• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حقیقت یہ ہے کہ پاکستان نے فیٹف کی تمام شرائط پوری کردی ہیں اس کے باوجود ابھی تک پاکستان کا نام گرے لسٹ سے نہیں نکالا گیا ۔کہاگیا کہ پاکستان نے شرائط پوری کر کے جو ثبوت فراہم کیے ہیں ہم ان پر اعتبار نہیں کرتے ۔اس لئے پہلے پاکستان کا دورہ کریں گے ۔اپنی آنکھوں سے دیکھیں گے کہ واقعی تمام شرائط پوری ہو چکی ہیں تو اس کے بعد پاکستان کو گرے لسٹ سے نکالیں گے ۔ 

اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایف اے ٹی ایف والے پاکستان کے دورے کےلئے کن لوگوں کو بھیجتے ہیں اگر وہ لوگ پاکستان مخالف لابی سے تعلق رکھتے ہوں گے تو انہوں نے سورج کو بھی سیاہ گولا قرار دے دینا ہے ۔خطرے کی گھنٹی، یہ بات بھی بجاتی ہے کہ فیٹف نے ٹی راجہ کمار کو ادارے کے اگلے صدر کے طور پر دو سال کے لیے منتخب کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

ٹی راجہ کمار کے پاس سنگاپور کی شہریت ہے مگر پیدا بھارت میں ہوئے تھے اور سابق وزیرِ خارجہ شاہ محمودقریشی کئی بار کہہ چکے ہیں کہ انڈیا فیٹف کے فورم کو ’سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کررہا ہے۔بہر حال پھر بھی امید کی ہلکی سے کرن جاگی ہے ۔ 

مگر اس کا دکھ بھی ہے کہ انہوں نے پاکستان پر اعتبار نہیں کیا حالانکہ وہ کہہ سکتے تھے کہ ہم پاکستان کو گرے لسٹ سے نکال رہے ہیں لیکن اگر ہماری ٹیم نے جائزہ لینے کے بعد فیصلہ کیا کہ شرائط پر مکمل عمل در آمد نہیں ہوا تو ہم دوبارہ پاکستان کو گرےلسٹ میں ڈال دیں گے۔اب ان کی ٹیم نے اکتوبر میں پاکستان آنا ہے ۔یعنی تقریباً چار پانچ ماہ کے بعد اور اس کے بعد اس ٹیم نے اپنی رپورٹ جمع کرانی ہے۔ جس پر فیصلہ اگلی میٹنگ میں ہوگا ۔

کہا جاتا ہے کہ جب پاکستان کو گرے لسٹ سے نکال دیا جائے گا تب بھی معاملات طے ہونے میں کم از کم سات آٹھ ماہ کا عرصہ لگ سکتا ہے۔ 2018 میں پاکستان کو گرے لسٹ میں ڈالا گیا تھا اور ہر اجلاس میں کوئی نہ کوئی بہانہ بنا کر معاملے کو آگے شفٹ کردیا جاتا ہے ۔ کیوں ؟ اصل معاملہ کیا ہے؟ پاکستان کو دنیا نے مسلسل کیوں گرے لسٹ میں رکھا ہوا ہے؟ 

قصہ دراصل یہ ہے کہ فیٹف کے ممبران صرف دو سو چھ ممالک ہی نہیں۔اس کے اجلاسوں میں انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف)، ورلڈ بینک، اقوامِ متحدہ اور اگمونٹ گروپ آف فنانشل یونٹس کے نمائندے بھی شریک ہوتے ہیں ۔اگرچہ ان کی شرکت مبصر کے طور پر ہوتی ہے مگر فیصلوں پر سب سے زیادہ اثر انداز یہی لوگ ہوتے ہیں ۔ 

بی بی سی کے مطابق نیکٹا کے سابق سربراہ احسان غنی نےکہا ہے ۔’’ہم جب فیٹف کی شرائط کے حوالے سے میٹنگز کرتے تھے تو تاثر ہوتا تھا بس کوئی جھوٹ بول دو اور جان چھڑاؤ۔ ایک بڑی اہم میٹنگ میں ایک سابق وزیراعظم نے کہا کہ بس یار کوئی جھوٹ بول کر جان چھڑا دو لیکن میں نے اور فارن سیکرٹری نے ان کو واضح طور پر کہا کہ اب جھوٹ بولنے کا وقت گزر گیا ہے‘‘۔

