• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ڈاکٹر آسی خرم جہا نگیری

​قرآن مجید اللہ تعالیٰ کا کلام، اس کی آخری کتاب اور اس کا ایک عظیم معجزہ ہے۔ یہ دنیا میں سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتاب ہے۔ اس نے اپنے سے پہلے کی تمام الہامی کتابوں کو منسوخ کردیا اور ان میں سے کوئی بھی آج اپنی اصل صورت میں محفوظ نہیں۔ البتہ قرآن تمام پہلی کتابوں کی تعلیمات کواپنے اندر سمیٹے ہوئے ہےاور قرآن مجید واحد ایسی کتاب ہے جو پوری انسانیت کے لیے رشد وہدایت کا ذریعہ ہے۔

اللہ تعالیٰ نے اس کتاب ِ ہدایت میں انسان کو پیش آنے والے تما م مسائل کو تفصیل سے بیان کردیا ہے ۔ قرآن مجید سیکڑوں موضوعات پرمشتمل ہے۔مسلمانوں کی دینی زندگی کا انحصار اس مقدس کتاب سے وابستگی پر ہے اور یہ اس وقت تک ممکن نہیں جب تک اسے پڑ ھا اور سمجھا نہ جائے۔ قرآن کریم کا یہ اعجاز ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کی حفاظت کا ذمہ خود لیااور قرآن کریم ایک ایسا معجزہ ہے کہ تمام مخلوقات مل کر بھی اس کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہیں۔

قرآن کی عظمت کا اندازہ اس امر سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ یہ کتاب جس سرزمین پر نازل ہوئی، اس نے وہاں کے لوگوں کو فرشِ خاک سے اوجِ ثریا تک پہنچا دیا۔ اس نے ان کو دنیا کی عظیم ترین طاقت بنا دیا۔ قرآن وحدیث میں قرآن اور حاملین قرآن کے بہت فضائل بیان کے گئے ہیں۔ ایک حدیث مبارکہ میں قوموں کی ترقی اور تنزلی کو بھی قرآن مجید پر عمل کرنے کے ساتھ مشروط کیا گیا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب تک مسلمانوں نے قرآن وحدیث کو مقدم رکھا اور اس پر عمل پیرا رہے تو وہ دنیا میں غالب اور سربلند رہے۔ 

جب قرآن سے دوری کا راستہ اختیار کیا تو مسلمان تنزلی کاشکار ہوگئے۔ قرآنِ کریم معجزہ ہے جو آخری نبی محمد عربی ﷺپر ۲۳ سالوں میں نازل ہوا، معجزہ کی شان ہی یہ ہوتی ہے کہ انسانی بس اور قدرت سے باہر ہو، لہٰذا قرآن کی مثل اور نظیر بھی انسانی قدرت وطاقت سے ماوراء ہے۔

نیز یہ ایسا معجزہ ہے جو رہتی دنیا تک کی خلقت کو اپنے لانے والے کی صداقت کا یقین کراتا رہے گا، نتیجتاً لوگ حلقہٴ اسلام سے روز افزوں وابستہ ہوتے رہیں گے، رسول اللہﷺ نے ایک حدیث میں اسی حقیقت کا انکشاف کیا ہے۔ ہر نبی کو ایسا معجزہ دیا گیا جس کا مشاہدہ کرکے انسانیت ایمان لاتی رہی، مجھے اللہ پاک نے ایسا معجزہ وحی کی شکل میں دیا ہے :اس میں غور وفکر کرکے قیامت تک لوگ ایمان لاتے رہیں گے۔ روزِ قیامت میرے متبعین زیادہ ہوں گے۔(بخاری شریف)

