پاکستان کے گلی ،کوچے، بیٹھکیں اورنجی تقریبات آج کل جس طرح سے سیاسی تقسیم کا شکار نظر آتی ہیں، پہلے نظر نہیں آتی تھیں۔ پھر یہ کہ اب نجی محافل ہوں یا عوامی مجلسیں، کم و بیش ہر جگہ بحث، مباحثےکا معیار بہت پست نظر آتا ہے۔ سیاسی مباحث،بیانات اور جلسے ،جلوسوں کا تو کیا ہی کہنا۔حتی کہ پارلیمان میں چند برسوں سے جو زبان استعمال ہورہی ہےوہ بھی بہت سے مواقعے پر اخلاقیات کے معیار سے گری ہوئی ہوتی ہے۔ اور اب تو سیاسی مخالفین کی دماغی صحت پر سوال اٹھانا معمول کی بات بن چکی ہے۔
گزشتہ دنوں مسلم لیگ نون سے تعلق رکھنے والے ایک سینیٹر نے ایوانِ بالا میں ایک سیاسی شخصیت کے ایک بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ میرا شعبہ طب کا ہے اس لیے بتاسکتا ہوں کہ فلاں سیاسی شخصیت بائی پولر ڈس آرڈرکا شکارہے۔ صوبہ سندھ کے ایک وزیرنے اس شخصیت کو گدو میں واقعے دماغی امراض کے اسپتال بھیجنے کی بات کی۔
اس طرح کی باتیں سن کر سنجیدہ اور تعلیم یافتہ پاکستانی شدید کوفت اور پریشانی کا شکار نظر آتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ پہلے ہمارے سیاست دانوں نے اپنی منفی سیاست سے عوام کو ’’نفسیاتی‘‘ بنایا اور اب ایک دوسرے پر نفسیاتی مریض ہونے کا الزام لگانے لگے ہیں۔
وہ سوال کررہے ہیں کہ کیا یہ ’’نفسیاتی‘‘ لوگوں کی سیاست ہے یا پھر یہ انداز ہماری سیاست کی نفسیات بن چکا ہے۔ دوسری جانب یہ حقیقت ہے کہ سخت اقتصادی حالات، مختلف سماجی مسائل اور کووڈ اُنّیس کی وجہ سے دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی دماغی اور نفسیاتی مسائل اور مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ آئیے، پہلے یہ جان لیتے ہیں کہ ذہنی صحت کا کیا مطلب ہوتا ہے اور پھر اپنی قوم کے دماغی اور نفسیاتی مسائل پر نظر ڈال لیتے ہیں۔
ذہنی صحت
ذہنی صحت سے مرادانسان کی جذباتی اور نفسیاتی صحت ہے۔ ماہرین دماغ و نفسیات کے مطابق اچھی ذہنی صحت والا انسان نسبتاً خوش حال اور صحت مند زندگی گزار سکتا ہے۔ یہ اسے خود انحصاری کے ساتھ زندگی کی مشکلات کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت پیدا کرنے میں مدد دیتی ہے۔ کئی حکمت عملیاں ایسی ہیں جو آپ کو اچھی ذہنی صحت بنانے اور اسے برقرار رکھنے میں مدد فراہم کرسکتی ہیں، مثلا خراب سے خراب حالات میں بھی مثبت رویہ اپنائے رکھنا، جسمانی طور پر متحرک رہنا، دوسروں کی مدد کرنا، مناسب نیند لینا، صحت بخش غذا ئیں کھانا، وغیرہ۔
اس کے علاوہ ان لوگوں کے ساتھ وقت گزارنا جن کے ساتھ آپ وقت گزارنے سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ اپنی پریشانیوں سے مؤثر طریقے سے نمٹنے کی مہارتیں اپناکر ان کا استعمال کریں۔ تاہم، اگر آپ سمجھتے ہیں کہ اپنی ذہنی صحت کے حوالے سے آپ کو کسی پیشہ ورماہر کی خدمات حاصل کرنے کی ضرورت ہے تو اس سے رجوع کریں۔
