منصور آفاق ایک ترقی پسند اور پروگریسو احوال و افکار کی حامل شخصیت ہیں۔ دین یا دینی اعتقادات کے حوالے سے ان کا، ایک اپنا نقطہ نظر ہے۔ منصور آفاق کے حالیہ کالم بمطابق19جون 2022ء میں ان کے پیش کردہ دیگر اعدادو شمار کے ساتھ، ان کا یہ بیان بطور ِ خاص حقائق سے مکمل لا علمی پر مبنی ہے، جس میں انہوں نے تحریر کیا ہے کہ ’’فیٹف کی لسٹ میں دہشت گردوں کو رقم فراہم کرنے والوں میں جن سرکاری اداروں کا نام شامل ہے، ان میں محکمہ اوقاف و مذہبی امور پنجاب کا نام سرِ فہرست ہے‘‘سب سے پہلے تو میں اپنے محکمہ کی طرف سے ان کے اس بیان کی تردید اور بھرپور مذمت کرتااور اس کو مکمل طور پر بے بنیاد قرار دیتا ہوں۔اُن کے اس الزام پر، جب اُن سے ثبوت مانگا گیا، تو انہوں نے بالکل صاف انداز میں فرمادیا کہ ثبوت فراہم کرنا تو میری ذمّہ داری نہیں، حالا نکہ قانونی اور شرعی طور پر یہ فریضہ اُن کے ذمّہ ہے۔یہ بات از حد حیرت انگیز ہے کہ آپ، دینی تشخص کے حامل ایک ایسے سرکاری محکمے پر اتنا بڑا بہتان باندھ دیں، جس کا خطّے میں فرقہ وارانہ موانست و معاملت کیلئے تاریخ ساز کردار ہے۔
موجودہ وزیر اعظم میاں محمد شہباز شریف نے ،بطور ِ وزیر اعلیٰ پنجاب، نوے کی دہائی کے آخری برسوں میں جب تشدّد اورانتہا پسندی قتل غارت کی حد تک پہنچ چکی تھی،اسی محکمے کے فریم ورک کو وسعت دیتے ہوئے، اس میں متحدہ علماء بورڈ قائم کیا۔ جس کے تاریخ ساز اجلاس منعقدہ پنجاب ہاؤس مری بمطابق 8جون 1999ء میں،تمام مکاتبِ فکر کے علماء اور اکابر شخصیات کو جمع کرکے، فرقہ وارانہ تشدّد اور انتہاپسندی کے تدارک کے لیے باقاعدہ قانون سازی کے عزم کا اعلان کیا۔
منصور آفاق صاحب نے اپنے اس کالم میں دوسری بے سروپا اور غلط بات یہ تحریر کی ہے کہ اوقاف کے پاس700مدارس رجسٹرڈ ہیں، حالانکہ مدرسہ رجسٹریشن کا سِرے سے اوقاف سے کوئی تعلق ہی نہیں۔انہوں نے یہ بھی تحریر کیا کہ" نیشنل سیکورٹی پالیسی کے سیکشن فور میں باقاعدہ درج ہے کہ کوئی فرقہ وارانہ تقسیم حکومتی سطح پر قابلِ قبول نہیں ہوسکتی "۔ نیشنل سیکورٹی پالیسی آف پاکستان 2022-2026 کی62 صفحات پر مشتمل مکمل دستاویز میں اور بالخصوص اس کے سیکشن فور میں ایسی کوئی بات سِرے سے درج ہی نہیں۔البتہ اس کے سیکشن 6میں "Extremism & Sectarianism" کی بابت وہ ساری باتیں تحریر ہیں، جو محکمہ اوقاف و مذہبی امورپنجاب کا چارٹر اور بنیادی منشورہے، جس کیلئے محکمہ نے متحدہ علماء بورڈ جیسے گراں قدر ادارے تشکیل دے رکھے ہیں۔ مسالک اور مکاتبِ فکر تو دنیا کے تمام ادیان اور مذاہب میں موجود ہیں، عیسائیت اور یہودیت میں بھی فرقے موجود ہیں۔وفاقی سطح پر اسلامی نظریاتی کونسل، مرکزی رویت ہلال کمیٹی پاکستان سمیت جملہ اداروں میں، ایک بہترین توازن کے ساتھ تمام مسلمہ مکاتبِ فکرکے لوگ شامل ہیں، کو سرکاری اور حکومتی سطح پر نمائندگی دی جاتی ہے۔
