• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کراچی (تجزیہ/ محمدا سلام) جس طرح مجھے اور آپ کو اس بات پر یقین ہے کہ عمران خان اور جمائما میں علیحدگی ہو چکی ہے بالکل اس طرح مجھے جمہوریت پر یقین ہے اور جمہوریت کی بحالی کیلئے ضیا آمریت سے بھی ہم چھیڑ چھاڑ کرنے سے کبھی باز نہیں آئے۔ یقین اور عمل کا بھرپور مظاہرہ کرتے رہے۔ یوں بھی ہماری تاریخ بتاتی ہے کہ وطن عزیز میں دو ہی قسم کے لوگ ہیں جمہوریت کے شیدائی اورا ٓمریت کے پروردہ معاملہ اس شعر کے مصداق ہےکس سے ہم خفا ہیںکوئی ہم سے خفا ہےجنرل پرویز مشرف کی آمریت کے بعد ملک میں جمہوریت بحال ہوئی تو اس جمہوریت پر مفاہمت کا کاٹ کباڑ اتنا ڈال دیا گیا کہ لوگ جمہوریت کا نام سن کر کانوں تو ہاتھ لگانے لگے اور بعض یہ سوال کرنے لگے ’’حکومت ہے کہاں؟ یعنی طرز حکومت کا سوال پس منظر میں چلا گیا تھا۔اب کچھ لوگ (غلط یا صیح طور پر) جمہوریت کوبچانے کی مالا جپ رہے ہیں کچھ بوٹوں کی آواز کی طرف توجہ دلا رہے ہیں مختصر یہ کہ بعض لوگ جمہوریت کے نام پر جمہوریت کو ہی نقصان پہنچا رہے ہیں لیکن مجموعی طور پر کچھ ایسا ماحول بنتا جا رہا ہے کہ بیشتر لوگ جمہوریت بچانے کیلئے کچھ نہ کچھ کر رہے ہیں باالفاظ دیگر وطن عزیز میں جمہوریت کو بچانا قومی جنون بنتا جارہا ہے۔ شیخ رشید سے خورشید شاہ تک سب جمہوریت کو بچا رہے ہیں۔ دوسری جانب مفاہمت کے بادشاہ نے مفاہمت سے انکار کر دیا ہے اور اب صرف جمہوریت بچانے کیلئے کوشاں ہیں اس دوران شیخ رشید کا بیان سامنے آیا ہے کہ جمہوریت کو چوہدری نثار یا شہباز شریف ہی بچا سکتے ہیں بظاہر حکومت اور اپوزیشن کے رہنما دونوں جمہوریت بچانے کیلئے ہاتھ پائوں مار رہے ہیں دیکھیں کوئی نعرہ مارتا ہے کہ ’’میں نے جمہوریت کو بچا لیا ہے۔‘‘ایسا لگتا ہے کہ زرداری صاحب دبئی میں بیٹھ کر پاکستانی جمہوریت کو بچا رہے ہیں اور شرجیل میمن جمہوریت کو بچانے کیلئے بیرون ملک سے جدید آلات لینے گئے ہیں اور کئی رہنما ہیںجو جمہوریت کو بچانے کیلئے کئی محاذوں پر جنگ لڑ رہے ہیں۔ سیاسی قائدین سے درخواست ہے کہ وہ جمہوریت کو ضرور بچائیں مگر کرپشن، لوٹ مار، چائنا کٹنگ، بھتہ خوری، بیروزگاری ، جہالت، کمیشن کک بیکس اور آف شور کو بچانے کی کی کوششیں نہ کریں بعض لوگ نے ان دنوں یہ نعرہ ہی بنا لیا ہے کہ ’’مجھے جمہوریت کو بچانا ہے۔‘‘ حکیم شرارتی کی تجویز ہے کہ ڈی جے بٹ کو ایک اور البم متعارف کرانا چاہئے۔ ’’مجھے جمہوریت کو بچانا ہے‘‘، ’’مجھے جمہوریت کو بچانا ہے۔‘‘ تاریخ بتاتی ہے کہ لیڈر جمہوریت کو بچاتے بچاتے آمر کی کابینہ کا حصہ بن جاتے ہیں لیکن عوام کو جمہوریت کے ثمرات ملیں یا نہ ملیں مگر وہ سڑکوں پر نکل آتے ہیں۔ معاشرے میں کچھ ایسے لوگ ہمیشہ رہتے ہیں کوئی سنے نہ سنے وہ پکارتے رہتے ہیں۔ بقول احمد فاخر
پکارتے ہی رہو کون سننے والا ہے
سماعتیں بھی یہاں ختم ہوئیں صدائوں میں
تازہ ترین