رانا اعجاز حُسین چوہان
دولت کی ہوس نے ہمارے بہت سے تاجروں اور دُکان داروں کو دیانت دار نہیں رہنے دیا، ان کے دِلوں سے انسانی ہم دردی اور خوفِ خدا جیسی صفات مِٹ چُکی ہیں۔ راتوں رات امیر بننے کی چاہ میں وہ کچھ بھی کرنے کو تیار ہو جاتے ہیں، جو ہمارے دینِ اسلام میں گناہِ کبیرہ بتلایا گیا ہے۔ ناجائز منافع خوری، ناپ تول میں کمی، اشیائے خور و نوش میں ملاوٹ اور خود ساختہ منہگائی ہمارا وتیرہ بن چکا ہے۔ اشیائے خور و نوش میں سب سے سستا نمک ہے، مگر صد افسوس کہ ملٹی نیشنل کمپنیز کے پیک شدہ نمک کی فروخت بڑھانے کے لیے عام خوردنی نمک میں بھی پتھر کی ملاوٹ کی جارہی ہے۔
چنے کے چھلکوں سے چائے کی پتی اور پھر اس میں جانوروں کا خون اور مضرِ صحت رنگ۔ بیکریز میں گندے انڈوں کا استعمال، آٹے میں میدے کی آمیزش، سُرخ مرچوں میں چوکر، اینٹوں اور لکڑی کا بورا، کالی مرچوں میں پپیتے کے بیج کی ملاوٹ، معروف برانڈز کے ڈبّوں میں غیر معیاری اشیاء کی پیکنگ جیسی دھوکا دہی ہمارے معاشرے میں عام ہے۔ ملاوٹ مافیا کہیں خطرناک کیمیکلز، سوڈیم کلورائیڈ، فارمالین، ڈٹرجنٹ اور پانی کی آمیزش سے دودھ تیار کرکے فروحت کررہی ہے، تو کہیں دودھ کی مقدار بڑھانے کے لیے اس میں پروٹین، چکنائی، کوکنگ آئل، یوریا اور دیگر مضرِ صحت کیمیکلز شامل کیے جارہے ہیں۔
اسی طرح ٹافیوں، پرفیومز، شیمپوز، میک اپ کے سامان میں مختلف بیماریوں کا باعث بننے والی اشیاء کی ملاوٹ کی جارہی ہے۔ کہیں گوشت کا وزن بڑھانے کے لیے ذبیحہ کی شہ رگ میں پانی کا پریشر استعمال کیا جارہا ہے، تو کہیں گدھے، گھوڑے، کتّے اور مُردار کا گوشت مدغم کر کے فروخت کیا جا رہا ہے۔ مرغیوں کی چربی سے بنے ناقص گھی اور تیل میں بیسن کی بوندیاں اور بچّوں کے کھانے کی چیزیں تلی جارہی ہیں۔
جب کہ ہماری نہروں میں شہر بھر کے گٹروں کا پانی ڈالا جارہا ہے، جو بعد ازاں نہروں سے کھیتوں میں جاتا ہے اور پھر اسی گندے اور زہریلے پانی میں سبزیاں کاشت کی جارہی ہیں۔ اشیائے خور و نوش کی اس گمبھیر صُورتِ حال کے نتیجے میں بچّوں کی نشوونما متاثر ہو رہی ہے اور شہریوں بالخصوص بچّوں میں بیماریاں پھیل رہی ہیں۔ ہر چوتھا پاکستانی منہ، جگر کے کینسر، ہیپاٹائٹس، گُردوں کے امراض، شوگر، بلڈ پریشر، جِلدی امراض اور معدے کے عوارض میں مبتلا ہے، شاید ہی کوئی گھر ایسا ہو، جس میں کوئی مریض نہ ہو۔ اس پر ستم ظریفی یہ کہ مضرِ صحت اشیاء کے ہاتھوں بیمار ہونے کے بعد خالص ادو یہ تک دست یاب نہیں، کیوں کہ ادویہ میں بھی ملاوٹ کی بھرمار ہے۔
دوسری طرف، بہت سے تاجر اور دُکان دار گاہک کو بظاہر تو پوری چیز دیتے ہیں، لیکن حقیقت میں وہ مقدار سے خاصی کم ہوتی ہے۔آہ! کس کس چیز کا ذکر کیا جائے۔ غرض یہ کہ آج بہت سے افراد دونوں ہاتھوں سے ناجائز دولت سمیٹنے کے لیے ہر وہ قدم اُٹھا رہے ہیں، جس کی منزل دنیا میں حصولِ زر اور آخرت میں جہنّم کا ایندھن کے علاوہ کچھ نہیں۔ خود غرضی نے انہیں اس قدر حریص بنا دیا ہے کہ وہ انسانیت کی تمام حدیں پار کرنے اور دوسروں کی جان لینے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔ گو کہ ہر صوبے میں کنزیومر پروٹیکشن ایکٹ موجود ہے۔