یقیناً منصور آفاق صاحب کو علم ہوگا کہ برصغیر کی غالب اکثریت حنفی المذہب اور صوفیانہ مشرب کی حامل ہے، جبکہ اس خطے میں اہلحدیث اور اہل تشیع بھی محدود سطح پر موجود ہیں۔ فقہ حنفی کے ماننے والوں میں تقریباًڈیڑھ صدی قبل اہلِ سنت بریلوی جن کے سرخیل مولانا احمد رضا خاں بریلوی، جن کے وصال (1921ء) کو، اب ایک صدی سے زائد ہونے کو ہے،سے بھی پہلے اس طبقے کی فکری آبیاری مولانا فضل حق خیر آبادی اور ان کے والد مولانا فضل امام خیر آبادی، جن کے پاس دہلی میں صدر الصدور جیسے منصب بھی رہے، نے فرمائی،جبکہ دارالعلوم دیوبند کے بانی مولانا محمد قاسم نانوتوی،جنہوں نے 1867ء میں دارالعلوم دیوبند کی بنیاد رکھی۔ یہ دونوں مسالک تحریکِ پاکستان اور قیامِ پاکستان کے وقت بھی موجود تھے، 1953ء کی تحریک ختم نبوت ہو یا 1974ء کی، تحریک نظام مصطفی ہو، یا کوئی اور قومی و دینی مسئلہ... ان مسلمہ مسالک کے وجود اور ان کی خدمات معروف اور معتبر ہیں۔ اگر کوئی ان مکاتب فکر کو، محض اوقاف یا کسی خاص حکومت کی تخلیق یا تشکیل سمجھ رہا ہے، تو یہ اس کی کم علمی ہے۔ کالم نگار اپنے خطے کی پہچان مجاہدِ ملت مولانا عبد الستار نیازی مرحومؒ کی معروف تصنیف ’’اتحاد بین المسلمین‘‘ کا مطالعہ ہی فرمالیں۔ انہیں مکاتب کو، 1979ء میں وفاقی حکومت کے قائم کردہ ہالے پوتہ کمیشن برائے دینی تعلیم میں تسلیم کیا، جس کے مطابق پاکستان میں دینی مدارس سسٹم کو، ان کے مکاتب فکر کے حوالے سے ڈگری ایوارڈنگ حیثیت دی گئی، ان وفاقوں کی طرف سے جاری کردہ ڈگریاں’’ شہادۃ العالمیہ فی العلوم العربیہ و الا سلامیہ‘‘ہائر ایجوکیشن کمیشن کے نوٹیفکیشن کے مطابق ایم اے عربی اور ایم اے اسلامیات کے برابر تسلیم ہوئیں، اور یہ فضلا اپنے اپنے مکاتب اور مسالک کی بنیادی فکر کی روشنی میں، دین متین کی تبلیغ کے امین اور علمبردار اور اپنے دینی اداروں اور مساجد و مدارس میں فرائض کی بجاآوری کے استحقاق کے حامل ہوئے۔ یہ فرقہ واریت نہیں بلکہ مسالک اور مکاتب فکر کو، ان کے وضع کردہ دائرہ فکر و عمل میں رکھتے ہوئے، اپنے اپنے عقائد کے مطابق اپنے دینی معقدات و مسلمات کے مطابق زندگی گزارنے کیلئے،ان کے فطری حق کا اعتراف و اظہار ہے، اسی طرح ساٹھ سال پہلے وقف پراپرٹی آرڈیننس کے مطابق 1960 میں جب محکمہ اوقاف معرض وجود میں آیا، تو مزارات کے علاوہ، 437 مساجد بھی اِس کی تحویل میں آئیں، کسی بھی مسجد کو سرکاری تحویل میں لینے کا ایک باقاعدہ طریقہ کار وضع ہوا، اور ایک باقاعدہ سروے عمل میں آیا، جس کے لیے ایک’’ سروے فارم‘‘ بھی حکومت کا منظور شدہ ہے۔ جس میں’’ مسلک‘‘کا کالم، گزشتہ ساٹھ سال سے موجود ہے، جس کے مطابق جب بھی کوئی مسجد، سرکاری تحویل میں لی جاتی ہے، تو اسی وقت قرائن و شواہد کی روشنی میں اس کا مسلک بھی تحریر کرلیا جاتا اور پھر اسی کے مطابق اس کا عملہ تعینات ہوتاہے۔ ایسا کرنا ’’Sectarianism‘‘نہیں بلکہ اس سے محفوظ رہنے کا ذریعہ ہے، اگر ایسا نہ ہو،تو کسی شیعہ مسجد میں، کسی سُنی عملہ مسجد کی تعیناتی کے کیا نتائج برآمد ہونگے؟
(صاحب مضمون ڈائریکٹر جنرل اوقاف پنجاب ہیں)