کرئہ ارض کا بیرونی حصہ متعدد رسوبی ماحول (ہوا، پانی،گلیشئر) کے احاطے میں ہے ،جس میں موجود خارجی طبی اور کیمیائی و حیاتیاتی عوامل کی زد میں ایک خاص مدت تک اس طرح یکساں رہتی ہیں، جس کے نتیجے میں ایک مخصوص ذخائر یا رسوبات کی تشکیل پائی جاتی ہے۔ چناں چہ اس حقیقت کے پیش نظر زمین پر موجود رسوبی ماحول کی درجہ بندی کے لیے کئی کامیاب کوششیں کی گئی ہیں، تاکہ تمام رسوبی ماحول کی اہمیت انفرادی طور پر سامنے آسکے، انہی میں سے ایک کا تعلق ’’عبوری رسوبی ماحول‘‘ سے ہے جو سمندر اور خشکی سے تعلق رکھتا ہے، جس کی ایک ذیلی شاخ ’’ڈیلٹائی ماحول‘‘ ہے۔
ایک طرف اس ماحول کی بیرونی اہمیت یعنی مٹی کی زرخیزی، کاشتکاری اور اناج کے حصول سے متعلق زمانہ قدیم سے اپنی جگہ مسلم ہے۔ مثلاً دریائے نیل کا ڈیلٹائی ماحول میں زرخیز زمین کا ایک کشادہ علاقہ پیدا کیا ہے، جس مغربی ریاست کی پشت پر خوشگوار اثرات مرتب ہوئے ہیں جب کہ دوسری طرف ارضی طبیعیات کے اطلاق کے بعد زمین کے اندر موجود ’’ہائیڈرو کاربن‘‘ یعنی پیٹ (کوئلہ کی ایک قسم) اور تیل و گیس کے حوالے سے بہت ہی موزوں رسوبی ماحول قرار دیا گیا ہے۔ مثلاً لاوسینا (Louisiana) میسیسیپی ڈیلٹا کیونکہ ہائیڈرو کاربن کی تخلیق کے لیے جن بنیادی قدرتی عوامل کی ضرورت ہوتی ہے، ان میں تخفیفی ماحول ’’دھنسائو کا عمل‘‘ نامیاتی زندگی کی فراوانی اور پیداواریت میں اضافہ ڈیلٹائی ریجن میں حمتی طور پر موجود پائے گئے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ موجودہ دور میں ڈیلٹائی ماحول اور اس ماحول میں تشکیل پانے والی ڈیلٹائی ساخت اور چٹانوں کو بڑی فوقیت حاصل ہے جو دریا کے عمل انداخت (Deposition) کے نتیجے میں بنتے ہیں۔ دنیا کے بڑے بڑے دریا ایک دن میں اربوں کھربوں گیلن پانی واپس سمندر میں ڈالتے ہیں۔ اس میں منوں اور ٹنوں کے حساب سے چٹانوں کے باریک گاد، گارے اور ریت شامل ہوتے ہیں۔
یہ دریا کا بوجھ یا بار (Load) کہلاتا ہے ،جو دریائی گزرگاہ کے ساتھ سفر کرتا ہے۔ دریا کی تیز رفتار لہریں جب سمندر کے ساتھ ساکت و جامد پانی یعنی ’’عبوری ماحول‘‘ سے ٹکراتی ہیں تو جلد ہی اس کی وہ مٹی ماند پڑ جاتی ہے جو وہ اپنے بار کو راستے میں چھوڑ جاتا ہے جو اوپر تلے جمع ہوتی رہتی ہے۔
دریا کے اس عمل کو ’’عمل انداخت‘‘ کہتے ہیں لیکن حمتی عمل انداخت کا کرشمہ زیادہ تر اس کی گزرگاہ کے نچلے حصے یعنی اس کے دہانے کے قریب نظر آتے ہیں۔ جب دریا ڈیلٹائی ماحول میں داخل ہوتا ہے یعنی جب دریا کسی سمندر یا جھیل کے ساکن پانی میں گرتا ہے تو اس کے بہائو کی توانائی میں کمی آجاتی ہے چنانچہ دریا کے پانی کے ساتھ تمام ’’بار‘‘ بھی دہانے پر جمع ہوتے جاتے ہیں۔
