پڑوس میں تھا۔ یہاں پہ دیگر میڈیکل اسٹور والے بھی تھے۔ ہم سائے میں واقع اسٹور والا روزانہ مجھے ایک آنہ دیتا تھا کہ مَیں فلاں بازار سے ڈاکٹر سے ایک بوتل لے آؤں۔ اس بوتل کو ٹنکچر کی بوتل کہتے تھے، جس کو عام طور پرکُپّی کہا جاتا ہے۔

 وہ دراصل ایتھائل الکحل،خالص شراب ہوتی ہے،جسےگڑکا خمیر اُٹھا کرعملِ کشید (Distillation) سے گزارکر تیار کیاجاتا ہے۔ مجھےاندازہ تو ہوگیا تھا کہ یہ شراب ہے۔ مَیں راستے میں بوتل کا کارک کھول کر انگلی ڈبوکرچکھتا تھا اوریہ عمل راستے میں بار بار کرتا تھا۔ مجھے آج بھی اس ٹنکچر کی کڑواہٹ اور گلے کی جلن یاد ہے۔ اس طرح بارہ سال کی عُمر میں مَیں نےشراب کا ذائقہ چکھا۔ میرا محلّہ ویسے تو محنت کشوں کا محلّہ تھا، لیکن اِس میں ایک دو گھرانے غیروں کے تھے۔

اُن میں ایک گھرانا شراب فروخت کرتا تھا، حالاں کہ سٹی تھانہ قریب ہی تھا۔ ٹنکچر پی کرمنہ میں چھالے بھی پڑجاتے تھے۔ لوگ اس کے پاس جاتے تھے، وہ کھڑے کھڑے بوتل سے ایک آدھ گلاس بھر کر دے دیتا اور سوا روپے وصول کرلیتا۔ اس آدھے گلاس کو ایک گھونٹ میں فوراً ختم کرنا ہوتاتھا۔ اُسے معلوم تھاکہ میں کس کا بیٹا ہوں اور کس برادری سے تعلق رکھتاہوں پھر بھی وہ مجھے شراب دے دیا کرتاتھا۔ (جاری ہے)