• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان میں سیاسی حدود وقیود ختم ہوتی جارہی ہیں۔ سیاسی شائستگی اور اخلاقیات کو بری طرح تباہ کیا جارہا ہے، بیانات کے ذریعے اور مختلف قسم کی افواہیں پھیلا کر عوام کو گمراہ کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں، نئی نئی اصطلاحات ایجاد کرکے اداروں کی توہین کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

اس سے قطع نظر کہ ایسی افواہوں اور گمراہ کن بیانات سے ملک کو کتنا نقصان پہنچتا ہے، پاک فوج میں تفریق پیدا کرنے کیلئے ناکام لیکن گمراہ کن بیانات دئیے جارہے ہیں۔

یہ کونسی سیاست اور جمہوریت ہے کہ ہر ایرا غیرا اٹھ کر اہم ترین اداروں اور ان کی اعلیٰ قیادت کے بارے میں لغو اور گمراہ کن بیانات دینا شروع کردے۔ سیاست سے اخلاقیات اور سماجی اقدار کو تو پہلے ہی خارج کرناشروع کر دیاگیا تھا۔ اب تو ہر حد کو پھلانگا جارہا ہے۔

اپنی سیاسی اور حکومتی ناکامیوں کا ملبہ کبھی امریکہ ودیگر ممالک پر اور کبھی اداروں پر ڈالنے کی ناکام کوشش کی جارہی ہے۔ یہ حق کسی کو بھی نہیں دیا جاسکتا کہ ملکی وقار، سالمیت اور اداروں کوذاتی وسیاسی مفاد کیلئےدائو پر لگایا جائے، ایسی مذموم کوششوں کو ریاست کے خلاف سازش نہیں تو اور کیا کہا جاسکتا ہے۔

امریکہ، یورپ، چین اور عرب ممالک سے تعلقات کو خراب کرنے کا ذمہ دار کون ہے اس کی تحقیق کی ضرورت اس لیے نہیں ہے کہ یہ سب روز روشن کی طرح عیاں ہے۔اپنے دور حکومت میں آئی ایم ایف کے پاس کیوں گئے تھے بلکہ بطور وزیراعظم خود آئی ایم ایف کے عہدیداروں سے ملاقاتیں اور منت سماجت کرنے والے کون تھے۔

یہ وہی آئی ایم ایف تھا کہ اقتدار میں آنے سے پہلے اس ادارے کے پاس جانے کے بجائے خودکشی کرنے کے جھوٹے دعوے کئے گئے تھے۔ اس وقت اور بعد کے اقدامات میں واضح تضاد کو قوم نہیں بھولی۔

اسی آئی ایم ایف کے ساتھ سخت ترین شرائط پر معاہدہ کرکے ملک میں مہنگائی کا سیلاب لانے والے کون تھے۔ خود کشی کو آئی ایم ایف کے پاس جانے پر ترجیح والوں نے معاہدے کے بعد یہ نہیں کہا تھا کہ ان کو تو آئی ایم ایف کے پاس پہلے ہی جانا چاہیے تھا۔

اب یہ وہی سخت ترین معاہدہ ہے جس کے بوجھ تلے نہ صرف موجودہ حکومت پھنسی ہوئی ہے بلکہ عوام کا وجود بھی چکنا چور ہورہا ہے۔ الٹا اب یہ کہا جارہا ہے کہ موجودہ حکومت نے آئی ایم ایف کے آگے گھٹنے ٹیک دئیے ہیں۔ اور اس نئے لغو بیانیہ پر قوم کو گمراہ کرنے کی ناکام کوشش کی جارہی ہے۔

بجلی کے بل جلانے ، اوور سیز پاکستانیوں کو اپنا پیسہ پاکستان میں بینکوں کے بجائے ہنڈی کے ذریعے بھیجنے کی ترغیب دلانے والے کیا اس ملک کی ترقی کے خواہاں تھے۔ جب خود برسر اقتدار آئے تو بیرون ملک مقیم ان ہی پاکستانیوں سے بینکوں کے ذریعے پیسے بھیجنے کی دہائیاں دے رہے تھے ۔

