• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مراثی چائے پاپے کا ناشتہ کر رہا تھا۔ بیوی چولہے کے پاس بیٹھی تھی ۔ بیٹے نے پرانے سے ٹیپ ریکارڈر میں کیسٹ ڈالی اور بٹن دبا دیا۔ بیان شروع ہوگیا۔ ماواں ٹھنڈیاں چھاواں، ماں جیسا کوئی نہیں، جس گھر میں ماں نہیں وہاں رحمت نہیں ہوتی، ماں کے پیروں تلے جنت ہے، ماں کی دعا جنت کی ہوا … مراثی خاموشی سے ناشتہ کرتا رہا، اُدھر ٹیپ چلتی رہی۔ دس پندرہ منٹ یہی آواز آتی رہی تو مراثی نے سوالیہ نظروں سے بیٹے کی طرف دیکھا’’ پُتر میں بی سائیڈ پہ ہوں؟‘‘۔

باپ عموماً اتنا سنجیدہ ہوتا نہیں جتنا اُسے بنادیا جاتا ہے۔ اپنے اپنے والد گرامی کے بچپن کے دوستوں سے پوچھئے، زیادہ تر یہی جواب دیں گے کہ وہ بچپن میں بہت شرارتی تھے، کھل کر ہنسا کرتے تھے اور زندگی کے مزے لیا کرتے تھے۔ تو سوال یہ ہے کہ پھر ایسا کیا ہوا کہ جونہی ایک آدمی باپ بنا، اُس میں سنجیدگی در آئی، چہرہ سپاٹ ہو گیا اور شرارت مفقود ہو گئی۔ اس میں پہلا کردار عموماً ماں ادا کرتی ہے۔ گڈو فلاں کام مت کرو تمہارے باپ کو پتا چل گیا تو اس نے تمہیں الٹا لٹکا دینا ہے۔ گڈو اچھے نمبروں سے پاس ہونا ورنہ تمہارے باپ نے تمہیں نہیں چھوڑنا۔ گڈو آنے دو تمہارے باپ کو میں بتاتی ہوں تمہارے کرتوت۔ اور گڈو کو احساس ہونا شروع ہو جاتا ہے گویا باپ کوئی بدمعاش ہے۔ بچپن میں بچے ماں باپ سے مانوس ہوتے ہیں، باپ سے لاڈ پیار بھی کرتے ہیں لیکن جوں جوں بڑے ہوتے جاتے ہیں اُنہیں لگنے لگتا ہے کہ باپ تو صبح بن ٹھن کے گھر سے نکل جاتا ہے، بیچاری ماں گھر میں ہانڈی روٹی کرتی ہے، صفائی کرتی ہے اور سارا گھر سنبھالتی ہے۔ رات کو باپ گھر آتا ہے تو اسے باتیں کرنی ہوتی ہیں، آٹھ نو گھنٹے کی ڈیوٹی کے بعد اُسے بیوی بچوں کی آواز سننا ہوتی ہے۔ لیکن گھر آتے ہی سب اس کے سامنے مودب ہو جاتے ہیں۔ وہ کوئی ہلکی پھلکی بات بھی کرنے کی کوشش کرے تو اتنا مختصر اور تمیز دار جواب ملتا ہے کہ اس کی ہمت ہی نہیں پڑتی بلاوجہ بچوں سے فری ہونے کی۔ کھانا چن دیا جاتا ہے۔ باپ روٹی کھاتا ہے اور ٹی وی ٹاک شو دیکھتے ہوئے سو جاتا ہے۔ بچوں کو علم ہی نہیں ہو پاتا کہ اُن کے گھر میں گھی کیسے آتا ہے، چینی کون لے کر آتا ہے، بجلی گیس کے بل کون بھرتا ہے، ان کی فیسوں کے پیسے کہاں سے آتے ہیں اور گھر کا نظام کیسے چلتاہے؟ یہ باپ ہی ہے جس کو دورانِ ڈیوٹی بھی یاد رہتا ہے کہ گھر میں کتنا گھی باقی رہ گیا ہے، انڈے کتنے ہیں، موٹر سائیکل میں پٹرول کتنا ہے اور آٹا کب تک چلے گا۔ باپ فاسٹ فوڈ کا شیدائی نہیں ہوتا، اُس نے گھر آ کر ہی کھانا ہوتا ہے۔ یہ باپ ہی ہوتا ہے جو باہر کے کھانے کی بدتعریفی بھی کرتا ہے اور بچوں کے لیے فاسٹ فوڈ بھی منگوا لیتا ہے۔ اولاد نہیں جانتی کہ ان کے موبائل خریدنے کے لیے4 باپ نے دفتر سے کتنا ایڈوانس لیا تھا، بیٹے کے لیپ ٹاپ کی بیٹری ڈلوانے کے لیے کون سی بچت کی تھی۔ باپ گھر کا درخت تو ہوتا ہے لیکن اسے کوئی پانی نہیں ڈالتا، صرف پھل کھاتے ہیں۔ ماں دُکھ کے عالم میں ہو تو رو بھی سکتی ہے، باپ کو تو یہ سہولت بھی میسر نہیں۔ کئی بچوں نے تو پیسے بھی مانگنے ہوں تو ماں سے کہتے ہیں اور وہ پھر باپ سے لے کر دیتی ہے۔ گویا باپ بچوں کے ساتھ اس انٹریکشن سے بھی محروم ہو جاتا ہے۔ ضروری نہیں ہر باپ ایسا ہی ہو لیکن عموماً ایسا ہی ہوتا ہے۔ گھر بھی باپ ہی بناتا ہے۔ بیٹا گھر بنانے کے بارے میں تب سوچتا ہے جب خود باپ بن جاتا ہے۔ آپ نے کبھی کسی یونیورسٹی یا کالج کے اسٹوڈنٹ سے سنا ہے کہ میں اپنا گھر بنانا چاہتا ہوں؟ یہ خواہش ایک باپ کے دل میں ہی جنم لیتی ہے۔ یہ جو باپ اپنے بیٹے سے پوچھتا ہے کہ کہاں جا رہے ہو، کب آئو گے، ابھی تک کیوں نہیں آئے؟ یہ اس لیے پوچھتا ہے کہ زمانے کو جانتا ہے، گھر سے باہر کے خطرات کو سمجھتا ہے۔ یہ اولاد کی بھوک کو اُن سے زیادہ سمجھتا ہے۔ یہ کبھی نہیں بتاتا کہ گھر چلانے کے لیے یہ کہاں کہاں سے پڑھے لکھے انداز میں بھیک مانگ کر آیا ہے۔ یہ اسی لیے دفتر کی باتیں گھر میں نہیں کرتا۔ اولاد پڑھ لکھ جائے تو ان کی نوکریوں کے لیے یہ باپ ہی لوگوں کی خوشامد کرتا پھرتا ہے۔ میں نے کئی ایسے لڑکے دیکھے ہیں جو بال کٹوانے کے لیے سیلون کے علاوہ کہیں نہیں جاتے، لیکن ان کے باپوں کو جب بھی دیکھا فٹ پاتھ پر بیٹھے حجام کے آگے سرجھکائے دیکھا۔ اس لیے کہ باپ پہلے دل میں حساب لگاتا ہے کہ خرچہ کتنا ہوگا۔ یہ بچت وہ صرف اس لیے کرنا چاہتا ہے تاکہ مہینے بھر کا بجٹ متاثر نہ ہو جائے۔ اس کے باوجود ایک سنہری جملہ اولاد کی طرف سے ضرور سننے کو ملتاہے’ابو آپ نے ہمارے لیے کیا ہی کیا ہے؟‘ اولاد بالکل ٹھیک کہتی ہے، باپ نے اپنی محنت کی تشہیر ہی نہیں کی تو اولاد کیسے جانے گی؟ اُس کی تو ساری زندگی اے ٹی ایم کی طرح گزر گئی۔ گھر میں پیسے دیے، مکینوں کی خوشی بھری ٹوں ٹوں سنی اور باہر نکل گیا۔

