• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سب سے پہلے یہ بتاتا چلوں کہ مسلم ملکوں میں صرف 498 یونیورسٹیاں ہیں جبکہ امریکہ میں 5758، ہمارے ہمسائے اور ’’دشمن‘‘ نمبر ایک بھارت میں امریکہ سے بھی زیادہ یعنی8500 یونیورسٹیاں ہیں۔ دوسری طرف ڈیلی ٹائمز کے ایک سروے کے مطابق پاکستان میں285مذہبی جماعتیں اور پارٹیاں کام کررہی ہیں جن میں سے28سیاسی اور مذہبی جماعتیں ہیں جبکہ124نے اپنا ٹارگٹ جہاد بنارکھا ہے۔

مسلم ممالک میں شرح خواندگی25سے28فیصد کے درمیان ہے اور بعض ملکوں میں تو محض دس فیصد تک ہے،ایسے ممالک کی تعداد25کے لگ بھگ ہے جبکہ ایک بھی مسلم ملک میں شرح خواندگی سوفیصد نہیں ہے.

 ایک رپورٹ کے مطابق او آئی سی میں76 مسلم ملک شامل ہیں اور ان میں بین الاقوامی سطح کی محض پانچ یونیورسٹیاں ہیں یعنی تیس لاکھ مسلمانوں کیلئے ایک یونیورسٹی۔جبکہ امریکہ میں 6ہزار ، جاپان میں نوسو پچاس چین میں نوسو اور بھارت میں8500نجی وسرکاری یونیورسٹیاں کام کررہی ہیں۔

ادھر پوری دنیا میں یہودیوں کی تعداد ایک کروڑ چالیس لاکھ ہے اور مسلمان سوا ارب ، یعنی ایک یہودی سو مسلمانوں کے برابر ہے، دوسرے لفظوں میں ایک یہودی سو مسلمانوں پر بھاری ہے، گزشتہ ایک صدی میں71یہودیوں کو تحقیق، سائنس اور ادب کے شعبے میں نمایاں خدمات کے عوض نوبل انعام مل چکا ہے جبکہ مسلم دنیا میں صرف تین افراد یہ انعام حاصل کرسکے ہیں۔

یہاں تک کہ ’’کنگ فیصل انٹر نیشنل فائونڈیشن سعودی عرب‘‘ جو ایک مسلم آرگنائزیشن ہے ،کی جانب سے دئیے جانے والے کنگ فیصل ایوارڈ کیلئے میڈیکل سائنس اور تحقیق وادب کے شعبے میںکوئی ایک امید وار بھی شرائط پر پورا نہیں اترتا۔

کیا یہ بات نیل کے ساحل سے لیکر تابخاک کا شغرکے مسلمانوں کیلئے باعث شرم نہیں کہ ڈیڑھ کروڑ یہودی ہرمیدان میں پیش پیش ہیں؟22عرب ممالک بھی ملکر اسرائیل کی ایک اینٹ تک نہیں اکھاڑ سکے نہ سائنس میں، نہ تحقیق وریسرچ میں نہ میڈیکل میں اور نہ ہی بے تیغ سپاہی کے طور پر ۔ اس کے برعکس سواارب سے زائد مسلمان اختلاف وانتشارکا شکار ہیں۔

میرا سوال ہے کہ کیا مغرب کی جدید سائنس وٹیکنالوجی کے بغیر مسجد الحرام میں30لاکھ افراد کے بیک وقت نمازیں پڑھنے کا عمل ممکن تھا؟ حرم شریف میں بجلی کا جدید نظام، آسمان کو چھوتی عمارتیں،کیا یہ سب سائنس کی وجہ سے عالم وجود میں نہیں آیا؟ یہ سب مغربی تعلیم اور عیسائی یا یہودی سائنس دانوں کی وجہ سے ہی ممکن ہوا ہے۔

درجنوں منزلوں پر لاکھوں نمازیوں کو چند لمحوں میں لے جانے والی جو لفٹس ہیں وہ ’’مومنوں‘‘ کی ایجاد نہیں ، حرم میں بہترین قسم کا سائونڈ سسٹم ہے جس سے حرم شریف اور اس کے اطراف کی درجنوں بلڈنگوں میں واقع ہزاروں کمروں میں بھی امام کی آواز واضح سنائی دیتی ہے یہ سائونڈ سسٹم بھی مسلمانوں کی ایجاد نہیں ہے۔

عالمی سطح پر تعلیمی میدان میں مسلمانوں کا تناسب 6.3فیصد ہے اور اسی عالمی سطح پر مسلمان دوسری قوموں سے85سال پیچھے ہیں، جب ساتویں صدی میں تاتاریوں نے حملہ کیا تو ہم سے ایک بھیانک غلطی ہوگئی ہم نے دینی علوم کو عصری وجدید علوم کے مقابل لاکھڑا کیا وہیں سے علم دوستی جاتی رہی اور آج ہم مغرب سے 700سال پیچھے ہیں ۔

اندلس میں مسلمانوں کی آٹھ سوبرس حکومت کے باوجود آج غرناطہ اور قرطبہ کے کھنڈرات اور الحمرا کی باقیات کے سوا اسلام کے پیروکاروں اور اسلامی تہذیب کے آثار کا کوئی نقش نہیں ملتا،یہی حال سونے کی چڑیا ہندوستان کا ہے یہاں بھی آگرہ کا تاج محل ، دلی کے لال قلعہ اور لاہور کی جامع مسجد وغیرہ وغیرہ کے سوا مسلمانوں کی ہزار سالہ حکومت اور اسکی تہذیب کا کوئی نشان نہیں ملے گا۔

تعلیم کے میدان میں مسلمانوں کا زوال1350کے بعد تیزی سے ہوا ۔ مسلم سلاطین میں ایک بڑی کمی یہ تھی کہ انہوں نے تعلیم گاہوں کی جانب کوئی دھیان نہ دیا نہ ہی اتنے مدرسے، اسکول، یونیورسٹیاں اور تجربہ گاہیں بنائیں جیسی کہ دوسری قوموں نے بنائیں اور نہ ہی تعلیم کو وہ اہمیت دی جوکہ دی جانی چاہیے تھی۔

 دوسری طرف نصرانی، یونانی وغیرہ علوم سے فیض یاب ہوتے رہے اور یہی نہیں بعد میں انہوں نے بین الاقوامی شہرت کی تجربہ گاہیں بھی بنوائیں جنہیں ’’ شمسیہ‘‘ کے نام سے جانا جاتا تھا۔ مسلمانوں نے علوم بالخصوص سائنس کے تئیں جو بےرخی برتی وہ آج بھی برقرار ہے، حکومت چاہے ہندوستان کے مغلوں کی ہو، ایرانی صفوی حکمرانوں کی ہو، عثمانی ترکوں کی یا دیگر سلاطین کی ہو۔

 سوال یہ ہے کہ اسلامی دنیا میں سائنسی علوم کا مطالعہ کیوں ختم ہوگیا اور مسلمان اس علمی ترقی سے کیوں مستفیض نہ ہوسکے۔ طویل اور تلخ واقعات کی تفصیل میں جائے بغیر میرے حساب سے جو علم کے دروازے پر دستک دے گا اسی کیلئے دروازہ کھلے گا یہی وجہ ہے کہ علم کا در توہے لیکن مسلمانوں کیلئے نہیں، جنہوں نے دستک دی اُن کیلئے…

ظالم ہیں مظلوم بھی ہم ہر شہر سے منسوب ہیں ہم

ایسا حال ہوا کیوں اپنا میں بھی سوچوں تو بھی سوچ

تازہ ترین