ذہنی بیماری
اس اصطلاح کا دائرہ کافی وسیع ہےاور یہ بہت سی صورت حال پر محیط ہے، جو آپ کے محسوس کرنے اور سوچنے کے انداز کو متاثر کرتی ہے۔ یہ آپ کی روز مرہ زندگی گزارنے کی صلاحیت کو بھی متاثر کرسکتی ہے۔ ذہنی بیماریاں مختلف عوامل، مثلا جینیات، ماحول، روزمرہ کی عادتوں، ابتدائی ززندگی یا بچپن میں ہونے والے حادثات وغیرہ کی وجہ سے سامنےآتی ہیں۔
بیماری کی وجوہات
زیادہ ترواقعات میں ذہنی صحت کی خرابیوں کا درست سبب واضح طور پر سمجھ میں نہیں آتا، لیکن بعض عوامل ذہنی صحت کی خرابیوںکے ضمن میں عام طور پرذمے دار نظرآتے ہیں، مثلا جینیاتی عوامل، دماغ کی بایوکیمسٹری میں تبدیلی، نیورو ٹرانسمیٹرکی سطح کا غیر متوازن ہونا، ماحولیاتی عوامل، سماجی واقتصادی پس منظر، بہت دباو والا پیشہ ، منشیات کا استعمال اور شراب نوشی۔
بعض اوقات بعض منفی عوامل اور جذباتی حادثات بھی ذہنی صحت کے لیے نقصان دہ ثابت ہوتے ہیں، مثلا ملازمت چھوٹ جانا، کسی قریبی عزیز یا دوست کا انتقال کرجانا، میاں بیوی میں علیحدگی ہوجانا، بیماری جھیلنا، مالی نقصان وغیرہ۔ یہ تمام واقعات کسی بھی شخص کی زندگی میں پیش آسکتے ہیں، جو ہمارے سوچنے سمجھنے کے انداز، یہاں تک کہ ہماری جسمانی و ذہنی صحت کو بھی متاثر کرتے ہیں۔
نفسیاتی امراض میں مبتلادو کروڑ سے زاید پاکستانی
پاکستان سمیت دنیا بھر میں لوگ مختلف معاشی، سماجی، گھریلو، امن و امان اور دیگر قسم کی پریشانیوں کے باعث کئی طرح کے ذہنی عارضوں میں مبتلا ہوتے ہیں۔ اگر انہیں تشخیص اور علاج، معالجے کی بہتر سہولتیں اور خدمات دست یاب نہ ہوں تو ان کی صورت حال گمبھیر ہو جاتی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ دماغی اور نفسیاتی امراض اور ان کی علامات پوشیدہ ہوتی ہیں، جو بیماری کو مزیدپے چیدہ بنا دیتی ہیں۔
اس وقت ہمارے ملک میں تقریباً دو کروڑ سے زاید افراد نفسیاتی امراض میں مبتلا ہیں، جن میں سے چونتیس فی صد افراد ذہنی مرض انافیلکس کا شکار ہیں۔ ان افراد کے علاج کے لیے جدید تحقیق اور طریقہ کار پر عمل پیرا ہونا ضروری ہے۔ پاکستان کے معروف ماہر نفسیات، مائنڈ آرگنائزیشن کے سربراہ اور علامہ اقبال میڈیکل کالج، لاہور کے شعبہ نفسیات کے سابق سربراہ ڈاکٹر سعد بشیر ملک کے بہ قول پاکستان میں دو کروڑ افراد مختلف ذہنی بیماریوں میں مبتلا ہیں اور چند برسوں میں ان کی شرح دگنی ہو جائے گی۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہمارے ملک میں کیوں لوگ زیادہ ذہنی بیماریوں میں مبتلا ہو رہے ہیں۔ اپنے حالات کا جائزہ لیں تو صورت حال یہ ہے کہ پورے ملک کے لوگ ایک عجیب ذہنی کوفت میں مبتلا ہیں۔ پتا ہی نہیں چل رہا کہ کون حکومت چلا رہا ہے اور کون حکومت کر رہا ہے۔ کوئی شہر ایسا نہیں جہاں لوگ جلسے جلوس کرتے ہوئے نظر نہ آ رہے ہوں۔ ہمارے دس کروڑ لوگ افراد ایسے ہیں جن کی یومیہ کمائی دو ڈالرسے بھی کم ہے۔