آپ نے کئی مائیں دیکھی ہوں گی جو اپنی پچیس سال پرانی شادی کے دُکھڑے اولاد کو سنا کر ہمدردیاں سمیٹتی ہیں، لیکن بہت کم ایسے باپ دیکھے ہوں گے جو اولاد کو بتائیں کہ سسرال نے اُن کے ساتھ کیا سلوک کیا تھا؟ میری کل ایک سیکنڈ ایئر کے بچے سے بات ہو رہی تھی، کہنے لگا ’ میرے ابو نے ماضی میں میری امی پر بہت ظلم کیے ہیں۔‘ میں نے پوچھا ’بیٹا آپ کو کیسے پتا چلا؟‘ اطمینان سے بولا’’امی نے بتایا ہے‘‘۔ میں نے کچھ دیر توقف کے بعد سوال کیا’کیا آپ کے ابو پر بھی آپ کی امی نے کوئی ظلم کیا ہے؟‘۔ ایک دم سے نفی میں سر ہلا کر بولا ’بالکل نہیں‘۔ میں نے اسے غور سے دیکھا’ یہ بات آپ اتنے یقین سے کیسے کہہ سکتے ہیں؟ ‘کندھے اچکا کر بولا ’کیونکہ ابو نے آج تک ایسی کوئی بات بتائی ہی نہیں‘۔

تازہ ترین