مجھے خدشہ ہے کہ جب فیٹف کی ٹیم پاکستان کا وزٹ کرے گی تو ہم اسے مطمئن نہیں کرسکیں گے۔ ایک چھوٹی سی مثال پیش کرتا ہوں کہ فیٹف کی لسٹ میں دہشت گردوں کو رقم فراہم کرنے والوں میں جن سرکاری اداروں کا نام شامل ہے ان میں محکمہ اوقاف و مذہبی امور پنجاب سر فہرست ہے ۔

اگرچہ مذہبی امور کا اپنا صرف ایک مدرسہ ہے مگر اوقاف کےپاس تقریباً سات سو سے زائد مدارس رجسٹرڈ ہیں اس کے علاوہ پانچ سو کے قریب اوقاف کی اپنی مساجد ہیں جن میں پچاس فیصد سے زائد مساجد دیو بندی مسلک کی ہیں اور باقی پچاس فیصد بریلوی مسلک سے تعلق رکھتی ہیں دوسری طر ف فیٹف مساجد اور مدارس کا باریک فرق سمجھنے سے بھی قاصر ہے ۔

محکمہ اوقاف میں ڈی جی مذہبی امورکے نیچےباقاعدہ سرکاری دو صوبائی خطیب ہیں انیس گریڈ کے ایک دیوبندی اور ایک بریلوی ۔جن کے تلے سینکڑوں ملازمین ہیں ۔

یہ تمام ملازمین دونوں مسالک کے مطابق ہیں مگر سرکاری طور پر یہ فرقہ وارانہ تقسیم حیرت انگیز ہے ۔نیشنل سیکورٹی پالیسی کے سیکشن فور میں باقاعدہ درج ہے کہ کوئی فرقہ وارانہ تقسیم حکومتی سطح پرقابل قبول نہیں ہوسکتی ۔ 

گزشتہ ہفتے اسی سلسلے میں میری ملاقات سابق سیکرٹری اوقاف سے ہوئی انہوں نے بتایا کہ وہ پاکستان کو گرے لسٹ سے نکالنے کےلئے اس تقسیم کو بھی ختم کررہے ہیں مگر جیسے ہی انہوں نے یہ کام شروع کیا ان کو وہاں سے ہٹا دیا گیا ۔

یہ وہ جگہ ہے جہاں پاکستا ن فیٹف کے سامنے بے بس ہو جاتا ہے ۔ وزیر اعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز کو فوری طور پر اس طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے وگرنہ پاکستان کا گرے لسٹ سے نکلنا ممکن نہیں ہو گا۔ 

بے شک وائٹ لسٹ پر واپسی کی راہ ہموار ہوتی دکھائی دے رہی ہے مگر اس راستے میں جو کھائیاں ہیں انہیں وقت سے پہلے بھر لینا بہت ہی ضروری ہے ۔اور آخر میں ایک درخواست ۔چند دن پہلے عطاالحق قاسمی نے اپنے کالم میں لکھا ’’ہمارا احسان شاہد وہ ہیرو ہے جو انسانی خدمت کے حوالے سے انمول ہے ۔ 

پرائیڈ آف پرفارمنس بھی ان کی خدمات کے حوالے سے ہیچ ہے ‘‘۔بے شک قاسمی صاحب نے بہت درست کہا ہےاحسان شاہد میرے قریبی دوست ہیں ۔ سوچ رہا ہوں کہ انہیں پرائیڈ آف پر فارمنس دینے سے ایک حقدار کو حق مل جائے گا۔ 

میرا خیال ہے اس نیک کام کےلئے عطاالحق قاسمی کی خدمت میں ہی گزارش کی جائے کیونکہ اس موسم میں انہی کی آوازسنی جانے والی آواز ہے ۔ شعیب بن عزیز سے بھی درخواست کررہا ہوں اس دعا کے ساتھ (تری آواز مکے اور مدینے)۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس

ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین