• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
رابطہ…مریم فیصل
وزیر اعظم بورس جانسن کا یہ حال ہے کہ اِدھر نکلے تو اُدھر پھنسے ،مطلب کچھ ایسا ہوا کہ آسمان سے گرے کھجور میں اٹکے، عدم اعتماد سے بچے تو بائی الیکشن کے نتائج میں جا پھنسے ،ضمنی انتخابات میں ٹوری پارٹی کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا اور یہ ناکامی بتا رہی ہے کہ برطانوی عوام کس قدر ناراض ہیں، اس وقت کنزرویٹو پارٹی اور ملک کے وزیر اعظم جو نہ ہی بڑھتی مہنگائی کو کم کر رہے ہیں نہ ہی پیٹرول کی قیمت کو کم کر پا رہے ہیں لیکن کمال ہمت ہے بورس جانسن کی کہ اتنے سائیکلوجیکل ٹروما کے بعد بھی اس تیاری میں ہیں کہ وزارت کاتیسرا ٹرم بھی پورا کر لیں حالانکہ اس وقت تو حالات ان کے حق میں ساز گار نظر نہیں آرہے ہیں کیونکہ کورونا کے بعد برطانوی عوام اپنی زندگیوں کو نارمل انداز سے گزارنے کی تگ و دو میں لگے ہیں لیکن اس میں رکاوٹ بڑھتی ہوئی مہنگائی اور پھر جس طرح برطانیہ جنگ میں یوکرین کا ساتھ دے رہا ہے اس سے بھی کچھ چہ میگوئیاں ہو رہیں ہیں کہ یہ جنگ ختم کیوں نہیں ہو رہی کیونکہ جب تک یہ جنگ جاری رہے گی نہ پیٹرول کی قیمت کم ہو گی اور نہ ہی مہنگائی میں، سونے پر سہاگہ ٹرین کی ہرتالیں ہیں جو مزید مشکلات بڑھا رہی ہیں، گھر سے کام کے اس دور میں ان کے لئے جو سفر کرنے پر مجبور ہیں وہ پریشان ہیں کہ یہ نئی مشکل کیا ہے، صورتحال اچھی نہیں ہے اور اب تو دوبارہ سے کورونا بھی سر اٹھا رہا ہے حالانکہ اب ویکسین کی وجہ سے یہ اتنا خطر ناک نہیں رہا ہے جتنا وبا کے آغاز میں تھا لیکن پھر بھی جان لیوا تو اب بھی ہے اور اس سے لوگ دوبارہ سے متاثر بھی ہو رہے ہیں اور جو پھر اس کا شکار ہو رہے ہیں ان کی وجہ سے کاروبار زندگی بھی ہچکولے لینے لگا ہے،اس طرح بورس جانسن ہر طرف سے خطر ے میں گھر چکے ہیں اور پھر ان کے ساتھی بھی آہستہ آہستہ ان کا ساتھ چھوڑ رہے ہیں کیونکہ وہ بھی یہی کہہ رہے ہیں کہ کرسی سنبھالنے کا وقت گزر چکا ، وزیر اعظم کو اب رخصت پر چلے جانا چاہئے لیکن بات تو یہ بھی ہے کہ یہ کوئی ترقی پذیر ملک نہیں ہے کہ جس کا خزانہ خالی ہو اور عوام کو دینے کے لئے صرف دلاسے ہوں اور ملک کا وزیر اعظم اپنا دماغ استعمال کرنے کی بجائے باہر سے مشورے لیتا ہو،یہ تو ترقی یافتہ ریاست برطانیہ ہے جس کے ریزرو اب بھی اتنے ہیں کہ با آسانی آئی ایم ایف سے قرضے لئے ملکی معیشت کو چلا یا جا سکتا ہے کیونکہ یہاں تو مہنگائی بھی صرف 9.1 فیصدبڑھی ہے جوکسی بھی ترقی پذیر ملک سے تو بہت ہی کم ہے لیکن اس کو بھی بڑھا ہوا تسلیم کر کے اسے کم کرنے کے اقدامات کرنے کی ہمت ابھی بھی ریاست کے کرتا دھرتاوں کے پاس ہے کیونکہ یہاں کی معیشت ابھی بھی اتنی مضبوط ہے کہ انتہائی ضرورت پر عوام کی مالی مدد کر سکے اور یہ سب بورس جانسن کے تھنک ٹینک انھیں اچھی طرح سمجھا بھی چکے ہوں گے اس لئے تو بگڑتی ہوائوں کے باوجود بھی بورس جانسن وزارت کا تیسرا ٹرم بھی پورا کرنے کی امید لگائے بیٹھے ہیں۔
یورپ سے سے مزید