• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہائیڈپارک … وجاہت علی خان
(پہلی قسط)
البرٹ آئن سٹائن نے دوسری جنگ عظیم کے خاتمہ اور اس وقت کے مہلک ہتھیاروں پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’مجھے نہیں پتا آنے والے وقت میں اگر تیسری عالی جنگ ہوئی تو یہ کون کون سے ہتھیاروں سے لڑی جائے گی لیکن ہاں میں یہ ضرور کہہ سکتا ہوں کہ اگر چوتھی جنگ عظیم ہوئی تو یہ جنگ ڈنڈوں اور پتھروں سے لڑی جائے گی‘‘۔ یقیناً جنگیں ہمیشہ تباہی لاتی ہیں اور جنگ میں نقصان بھی اشرافیہ کا نہیں عام انسانوں کا ہوتا ہے۔ سربیا، روس، فرانس، اٹلی، برطانیہ و امریکہ کے اتحاد اور دوسری طرف کے اتحاد جرمنی، آسٹریا، ہنگری، بلغاریہ اور سلطنت عثمانیہ کے مابین جولائی 1914سے نومبر 1918تک ساڑھے چار سال جاری رہنے والی پہلی جنگ عظیم میں املاک کے نقصان کے علاوہ فوجیوں سمیت ایک کروڑ 70لاکھ کے قریب لوگ مارے گئے۔ پہلی عالمی جنگ جدید تاریخ کی سب سے زیادہ تباہ کن لڑائی تھی۔ یہ تعداد اس سے پہلے کے ایک سو برس میں ہونے والی لڑائیوں کی مجموعی ہلاکتوں سے بھی زیادہ ہے۔ البتہ یقین سے تو کوئی تعداد متعین کرنا مشکل ہے مگر اس جنگ میں 21ملین کے لگ بھگ افراد زخمی بھی ہوئے۔ سب سے زیادہ جانی نقصان جرمنی اور روس کو اُٹھانا پڑا۔ جرمنی کے 17لاکھ 73ہزار 7سو اور روس کے 17لاکھ فوجیوں کی ہلاکتیں ہوئیں۔ فرانس کو اپنی متحرک فوج کے 16فیصد سے محروم ہونا پڑا، برطانیہ کے ایک ہی دن میں 57ہزار فوجی مارے گئے۔ ستمبر 1939سے ستمبر 1945چھ سال تک جاری رہنے والی دوسری جنگ عظیم میں ہولو کاسٹ سمیت کوئی 6کروڑ انسان مارے گئے اور شہروں کے شہر ملبے کا ڈھیر بن گئے۔ روس اور یوکرین کے درمیان یوں تو 2014 سے جنگی حالات ہیں لیکن فروری 2022سے دونوں ملکوں کے درمیان باقاعدہ جنگ جاری ہے جس میں دونوں اطراف سے ہزاروں فوجی اور سویلین مارے جا چکے ہیں۔ اس جنگ میں بھی روس تو تنہا ہے لیکن یوکرین کے ساتھ امریکہ، برطانیہ اور بعض یورپی ممالک کھڑے ہیں اگرچہ براہ راست نہیں لیکن ہتھیاروں کی فراہمی اور مالی تعاون کی حد تک، لیکن مغربی ملک بشمول ان کا میڈیا مسلسل پروپیگنڈا اور تیسری عالمی جنگ کے امکانات پر چیخ و پکار کرتے ہوئے اپنے مفادات کے لئے جنگ کو سفاک ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔ اکثر کہا جاتا ہے کہ جنگ میں سب سے پہلے سچائی قتل ہوتی ہے چنانچہ پروپیگنڈا، جھوٹ اور آدھے سچ کی اس زہریلی فضا میں زمین پر عسکری صورتحال کا درست اندازہ لگانا بہت مشکل ہے۔ دیو ہیکل پروپیگنڈا مشین کا اول و آخر مقصد روس کو مورد الزام ثابت کرنا ہے، اس پروپیگنڈا کا بنیادی مقصد صریحاً یہ ہے کہ عالمی اتحاد کے نام پر روس کے خلاف متحد ہوا جائے۔ اس وقت مغرب میں عوام کا موڈ بہت کنفیوژن کا شکار ہے۔ ایک طرف تو یوکرینی عوام اور مہاجرین کے لئے فطری ہمدردی ہے لیکن دوسری طرف یہ خوف بھی ہے کہ جنگ پھیل کر تیسری عالمی جنگ کی شکل اختیار کر لے گی اور دنیا کو ہولناک تباہی سہنا پڑے گی۔ اس خوف کو روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کے حالیہ بیانات نے اور بھی بڑھا دیا ہے جن میں روسی جوہری قوتوں کو الرٹ رہنے کا کہا گیا ہے۔ روس اور یوکرین کے درمیان دو برس سے جاری جنگ، مشرق وسطیٰ میں اسرائیل اور حماس کی چھ ماہ سے زائد عرصے سے جاری جنگ، اسرائیلی سرحد پر لبنان کی تنظیم حزب اللہ سے اسرائیلی فوج کے تصادم اور اب یمن کی انصار اللہ تنظیم کے اسرائیل جانے والے بحری جہازوں پر حملوں کے بعد اسرائیل کے دمشق میں ایران کی ایمبیسی پر حملے اور ایران کے جوابی حملے کے بعد اس تشویش میں اضافہ ہوا ہے کہ جنگ کا دائرہ کار وسیع ہو سکتا ہے اور لوگ ایک عالمی جنگ کے خدشات کا اظہار کر رہے ہیں۔ پھر روسی صدر پیوٹن نے بھی اس تاثر کو تقویت دی اور کہا تیسری عالمی جنگ کے دو فریق ہوں گے روس، چین، ایران، یمن، شمالی کوریا ایک طرف ہوں گے جب کہ نیٹو، امریکہ، اسرائیل اور برطانیہ دوسری طرف۔ (جاری ہے)
یورپ سے سے مزید