روپے کی قدر تیزی سے کم ہورہی ہے اور منہگائی نئے ریکارڈ قایم کررہی ہے۔ ان حالات میں لوگ ذہنی بیماریوں میں مبتلا نہیں ہوں گے تو اور کیا ہوگا۔ حکومت لوگوں کے مسائل سے بے خبر ہے۔ اقتدار کے ایوانوں سے نکلنے اور اور اس میں داخل ہونے والے عجیب ذہنی کیفیت کا شکار ہیں۔ ہر ایک کی اپنی ضد اور انا ہےجس کی وجہ سے پورے ملک میں ڈپریشن کی صورت حال پیدا ہو چکی ہے۔
ایک رپورٹ کے مطابق ملک میں طلاق کی شرح بہت بڑھ گئی ہے اور خواتین پر تشدد کے واقعات میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ ذرایع ابلاغ کا جائزہ لیں تو پتا چلتا ہے کہ لوگوں میں برداشت کا مادہ ختم ہوتا جارہا ہے۔ لوگ سڑکوں پرلڑ رہے ہیں، اساتذہ بچوں کو مار رہے ہیں۔ آئے روز ان واقعات کی خبریں ذرایع ابلاغ کی زینت بنتی رہتی ہیں۔
کڑوا سچ یہ ہے کہ جس معاشرے میں معاشی نا انصافی ہوگی وہاں لوگ یقینی طور پر ذہنی مریض ہی بنیں گے۔ لوگوں کو انصاف نہیں مل رہا۔ عدالتوں میں لوگ سال ہا سال دھکّے کھاتے رہتے ہیں۔ مشترکہ خاندانی نظام دم توڑ رہا ہے۔ مذہب سے دوری بھی ذہنی امراض کا باعث بن رہی ہے۔ تعلیمی اداروں میں نوجوانوں کے نفسیاتی مسائل حل کرنے کے لیے راہ نمائی کے مراکز نہیں ہیں۔ غالباً پنجاب یونیورسٹی واحد ادارہ ہے (علاوہ تدریسی اسپتالوں کے) جہاں نوجوانوں کی ذہنی و نفسیاتی امراض کے ضمن میں راہ نمائی کرنے کے لیے مرکز موجود ہے۔
انٹرنیٹ اور موبائل فون نے بھی لوگوں کو ذہنی مریض بنا دیا ہے۔ نوجوان نسل اپنے مستقبل کے بارے میں بحرانی کیفیت کا شکار ہے۔ صرف طبقہ اشرافیہ کے تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم بچوں کے مستقبل کے بار ے میں کوئی واضح منصوبہ ملتا ہے۔ سرکاری مدارس کے بچے بغیر کسی منصوبہ بندی کے تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ یہ ہی وجہ ہے کہ آج کی نوجوان نسل مختلف ذہنی اور نفسیاتی الجھنوں کا شکار ہو رہی ہے۔
ہر نفسیاتی مریض پاگل نہیں ہوتا
یہاں ہمیں یہ بات اچھی طرح سمجھ لینے کی ضرورت ہے کہ ہر نفسیاتی مریض پاگل نہیں ہوتا۔ بعض نفسیاتی بیماریاں ایسی ہوتی ہیں جنہیں ماہرِ نفسیات دیکھتا ہے جس میں صرف کونسلنگ کی جاتی ہے۔ کچھ ذہنی امراض ایسے ہوتے ہیں جنہیں ایم بی بی ایس ڈاکٹرز دیکھتے اور ادویات تجویز کرتے ہیں۔ کچھ ذہنی اور نفسیاتی مرض ایسے ہوتے ہیں جو علاج سے ٹھیک ہو جاتے یں، البتہ انہیں طویل عرصے تک کونسلنگ کی ضرورت ہوتی ہے جس کی ہمارے ہاں کوئی مناسب سہولت موجود نہیں ہے۔