تعزیراتِ پاکستان کے باب 14میں بھی اِس حوالے سے قانون موجود ہے اور پیور فوڈ آرڈیننس 1960ء میں بھی سزائیں تجویز کی گئی ہیں، مگر طبیعت میں خیانت ہو تو قانون کی حیثیت ہی کیا رہ جاتی ہے۔ مُردہ ضمیر لوگ چند پیسوں کے لالچ میں انسانی زندگیوں سے کھیلتے ہی چلے جا رہے ہیں، انھیں خوفِ خدا ہے اور نہ ہی آخرت کی فکر۔ کچھ عرصے سے پنجاب فوڈ اتھارٹی ملاوٹ مافیا کے خلاف اور اشیائے خور و نوش کا معیار بہتر بنانے کے لیے حرکت میں آئی ہے، جو کہ اس گھٹا ٹوپ اندھیرے میں چراغ کی مانند ہے۔
بلاشبہ، پنجاب فوڈ اتھارٹی کے جرمانوں کے بعد بیکریز اور ہوٹلز میں صحت و صفائی کا معیار کسی حد تک بہتر ہوا ہے، لیکن ایسے غیر انسانی فعل پر ملاوٹ مافیا کو محض تھوڑا بہت جرمانہ یا عارضی طور پر ان کا کاروبار بند کیا جانا کافی نہیں، ضرورت اِس امر کی ہے کہ انہیں عبرت ناک سزائیں دی جائیں اور اس سلسلے میں مزید سخت قوانین بنائے جائیں تاکہ انسانی زندگیوں سے کھیلنے والے ان بے ضمیروں کا قلع قمع ہوسکے۔ بلاشبہ، انسانی جانوں سے کھیلنے والے کسی رعایت کے مستحق نہیں۔
ملاوٹ، ناجائز منافع خوری اور ناپ تول میں کمی کے حوالے سے اسلام کی تعلیمات واضح ہیں، جن میں اِن امور سے اجتناب کی سختی سے ہدایت کی گئی ہے۔ ایک بار آپ صلی اللہ علیہ و سلم مدینہ منورہ کے بازار میں تشریف لے گئے اور دیکھا کہ اناج کا ڈھیر لگا ہے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ہاتھ ڈال کر دیکھا ،تو اناج گیلا تھا، جیسے اس میں پانی ملا دیا گیا ہو۔ اس پر آپؐ نے سخت تنبیہ کرتے ہوئے فرمایا، ’’جس نے ملاوٹ کی وہ ہم میں سے نہیں۔‘‘
یعنی کسی مسلمان سے اِس بات کی توقّع ہی نہیں کی جاسکتی کہ وہ خرید و فروخت میں دھوکا دہی سے کام لے گا۔ ایک دوسرے موقعے پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا،’’ جو شخص جھوٹ بول کر اپنا سامان فروخت کرے، اللہ تعالی قیامت کے دن اُس کی طرف رحمت کی نگا ہ نہیں فرمائیں گے۔‘‘اسلام نے ناپ تول میں کمی کو بھی ایک سنگین جرم قرار دیا ہے۔
قرآنِ پاک میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے،’’ پس پورا پورا ناپو اور تولو اور لوگوں کی چیزوں میں کمی نہ کرو‘‘ (سورۃ الاعراف)،’’اور ناپ تول میں کمی نہ کرو‘‘ (سورۂ ہود)،’’جب کوئی چیز ناپ کر دو، تو پورا پورا ناپو اور ٹھیک ٹھیک ترازو سے تولو۔‘‘ (سورۃ الشعراء)، ’’اور اللہ نے آسمان کو بلند کیا اور ترازو بنایا تاکہ تم تولنے میں حد سے تجاوز نہ کرو اور وزن کو انصاف کے ساتھ قائم رکھو اور ترازو کو گھٹاؤ نہیں۔‘‘ (سورۃ الرحمٰن)، ’’بربادی ہے ناپ تول میں کمی کرنے والوں کے لیے۔‘‘( سورۃ المطففین)۔ لہٰذا، ہمیں اسلامی تعلیمات کی پیروی کرتے ہوئے خرید و فروخت کے معاملات شفّاف رکھنے چاہئیں۔