لیکن دین کے باغی اور فطرتِ انسانی سے منہ موڑنے والوں نے تکذیب کو اپنا وطیرہ بنایا اور اس معجزئہ قرآن سے متعلق مختلف قیاس آرائیاں کرنے لگے، تو قرآن نے مرحلہ وار تین قسطوں میں ان سے چیلنج کیا اور مطالبہ کیا کہ اگر اس کلامِ الٰہی کی حقانیت میں تمہیں شک ہے تو اس جیسا قرآن، نہیں تو دس سورتیں، یا پھر ایک چھوٹی یا بڑی سورت ہی بنالاؤ، لیکن بلند وبانگ دعوے کرنے والے ششدر رہ گئے، قرآن اپنے نزول سے لے کر ہنوز چیلنج کررہاہے ،لیکن کوئی اس کا مقابلہ کرنے والا آج تک پیدا نہ ہوسکا جو اپنے مقابلے سے اس کی اعتباریت میں فرق پیدا کرسکے۔

قرآن مجید کسی بشر کا کلام نہیں، بلکہ خلّاقِ عالم کا کلام ہے جو فصاحت و بلاغت اور اعجازِ علمی میں اپنی مثال آپ ہے۔ اس عدیم النظیراور فقیدالمثال کلام کے متعلق خود اللہ رب العزت نے منکرین کو چیلنج دیا اور ارشادِ فرمایا ہے: ’’فرما دیجیے: اگر تمام انسان اور جنّات اس بات پر جمع ہو جائیں کہ وہ اس قرآن کے مثل (کوئی دوسرا کلام بنا) لائیں گے تو (بھی) وہ اس کی مثل نہیں لا سکتے، اگرچہ وہ ایک دوسرے کے مدد گار بن جائیں۔‘‘(سورۃ الاسراء)

آیاتِ قرآنی کا یہ اعجاز ہے کہ ان میں بار بار تدبّر کرنے سے ہر بار نیا مفہوم سامنے آتا ہے، جو ظاہر کرتا ہے کہ قرآن کا دامنِ علم و ہدایت ہر زمانے کی پیش آمدہ ضرورتوں کا کفیل ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ’’اور ہم نے آپ پر وہ عظیم کتاب نازل فرمائی ہے جو ہر چیز کا بڑا واضح بیان ہے اور مسلمانوں کے لیے ہدایت اور رحمت اور بشارت ہے۔‘‘(سورۃالنحل)

اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کو تمام علمی محاسن اور عملی فضائل کا مجموعہ اور جملہ علوم و معارفِ الٰہیہ کا خزانہ بنایا ہے۔ اس صحیفۂ ہدایت کے نزول کا اصل مقصد انسانیت کو صراطِ مستقیم پر گامزن کرنا اور انسان کو بطور اشرف المخلوقات اُس مقام و مرتبے پر فائز کرنا ہے جس کے لیے اس کی تخلیق عمل میں لائی گئی تھی۔ اس اَعلیٰ و اَرفع مقصد کے حصول کا راستہ آیاتِ قرآنیہ پر گہرے غور و خوض، تدبر وتفکر اور اس پر عمل سے ہی نکلتا ہے۔ اسی لیے ارشادِ باری تعالیٰ ہے:’’کیا یہ لوگ قرآن میں غوروفکر نہیں کرتے یا ان کے دلوں پر تالے (لگے ہوئے) ہیں۔‘‘(سورۂ محمد)

آج مادی سوچ اور دنیوی حرص و ہوس نے لوگوں کو قرآن مجید پر غور و فکر کی رغبت اور خیال سے محروم کر دیا ہے۔ عمومی فکر و نظر میں اس حدتک تغیّر رُونما ہو چکا ہے کہ وہ صحیفۂ ہدایت جو ہماری سوچ اور احوالِ زندگی میں انقلاب برپا کرنے کے لیے آیا تھا، ہم نے اُسے محض کتابِ ثواب بنا رکھا ہے۔ نتیجتاً ہم نے خود کو قرآن مجید کے بجائے دیگر ضوابط، مراسم اور نفسانی خواہشات کے تابع کر دیا ہے۔