پہلے بوجھل بوجھل پتھر، حیوانی و نباتاتی تیراکیےکے باقیات اور مختلف حل پذیر اور ناحل پذیر اشیاء شامل ہوتے ہیں۔ گویا دریا تمام باقیاتی اشیاء کی تھاک در تھاک لگاتا رہتا ہے جسے طبق بندی (stratification) کہتے ہیں۔ عمل انداخت اور پھر طبق بندی کی وجہ سے رسوب ایک دوسرے کے اوپر افقی حالت میں جمع ہونے سے دریا کے دہانے کی زمین بلند ہوجاتی ہے، جس سے پانی کی نکاسی رک جاتی ہے لیکن پانی اپنے لئے نیا راستہ تلاش کرلیتا ہے لیکن کچھ عرصے بعد وہاں پشتہ (Lavees) کی شکل نمودار ہوجاتی ہے یعنی دریا پھر تازہ ترین دریائی اندوختہ باقیات کو اوپر تلے جمع کردیتے ہیں۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پانی کے اندوختہ مادّے دریائی خطے کی ایک ’’تکونی‘‘ شکل میں دو ذیلی شاخ کے ساتھ دہانے پر کشادہ ہوکر پھیل جاتے ہیں اور یونان کے چوتھے لفظ یعنی بڑے ڈیلٹا کی شکل اختیار کرلیتے ہیں۔ زمین کی پیمائش میں یہ شکل ’’مثلث‘‘ نما ہوتی ہے۔ اسی حوالے سے اس دریائی اندوختہ ڈھیر کو ’’ڈیلٹا‘‘ کے نام سے منسوب کردیا گیا ہے۔
مثلاً دریائے سندھ، گنگا اور نیل دنیا کے بڑے دریائوں میں شمار ہوتے ہیں جنہوں نے اپنے دہانے پر بڑے بڑے ’’ڈیلٹا‘‘ تعمیر کررکھے ہیں، تاہم ڈیلٹائی شکل اور اقسام کا انحصار چشموں اور دریائوں کے ذریعے اندوختہ مادّوں کی سپلائی اور تسرفی عمل (Erosion) کی قوت یعنی موج اور مدوجزر کے توازن پر ہوتا ہے۔
اسی بنیاد پر دریائے نیل ایک موج غالب( Waves Dominated) ڈیلٹا بناتا ہے جو سمندر کی طرف رکاوٹی جزیروں پر مشتمل ہوتا ہے۔ یہ رکاوٹی جزیرے ان لہروں سے بنتے ہیں جو پرانے ڈیلٹائی رسوب پر دوبارہ تیزی سے اثرانداز ہوتے ہیں۔ کچھ ’’ڈیلٹا‘‘ ساحل کے ساتھ ساتھ تشکیل پاتے ہیں جن پر مدوجزر پوری طرح غالب نظر آتے اور رسوب دوبارہ مدوجزر بار کی شکل اختیار کرتی ہیں جو مدوجزر کے متوازی ترتیب پاتی ہیں۔
مثلاً دریائے گنگا برہم پترا، ڈیلٹا مدوجزر ڈیلٹا کی بہترین مثال ہے جو بنگلہ دیش میں موجود ہے۔ دوسرے دریا کے ذریعے بنائے ہوئے ڈیلٹا مثلاً ’’میسیسیپی‘‘ دریا کی تشکیل اس وقت ہوتی ہے جب رسوب یا رسد یعنی دریائی ملبہ کی بہت بڑی تعداد میں بہتے ہوئے نسبتاً ساکن پانی میں شامل ہوگئے۔ چوں کہ یہاں پر کسی حد تک ’’ڈیلٹائی‘‘ بطن سے جنم لینے والے تقسیم کار گزرگاہ کو اپنی جگہ پر کئی صدی تک مستحکم طور پر برقرار رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ میسیسیپی تقسم کار گزرگاہ نے رسوب کو پرندوں کے پنجے کی طرح سمندر کے اطراف اور باہر کی جانب پھیلا دیا۔
اس طرح نئی تخلیق پانے والے ڈیلٹا کی شکل پرندوں کے پنجوں سے مشابہت رکھتے ہیں۔ یہ چشموں کے ذریعے رسوب کاری کے عمل کی نشاندہی کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میسیسیپی ڈیلٹا چشمہ غالب (Stream Dominated) ڈیلٹا کہتے ہیں۔ دریا کے دہانوں کی شفٹنگ، موجی توانائی، لہریں اور دیگر عوامل ڈیلٹا کے اندرونی حصوں میں مختلف اقسام کی ساختیں اور طبق بندی کو ترتیب دیتے ہیں جو بعد میں ڈیلٹائی طاس (Delta Basin) میں تبدیل ہوجاتا ہے۔ سب سے پہلے ’’ڈیلٹا‘‘ کے بنیادی جسم کی تشکیل ہوتی ہے جسے فورسیٹ تہہ (fore set beds)کہا جاتا ہے۔