سرکاری اسپتالوں کے شعبہ نفسیات میں ڈاکٹروں کے پاس اتنا وقت ہی نہیں ہوتا کہ وہ مریضوں کی بات سن سکیں۔ پاکستان کے کسی اسکول میں کوئی سینٹر نہیں ہے جہاں طلبا کی ان کی چھوٹی چھوٹی نفسیاتی بیماریوں اور مسائل کے بارے میں راہ نمائی کی جائے۔ چناں چہ یہ بچے بڑے ہو کر بے راہ روی کا شکار ہو جاتےاور مختلف ذہنی بیماریوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ ماہرین کے بہ قول جوافراد مستقل ذہنی دباؤ کا شکار رہتے ہیں وہ ذیابطیس کا شکار ہو جاتے ہیں۔
ماہرین کے مطابق پاکستان میں تقریباً پچّیس فی صد افراد ڈپریشن، ذہنی دباؤ یا کسی اور دماغی بیماری سے دوچار رہے ہیں۔ اس کے علاوہ قانونی مسائل بھی ہیں اور اس امر کی نگرانی کرنے کے لیے بھی کوئی نظام موجود نہیں ہے کہ جو سہولتیں فراہم کی جا رہی ہیں وہ معیار کے مطابق ہیں یا نہیں۔ ملک میں ذہنی امراض کے علاج کے لیے ذرایع محدود ہیں۔
ذہنی صحت کے بارے میں حکومت کی کوئی جامع اور واضح پالیسی نہیں ہے۔ سرکاری سطح پر ذہنی بیماریوں کے علاج کے لیے فنڈز اور سہولتیں نہ ہونے کے مساوی ہیں۔ نجی شعبہ بھی اس شعبے میں زیادہ دل چسپی نہیں لیتا کیوں کہ دیگر بیماریوں کے مقابلے میں دماغی امراض کے علاج میں آمدن کے زیادہ مواقع نہیں ہیں۔
ستّر فی صد طلبا ڈپریشن کا شکار
کراچی کے طبی کالجوں میں2006 میں کیے گئے سروے کے نتیجے میں یہ معلومات سامنے آئیں کہ ستّر فی صد طلبا ڈپریشن یا اضطرابی کیفیت سے دوچار ہوتے ہیں۔ طب کی ایک طالبہ کا کہنا تھا کہ انہیں کھانے کی کوئی شے دیکھتے ہی ڈر لگنے لگتا تھا۔ اسے دیکھتے ہی انہیں ہول اٹھتا تھا کہ اگر وہ اس کے قریب بھی گئیں توانہیں کچھ ہو جائے گا۔ اس ڈراور اضطرابی کیفیت نے ان کی زندگی اتنی اجیرن کر دی تھی جس کاوہ تصور بھی نہیں کر سکتی تھیں۔
وہ جس کیفیت سے گزر رہی تھیں اسے طب کی زبان میں 'اینگزائٹی یا 'اضطرابی کیفیت کہتے ہیں اور وہ پاکستان میں ایسے لاکھوں کم عمر افراد میں شامل ہیں جو ذہنی امراض کا سامنا کر رہے ہیں۔ لیکن تیزی سے بڑھتے ہوئے اس مسئلے کے حل کے لیے نہ صرف پاکستان میں دماغی و نفسیاتی صحت کے ماہرینِ کا شدید فقدان ہے بلکہ شاید اس سے بھی بڑی رکاوٹ وہ سماجی طرز عمل ہے جو ذہنی امراض کے بارے میں اب بھی آگاہی نہیں رکھتا اور نہ ہی متاثرہ افراد کو سنجیدگی کے ساتھ لیتا ہے۔