اگر موجودہ حکومت یا کوئی ادارہ اس ملک اور قوم کی بہتری کیلئے کوئی کوشش اور اقدامات کرتے ہیں تو ان کے راستے میں روڑے اٹکانے والوں کو کیا کہا جائے۔ اگر سابق حکومت نے اس ملک اور قوم کی بہتری کے لیے اپنے دور اقتدار میں کچھ کیا ہے تو اب اپنے جلسوں اور بیانات میں ان کا ذکرکیوں نہیں کرتے ۔

صاف ظاہر ہے کہ انہوں نے اپنے دور اقتدار میں سوائے انتقامی کارروائیوں اور مہنگائی و بیروزگاری میں اضافہ کرنے کے کچھ کیا ہی نہیں ہے۔اس لئے اب ہر روز ایک نیا بیانیہ جو بے بنیاد ہوتا ہے لے کر قوم کو اپنے خطاب سے نوازتے رہتے ہیں۔

 پاکستان ایک مضبوط ملک ہے یہاں 23کروڑ محب وطن لوگ بستے ہیں۔ مضبوط مسلح افواج اور ادارے ہیں جن کو دنیا تسلیم کرتی ہے۔ آزاد عدلیہ اور الیکشن کمیشن ہے۔ غرض ہر ادارہ آئین پاکستان کے تحت اپنے اپنے دائرہ اختیار میں رہتے ہوئے متحرک ہے۔ اور یہ سب اس ملک اور قوم کے دفاع اور ترقی وخوشحالی کے لیے کوشاں ہیں۔ اس لیے کوئی جومرضی کوشش کرلے نہ تواس ملک کو نقصان پہنچا سکتا ہے نہ اداروں کوکمزور کرسکتا ہے اور نہ ہی پاک فوج میں کوئی خلیج یا تفریق پیدا کر سکتا ہے۔

 پاک فوج سے باہر ایسے احمقوں کو شاید معلوم ہی نہیں ہے کہ ملک میں یہ واحد ادارہ ہے جو ایک منظم اور مضبوط ڈسپلن پر کاربند ہے اور اسی وجہ سے دنیا بھر میں اس ادارے کو مثالی کہا جاتا ہے۔ بحیثیت سابق وزیر اعظم یہ لازمی ہوتا ہے کہ اقتدار سے باہر ہونے کے بعد بھی اداروں کی اہمیت کو مدنظر رکھتے ایسے بیانات سے گریز کیا جائے جوگمراہ کن اور اداروں کی ساکھ کو نقصان پہنچاتے ہوں۔

ایف اے ٹی ایف کے معاملہ میں بہتری کے واضح آثار ہیں اور یہ پاک فوج اور اس کی اعلیٰ قیادت کی کوششوں کاثمر ہے۔ اس کیلئے جوبھی افراد ان کوششوں میں شامل رہے ہیں وہ سب لائق تحسین اور صحیح معنوں میں محب وطن ہیں۔ اس کا سہرا بلاشبہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ، ان کی مقرر کردہ ٹیم اور متعلقہ اداروں کے سر ہے ۔

 سابقہ دور حکومت میں ناراض ہونے والے ممالک سے بات چیت کا عمل جاری ہے اور ان میں کافی کامیابیاں ملی ہیں۔ جن کے نتائج جلد قوم کے سامنے آجائیں گے۔

کوشش یہ کی جارہی ہے کہ ملک کو ایک بار پھر ترقی اور خوشحالی کی اس پٹری پر چڑھایا جائے جس سے اس کو اتارا گیا تھا۔ اور آنیوالی حکومت یکسوئی کے ساتھ ملک وقوم کوترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑا کرنے کیلئے اقدامات اور جدوجہد کرسکے۔

اس مقصد کے حصول کیلئے قوم کو صبر اور برداشت کا مظاہرہ کرنا ہوگا تاکہ غربت، بے روزگاری اور معاشی مشکلات سے ہمیشہ کیلئے نجات حاصل کی جاسکے۔

ملک میں عدم استحکام اور اداروں کو کمزور کرنے والے یہ نہ سمجھیں کہ سب سوئے ہوئے ہیں سب جاگ رہے ہیں اور سب پر نظر ہے۔ ایسے لوگ اپنے آپ کو کمزور اور اپنے لئے گڑھا کھود رہے ہیں۔ ذرائع کے مطابق یہ سب جلد سامنے آجائیں گے۔

تازہ ترین