یہ طبق یا ذخائر اُفقی سطح کے ساتھ زاویہ بناتے ہوئے ظہور پذیر ہوتے ہیں۔ یہ اُفقی سطح کے ساتھ کم و بیش 20-25 ڈگری کا زاویہ میلان بناتے ہیں جب کہ بڑے ’’ڈیلٹا‘‘ کے ذخائر کا زاویہ میلان 5ڈگری تک ہوتا ہے۔ اس میں زیادہ تر باریک رسوب موجود ہوتے ہیں۔ ’’فورسیٹ تہہ‘‘ کے بالکل بالائی جانب ’’ٹاپ سیٹ تہہ‘‘ (Top set bed) کی تشکیل ہوتی ہے۔ یہ تقریباً مختلف دانوں کی جسامت کے ساتھ اُفقی تہہ ہوتی ہے جو ڈیلٹائی ذیلی شاخوں کے ایک کنارے سے دوسرے کنارے شفٹ ہونے کے نتیجے میں بنتی ہیں۔
باہر کی طرف ’’فورسیٹ تہہ‘‘ کے سامنے کی طرف ’’سطح سیٹ تہہ‘‘ (Bottom Set Bed)ہوتا ہے جو باریک دانے دار سلٹ (Slit) اور کلے (مٹی) کو دریا کے ذریعے جھیل تک منتقل کرتا ہے یا پھر پھیلاؤ کے ذریعے پہاڑی کے نیچے کے فرش تک پہنچاتا ہے۔ ’’ڈیلٹا‘‘ کو علاقے کی زرخیزی کے حوالے سے قبل از تاریخ سے بڑی اہمیت حاصل رہی ہے ،کیوں کہ دریائی مٹی کی باریک دانے دار والی بافت ہل چلانے اور کاشتکاری کے پیشے میں مددگار ثابت ہورہے ہیں۔
اس مقصد کے حصول کےلیے بعض ڈیلٹا کو ایک دوسرے میں ضم کرکے کاشتکاری اور شیرخانوں میں تبدیل کردیا گیا ہے۔ مثلاً ’’نیدر لینڈ‘‘ میں دریائے ’’رائن‘‘ ، میوز اور شیلٹڈ ڈیلٹائی زمین کی تقسیم کرکے اسے عمودی کالم یعنی ڈائک (Dyke) میں تبدیل کرکے ’’جزیرہ نما‘‘ سیکشن میں تبدیل کردیا۔ وہاں موجود پانی کو پمپ کردیا گیا ،تاکہ کاشتکاری میں شیرخانوں کو تیار کی گئی۔
بعض ڈیلٹائی علاقے جو ساحل سے 5سے 6فیٹ سطح سمندر سے نیچے دھنس گئے تھے، اسے بھی زرعی اعتبار سے کارآمد بنایا جارہا ہے۔ کولوراڈو (Colorado) دریا کے رسوب میں کئی صدیوں سے گلف آف کیلیفورنیا کے شمالی حصے کو بھرتا چلا گیا۔
یہ ڈیلٹائی علاقے زرخیزی کے نقطہ نظر سے آج کل بہت فعال پیداواریت پٹی کہلاتی ہے، جس کی وجہ وہاں گرم آب وہوائی چکر بتائی جاتی ہے لیکن ہر دریا ڈیلٹا نہیں بناتے ہیں۔ مثلاً نیگرا دریا اونٹیرو جھیل میں ڈیلٹا نہیں بناتے ،کیوں کہ اس میں سلٹ نہیں ہوتا لیکن بعض دریا جو سلٹ سے لدے ہوتے ہیں، وہ بھی ڈیلٹا نہیں بناتے ،کیوںکہ اس کے دہانے مدوجزر کے اثرات سے غیر محفوظ ہوتے ہیں اور اسی وجہ سے یہ لہریں معلق اجزاء کو منتقل کرکے انہیں دور سمندری پانی میں منتقل کردیتے ہیں۔ اس کے برخلاف میسیسیپی دریا اپنے بوجھ کو گلف آف میکسیکو میں تہہ نشین کردیتا ہے۔
یہاں پر بھی گلف اور کیلیفورنیا کی طرح ساحلی ساختی بناوٹ مضبوط لہروں سے دریا کے دہانے کو تحفظ فراہم کرتا ہے۔ اس طرح میسیسیپی دریا کے بار دریا کے دہانے پر رک جاتے ہیں جو ایک ڈیلٹا کی شکل اختیار کرلیتے ہیں جو ڈیلٹائی شاخوں کے ذریعے بنائے ہوئے پشتہ یا بند کو ایک عرصہ سے گلف آف میکیسکو میں تھاک در تھاک جمع کررہا ہے۔