برطانوی طبّی جریدے لین سیٹ میں 2017 میں شایع ہونے والے ایک مضمون میں تخمینہ لگایا گیا ہے کہ پاکستان کی کُل آبادی میں سے تقریباً دو کروڑ افراد کسی نہ کسی قسم کے ذہنی امراض میں مبتلا ہیں۔ بعض ماہرین کہتے ہیں کہ اس تعداد میں ایک بڑا حصہ نوجوان اور کم عمر افراد کا ہے جن کی عمریں تیرہ سے تیس برس کے درمیان ہیں۔ ایک اور تحقیق کے مطابق 1992 ( نوفی صد) سے 2009 (تیس فی صد) تک اسکول جانے والے بچوں میں پائی جانے والی ذہنی بیماریوں میں تین گنا اضافہ دیکھا گیا ہے۔
ان نوجوانوں کی بڑھتی ہوئی تعدادکواضطرابی کیفیت، ڈپریشن، کھانا کھانے سے متعلق مسائل اور کئی دیگر ایسی ذہنی بیماریاں لاحق ہیں جن کے سبب وہ خود کو نقصان پہنچانے پر مصر ہوتے ہیں اور ان میں سے کئی خود کشی کی کوشش کرتے ہیں۔ اس تعداد میں پریشان کن حد تک اضافہ دیکھنے میں آیا ہے اور کراچی کے آغا خان ہسپتال کے ماہر نفسیات پروفیسر مراد موسیٰ خان کی جانب سے کی گئی تحقیق میں سامنے آیا کہ صرف سال 2007 میں پاکستان بھر میں سات ہزار سے زیادہ خود کشی کے واقعات پیش آئے اور یہ تعداد بھی ان کے نزدیک کم تھی کیوں کہ پاکستان میں خود کشی کے واقعات سماجی اور مذہبی وجوہات کی بنا پر ظاہر نہیں کیے جاتے۔
اس کے علاوہ انسٹی ٹیوٹ فار ہیلتھ میٹریکس اینڈ ایوالیوایشن کے مطابق 2016کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں وہ طبی مسائل جن سے معذوری کی تعداد میں اضافہ ہوتا ہے، اس میں ڈپریشن سے پیدا ہونے والی وجوہات چھٹے نمبر پر اور اضطرابی کیفیت سے ہونے والی وجوہات نویں نمبر پر ہیں۔
کئی ماہرین کہتے ہیں کہ تعلیمی اداروں میں نتائج حاصل کرنے اور کام یابی حاصل کرنے کا دباؤ، خاندانی مسائل، سوشل میڈیا اور اس سے منسلک وجوہات، اکیلا پن، کم عمری میں رومانوی تعلقات اور ان میں ناکامی بچوں میں ذہنی امراض بڑھنے کی اہم وجوہات بن گئے ہیں۔ ڈاکٹر مراد موسیٰ کی جانب سے 2006 میں کراچی کے طبی کالجوں میں کیے گئے سروے میں یہ معلومات سامنے آئیں کہ ستّر فی صد طلبا ڈپریشن یا اضطرابی کیفیت سے دوچار ہوتے ہیں۔
جدید طرزِ زندگی اور والدین کی عدم توجہ
ماہرین کے مطابق بچوں کا جدید طرز زندگی اور تعلیمی اداروں میں اچھی کارکردگی دکھانے کا دباؤ ان کو ذہنی امراض کی طرف لے جاتا ہے۔ اس حوالے سے اسلام آباد کی ماہر نفسیات ڈاکٹر ثمرہ کا موقف ہے کہ ان کے کلینک میں آنے والےستّر فی صد سے زاید مریض کم عمر افراد اور نوجوان ہوتے ہیں۔ ان آنے والے بچوں میں سے اکثریت اُن کی ہوتی ہے جن کے اپنے والدین سے اچھے تعلقات نہیں ہوتے۔
ان بچوں میں سے کئی ایسے ہوتے ہیں جن کو گھر میں اپنے والدین سے توجہ نہیں ملتی۔ ان کے والدین اپنی زندگیوں میں اتنے مصروف ہوتے ہیں کہ وہ صرف دنیاوی آسائش فراہم کر کے بچوں کو وقت دینا بھول جاتے ہیں اور جب مسئلہ حد سے زیادہ بڑھ جاتا ہے تو پھر وہ ماہر نفسیات سے رجوع کرتے ہیں۔آنے والے بچوں کی سب سے عام شکایت یہ ہوتی ہے کہ والدین انہیں سمجھنے سے قاصر ہیں اور وہ انہیں وقت نہیں دیتے۔
