• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کابینہ ارکان نے تو بظاہر ای سی ایل کو ختم ہی کر دیا، چیف جسٹس پاکستان


چیف جسٹس پاکستان نے تحقیقاتی اداروں میں مبینہ حکومتی مداخلت کے ازخود نوٹس کیس کی سماعت میں ریمارکس دیئے کہ بااختیار افراد نے ترمیم کرکے اس سے فائدہ اٹھایا، کابینہ ارکان نے تو بظاہر ای سی ایل کو ختم ہی کر دیا، کسی بھی تحقیقاتی ادارے،ایجنسی اور ریاستی عضو کو اپنی حدود سے تجاوز نہیں کرنے دیں گے۔

سپریم کورٹ میں چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ نے تحقیقاتی اداروں میں مبینہ حکومتی مداخلت کے ازخود نوٹس کیس پر سماعت کی۔

سماعت کے آغاز میں وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے ہائی پروفائل مقدمات کا ریکارڈ سپریم کورٹ میں جمع کروایا۔

ایف آئی اے کی جانب سے سربمہر لفافوں میں شواہد اور ریکارڈ پر مبنی ڈیجیٹل ریکارڈ یو ایس بی میں جمع کروایا گیا۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ وزیراعظم اور وزیراعلیٰ سمیت ایف آئی اے کے14 ہائی پروفائل ملزمان کے نام ای سی ایل سے نکالے گئے۔

سپریم کورٹ میں پیش کی گئی رپورٹ کے مطابق اعجاز ہارون نام ای سی ایل سے نکلنے کے بعد بیرون ملک گئے اور تاحال واپس نہیں آئے ہیں۔

چیف جسٹس پاکستان نے سماعت کے دوران ریمارکس دیئے کہ قانونی عمل پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہونے دیں گے، کسی کو لگتا ہے کیس میں جان نہیں تو متعلقہ عدالت سے رجوع کرے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ پارلیمان سے یک طرفہ قانون سازی بھی قانونی تقاضوں کے مطابق ہونی چاہیے، یہ کسی کیلئے فائدہ اٹھانے کا موقع نہیں ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ نظر رکھیں گے کوئی ادارہ اپنی حد سے تجاوز نہ کرے، ایسا حکم نہیں دینا چاہتے جس سے حکومت کو مشکلات ہوں۔

دوران سماعت جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ کیا ای سی ایل رولز سے متعلق کابینہ نے منظوری دی؟ اٹارنی جنرل نے جواب میں بتایا کہ کابینہ کمیٹی برائے قانون سازی میں معاملہ زیر غور ہے۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ جسے سرکاری کام سے باہر جانا ہے اسے اجازت ہونی چاہیے، جو ملزم بھی بیرون ملک جانا چاہے تو وزارت داخلہ سے اجازت لینا ہوگی، سسٹم چلنے دینے کیلئے سب کو مل کر کام کرنا ہوگا۔

جسٹس منیب اختر نے ریمارک دیئے کہ سمجھ نہیں آ رہی حکومت کرنا کیا چاہتی ہے، لگتا ہے حکومت بہت کمزور وکٹ پر کھڑی ہے، واضح بات کے بجائے ہمیشہ ادھر ادھر کی سنائی جاتی ہیں۔

جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ ای سی ایل رولز سے متعلق کابینہ کمیٹی قانون سازی کے منٹس جمع کرائیں، کس طریقہ کار کے تحت اتنے لوگوں کے نام ای سی ایل سے نکالے؟

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ حکومت نے 22 اپریل کو ای سی ایل رولز میں ترمیم کی، ای سی ایل رولز میں ترمیم کا اطلاق پہلے سے موجود تمام کیسز پر ہوگا۔

جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ خود کو فائدہ پہنچانے کیلئے بینیفشریز نے ای سی ایل رولز میں ترمیم کی، اتنی کیا جلدی تھی کہ حکومت بنتے ہی 2 دن میں ای سی ایل رولز میں رد و بدل ہوا؟

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ ای سی ایل سے متعلق کوئی قانونی وجہ ہے تو بیان کریں۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ کابینہ ارکان کے نام ای سی ایل پر تھے، ماضی میں بھی اسی انداز میں ای سی ایل سے نام نکالے جاتے رہے۔

جسٹس مظاہر نقوی نے ریمارکس دیئے کہ کیا حکومت کا یہ جواب ہے کہ ماضی میں ہوتا رہا تو اب بھی ہوگا ؟

ازخود نوٹس کی سماعت کے دوران عدالت نے وزیراعظم شہباز شریف کی ضمانت حاصل کرنے کے اقدام کی تعریف کی، چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ اچھا لگا کہ وزیراعظم اور وزیراعلیٰ نے خود پیش ہوکر ضمانت کرائی، ضمانت کے حکم نامے کا بھی جائزہ لیں گے۔

چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال نے کہا کہ ہم قانون کی حاکمیت چاہتے ہیں، یہ سوال اہم ہے کہ مقتدر لوگوں نے ای سی ایل رولز میں ترمیم سے فائدہ اٹھایا، جن لوگوں کے مقدمات زیر التوا ہیں ان کیلئے مروجہ طریقہ کار پر سمجھوتہ نہیں ہونا چاہیے۔

چیف جسٹس پاکستان نے مزید کہا کہ موجودہ حالات منفرد نوعیت کے ہیں، پارلیمنٹ میں اکثریتی جماعت پارلیمنٹ سے باہر جاچکی ہے، ملک اس وقت معاشی بحران کا شکار ہے۔

چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ ایگزیکٹو کو اپنے اختیارات آئین و قانون کی روشنی میں استعمال کرنا ہوں گے۔

عدالت نے ازخود نوٹس کیس کی سماعت  27 جون تک کیلئے ملتوی کر دی۔

قومی خبریں سے مزید