اس ڈیلٹا کا آغاز بنیادی طور پر ’’مصر‘‘ میں ہوتا ہے اور یہ 600میل جنوب کی طرف پھیلا ہوا ہے۔ کچھ مقام پر 60میل چوڑا اور یہ تقریباً 30000 اسکوائر میل پر محیط پایا گیا ہے جو زرعی زمین کی آبیاری کرنے میں مصروف ہے جب کہ گنگا برہم پترا کی ڈیلٹائی وسعت 60000اسکوائر میل پر محیط ہے جو تقریباً 200میل تک بحرہند میں پھیلا ہوا ہے۔
یہ تمام ’’ڈیلٹا‘‘ پوری قوم کی کفالت کرتا ہے۔ دوسری طرف ہائیڈرو کاربن (کوئلہ، تیل، گیس) کی دریافت میں بھی موجودہ دور میں ڈیلٹا کو بڑی فوقیت حاصل ہے۔ مثلاً میسیسپی، گنگا اور نیل کی برما کاری (mining) کی گئی تو ذیلی ہوائی حصہ ایک حیران کن دبازت کے ساتھ موجود پایا گیا۔ ’’پیٹ‘‘ (کوئلہ کی بنیادی غیر پختہ قسم) مٹی، درخت اور جنگلات کے میدانی حصوں پر مشتمل سمندر کی سطح سے کئی سو فٹ نیچے پائے گئے ہیں۔
سیکشن کے مطالعے سے یہ نتیجہ سامنے آیا ہے کہ ڈیلٹائی طبق کے نتیچے کی طرف بتدریج جنگلات کی بڑی تعداد نشوونما پاتی ہیں جہاں پر مردہ کائی دار اسفنچ نما مادّے، مردہ پھل، پودے اور سبزی کے ٹشو پر مشتمل ہوتے ہیں جو گہرے بھورے کاربنی ذخائر میں تبدیل ہوکر پیٹ (Peat) یعنی کوئلہ کی تخلیق کے لیے ابتدائی خام مال کے طور پر دستیاب ہوتی ہیں جو مختلف تغیر کے عمل سے گزرنے کے بعد کوئلہ کے سودمند ذخائر میں تبدیل ہوجاتے ہیں۔ اس کی خشک قسم ایندھن کے طور پر بھی استعمال میں آتی ہیں۔
سلیب کی صورت میں کاٹ کر اور خشک کرکے یا پھر مشین کے دبائو کی مدد سے اینٹ کی شکل میں تبدیل کرلیا جاتا ہے۔ ڈیلٹائی حصوں میں پیٹ کی تخلیق تخفیفی ماحول وجہ سے وقوع پذیر ہوتی ہے، جس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ جب دلدلی علاقوں میں جنگلات کھلی فضا میں گلنے سڑنے لگتے ہیں تو اس کے ٹشو میں موجود کاربن جو فضا سے پتوں کے ذریعے حاصل ہوتا ہے، اپنے اصلی حالت میں کاربن ڈائی آکسائیڈ میں تبدیل ہوجاتا ہے لیکن جب یہ پانی کی موجودگی میں جہاں ہوا میں موجود آکسیجن کی قلت ہوتی ہے تو اس عمل کے نتیجے میں کاربنی اشیاء ’’پیٹ‘‘ یعنی کوئلہ کی ابتدائی شکل میں تہہ نشین ہوتا ہے۔
اسی کو ’’ڈیلٹا‘‘ کا تخفیفی ماحول کہتے ہیں جو دیگر ہائیڈرو کاربن مثلاً تیل و گیس کی تخلیق کے لیے اہم کردار ادا کرتا ہے۔ ڈیلٹائی طبق میں موجود ریت، پتھر، تیل و گیس کی ذخیرہ اندوزی کے لیے بہت بڑی صلاحیت رکھتا ہے، کیوںکہ یہ ریت پتھر کے رسوب کے ساتھ نامیاتی روپ کے تخفیفی ماحول میں تہہ نشین ہوتا ہے جو تیل و گیس جیسی ہائیڈرو کاربن کی تشکیل کے لیے ایک اہم شرط ہے۔ اس حوالے سے غذائیت خاص طور پر نائٹریٹ اور فاسفیٹ بلند پیداواریت کو برقرار رکھتے ہیں جو پانی کے چکر اور سپلائی ہوتے ہیں۔ یہ ان علاقوں میں زیادہ دستیاب ہوتے ہیں جہاں بڑے اور کئی دریا سمندر سے جا ملتے ہیں اور جہاں پر کٹائو کے عمل کو تقویت حاصل ہوتی ہے۔