ایک ماہر ِ نفسیات کے مطابق پاکستان میں ذہنی امراض کو جانچنے میں کمی کی ایک وجہ یہ ہے کہ لوگ اسے باعث خفت سمجھتے ہیں اور اسے یا تو سنجیدگی سے نہیں لیتے یا اس کا علاج کرانے سے ہچکچاتے ہیں۔ ایک وجہ یہ ہے کہ جسمانی بیماری نظر آتی ہے اور اس کی وجہ سے آپ متاثرہ شخص یا بچے لیے ہم دردی محسوس کرتے ہیں اور اسے ڈاکٹر کے پاس لے جاتے ہیں۔ لیکن ذہنی بیماری میں آپ مریض کو ڈانٹتے ڈپٹتے ہیں اور اسے بیماری ہی نہیں سمجھتے تو علاج کروانے کا تو سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔
پانچ لاکھ مریضوں کے لیے ایک نفسیاتی معالج
بعض ماہرین کے مطابق پاکستان میں ذہنی امراض سے متاثرہ افراد میں اضافے کی اہم ترین وجہ ملک میں شدید حد تک قابل ماہر نفسیات کا فقدان اور مریضوں کے لیے ناکافی سہولتیں ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ آبادی کے لحاظ سے ہمارے پاس ماہرین نفسیات کی تعداد انتہائی قلیل ہے۔
عالمی معیار کے مطابق ہر دس ہزار کی آبادی کے لیے ایک ماہر نفسیات ہونا چاہیے، لیکن پاکستان میں محتاط اندازوں کے مطابق ہر پانچ لاکھ افراد کے لیے ایک ماہر نفسیات ہے۔ملک کے بڑے شہروں، مثلا کراچی، لاہور اور اسلام آباد میں تو علاج کے لیے سہولتیں اور ماہرین نفسیات دستیاب ہیں، لیکن ملک کے دیگر حصوں میں ان کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے۔
عالمی ادارہ صحت اور حکومت پاکستان کی جانب سے2009 میں پیش کی جانے والی مشترکہ رپورٹ اس حوالے سے افسوس ناک منظر پیش کرتی ہے۔اس رپورٹ کے مطابق پورے ملک میں ذہنی امراض کے لیے صرف پانچ اسپتال ہیں اور پورے ملک میں موجود ذہنی امراض کے لیے موجود سہولتوں میں سے محض ایک فی صد بچوں اور نوجوانوں کے لیے ہے۔ اس کے علاوہ 2016 میں عالمی ادارہ صحت کے مطابق ملک بھر میں صرف 380ماہرین نفسیات تھے۔تاہم برطانوی جریدے نے2017میں ان کی تعداد 500 کے لگ بھگ بتائی تھی۔
بائی پولرڈس آرڈر
بائی پولرڈس آرڈر ایسا مرض ہے جس کا تعلق آپ کےمزاج کے اتار چڑھاو سے ہوتا ہے۔یہ ایک نفسیاتی مرض ہے جس میں ایک شخص کا موڈ بار بار تبدیل ہوتا رہتا ہے۔ اس مرض میں مبتلا شخص کا مزاج چند منٹ سے کئی دن یاطویل عرصے تک اتار چڑھاو کا شکار رہ سکتا ہے۔
بائی پولر ڈس آرڈر میں مبتلا شخص ایک وقت میں خود کو بہت اچھا محسوس کرتا ہے اور دوسرے ہی لمحے وہ اپنے آپ کو افسردگی میں گھرا پاتا ہے۔ بعض اوقات وہ اپنے آپ کو کافی متحرک محسوس کرتا ہے اور کبھی بغیر تھکے رات دن مسلسل کام کرتا رہتا ہے۔ دوسری جانب ایسا شخص بغیر کسی وجہ کےاپناموڈ خراب کر کے بیٹھا رہتا ہے۔ اگر ایک مخصوص وقت میں ہی اس بیماری کا پتاچل جائے تو مختلف معالجوں اور ادویہ کی مدد سے اس نفسیاتی بیماری پر قابو پایا جا سکتا ہے۔
اگر اس مرض پر توجہ نہ دی جائے تو یہ وقت کے ساتھ بڑھنے لگتا ہے اور بدترین شکل اختیار کر لیتا ہے۔ پھر یہ مرض اس قدر بڑھ جاتا ہے کہ اس میں مبتلا شخص خود کشی کی حد تک پہنچ جاتاہے اور اپنے آپ کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرتا ہے۔ اس مرض میں مبتلا مریض اپنے اوپر قابو نہیں رکھ پاتا اوربعض اوقات حواس کھو دیتا ہے۔
بائی پولر ڈس آرڈر کی ایسی متعدد علامات ہیں جن کی مدد سے یہ پتا لگایا جا سکتا ہے کہ کوئی شخص بائی پولر آرڈر ڈس کی بیماری میں مبتلا ہے یا نہیں۔ اس بیماری کی علامات اکژ لوگوں کی سمجھ میں نہیں آتیں کیوں کہ ایسے لوگ بہت نارمل نظر آتے ہیں۔ رویے میں متعدد تبدیلیوں کے علاوہ بائی پولر ڈس آرڈر کی متعدد علامات ہیں۔ مریض پر ہر وقت ایک عجیب سی جھنجھلاہٹ طاری رہتی ہے۔
وہ اپناذہنی توازن کھو چکا ہوتا ہے، چیزیں بھولنے لگتا ہے، دوسروں سے بات کرنے اور لوگوں میں مل جل کر رہنے کا دل نہیں کرتا، خودکشی کے خیالات اور خود کوختم کرنے کا جی چاہتا ہے، لوگوں کے ساتھ رہ کر بھی خود کو اکیلا محسوس کرتاہے، دوسروں سے بات کرنے میں کوئی دل چسپی نہیں لیتا،کوئی بھی کام کو کرنے میں دل نہیں لگاتا۔ ڈپریشن، نیند نہ آنا، کم زوری اور تھکاوٹ بائی پولر ڈس آرڈر کےاہم اسباب ہیں۔
آگاہی میں اضافے کی ضرورت
ذہنی دباؤ اور اضطراب ایسی حقیقت ہیں جنہیں آپ بدل نہیں سکتے۔ہمیں یہ حقیقت ماننی ہوگی کہ یہ انسانی فطرت کا حصہ ہیں۔ پاکستان جیسے ملک میں ذہنی امراض میں اضافے کے بے تحاشہ عوامل ہیں اور ملکی آبادی، جس کی اکثریت نوجوانوں پر مشتمل ہے، اس سے شدید متاثر ہوسکتی ہے جس کے لیے عوام میں آگاہی بڑھانے کی اشد ضرورت ہے۔ پہلے سماجی حالات مختلف تھے اور لوگوں کے پاس ایسے ذرایع اور سہارے تھے جن کی مدد سے وہ متاثر نہیں ہوتے تھے، لیکن اب معاملہ ایسا نہیں ہے۔
خاص طور پر کم عمر افراد پر گھر یا تعلیمی اداروں سے پڑنے والا دباؤ انہیں مشکل میں ڈالتا ہے، وہ ناکامیوں کا سامنا نہیں کرپاتے اور ذہنی امراض کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ہمیں بہت ضرورت ہے کہ نفسیاتی امراض کے بارے میں آگاہی بڑھائیں اور اس کےعلاج میں حائل رکاوٹوں کو دور کیا جائے۔بعض اوقات کونسلنگ بھی مہینوں چلتی ہے۔
یہ بات سمجھنے کی سخت ضرورت ہے کہ کسی ماہر سے بات چیت کرنا بہت سود مند ہوتا ہے اور وہ پریشانیوں کو کم کرنے میں مدد دیتا ہے۔ اپنے ذہنی اور نفسیاتی مسائل کو حقیقت مانیں کہ یہ انسانی فطرت کا حصہ ہیں اور صرف اسی صورت میں ان مسائل کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