یعنی ڈیلٹائی ماحول میں تشکیل پانے والا ڈیلٹائی طاس ۔یہ وہ خطے ہیں جہاں رسوب کاری کا عمل بغیر کسی رکاوٹ کے ہمیشہ جاری رہتا ہے۔ اس مکمل رسوب کاری کی وجہ سے ’’ڈیلٹائی طاس‘‘ والے علاقوں میں طبقیاتی ریکارڈ مکمل پایا جاتا ہے اور نامیاتی ارتقاء کے نقطہ نظر سے بھی طاس جمع ہونے والے رسوب آسانی سے ملتے ہیں لیکن نامیاتی ارتقاء کے ساتھ دھنسائو کا عمل بھی واقع ہوتا ہے جو ہائیڈروکاربن کی تخلیق کے حوالے سے بڑی فوقیت کی حامل ہے، کیوں کہ یہ ایک ایسی صورتحال کو جنم دیں گے ،جس میں رسوبی مواد تہہ نشین ہونے سے قبل پختگی کی صورت اختیار کرے گا اور اس سے بننے والے رسوب ہر اعتبار سے پختہ اور سودمند ہوں گے۔
یہی مرحلہ ہائیڈروکاربن (تیل و گیس) کے لیے موزوں ترین ہے، کیوں کہ نباتاتی و حیوانی مادّوں کی مرکوزیت کی شرح اور دھنساؤ کی شرح میں توازن ہونا ضروری ہے لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ آب و ہوا، نباتات و حیوانات کی افزائش کے عین موافق ہو اور نامیاتی رسوبی مواد کی رسد اور تہہ نشینی کی رفتار دونوں سست ہونی چاہیے۔
یہی وجہ ہے کہ ڈیلٹا کے ماتحت تشکیل پانے والے طاس نامیاتی اشیاء کا مخزن اور منبع ہوتے ہیں لیکن اس کے لیے ایک ضابطہ تخلیق یہ بھی ہے کہ ان نامیاتی اشیاء کو ہائیڈرو کاربن یعنی تیل و گیس میں تبدیل ہوکر ذخیرہ ہونے کے لیے ایک ’’ہائیڈرو کاربن بردار ساخت‘‘ کا موجود ہونا ضروری ہے جو نمک کے اٹھان سے وقوع پذیر ہوتی ہے ،جس کے لیے ڈیلٹائی ماحول اور ’’ڈیلٹا‘‘ کو ہی اہم قرار دیا گیا ہے ۔
مثلاً ’’رن آف کچ‘‘ (Runn of Kutch) کا ایک سابق بازو جو مشرق کی طرف ’’ڈیلٹا‘‘ سے منسلک تھا، وہ موجودہ وقت میں ’’سلٹ‘‘ سے پوری طرح بھر گیا ہے اور اس وقت ایک بڑے ریت اور مڈ کی اُفقی سطح میں تبدیل ہوگیا ہے جو لمبائی میں 200میل اور چوڑائی میں 100میل کے لگ بھگ ہے۔ یہ موسم گرما میں مون سون ہواؤں کے دوران نمکین پانی سے سیلاب کی صورت اختیار کرلیتی ہے لیکن درجہ ٔحرارت میں اضافے سے تمام سمندر کا نمکین پانی آبی بخارات بن کر فضا میں فرار ہوجاتا ہے اور مٹی اتنی ’’شور زدہ‘‘ ہوجاتی ہے کہ کوئی بھی نباتات کی افزائش نہیں ہوسکتی۔
نتیجے میں نمک کے کئی کئی فٹ دبازت کی تہہ وہاں پر تہہ نشین ہوجاتی ہے۔ اس صورتحال میں نمک کی دبیز تہہ جو ملین سالوں میں بنتی ہے، وہ اب قدیم ’’ڈیلٹا‘‘ کے نیچے پوشیدہ ہوگئی ہیں لیکن زمین کی اندرونی قوت اور حرارت کے تحت محور کے ساتھ 90 ڈگری کا زاویہ میلان بناتے ہوئے ڈیلٹائی ریت سے بنی ہوئی ذخیرہ اندوز چٹانوں میں داخل ہوکر ہائیڈرو کاربن بردار شاخت یعنی ’’سالٹ ڈوم‘‘ میں تبدیل ہوجاتی ہے۔ اس حوالے سے ایکوفسک (Ekofisk) کے علاقوں کو بھی خصوصی اہمیت حاصل ہے۔