بھارت یاترا کے دوران میں نے محسوس کیا کہ بھارتی عوام وزیراعظم پاکستان سے بہت امیدیں وابستہ کیے ہوئے ہیں کہ برصغیر میں مستقل امن کے قیام کے لیے وہ اپنا کردار بھرپور طور پر ادا کریں گے۔ ان کی یہ امیدیں بے جا نہیں ہیں کہ نوازشریف روز اول سے برصغیر پاک و ہند میں پائیدار امن کے لیے کوشاں ہیں اور وہ اس کا خمیازہ بھی بھگت چکے ہیں۔ مگر امن کا خواب تبھی پوراہوسکتا ہے جب اس کی کامیابی کیلئے دونوں ملک یکساں طور پر سنجیدہ ہوں، پاکستانی عوام امن چاہتے ہیں چنانچہ یہاں کی سیاسی جماعتوں میں سے کسی ایک جماعت نے بھی انڈیا دشمنی کے نام پر ووٹ نہیں لیے۔ جبکہ انڈیا کی سیاسی جماعتیں اور وہاں کا میڈیا پاکستان کے خلاف زہر اگلتا رہتا ہے۔ ایک صحافی یا پارلیمنٹرین نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ ہم پاکستانیوں کی بھارت آمد پسند نہیں کرتے، یہ اسی طرح کی سوچ کا نتیجہ ہے کہ دوستی بس پر حملہ کیا گیا۔ سمجھوتہ ایکسپریس کو بموں سے اڑا دیا گیا، پاکستانی ہائی کمیشن پر دھاوا بولا گیا۔ تصویروں کی نمائش میں پاکستانی مصوروں کی پینٹنگز پھاڑ دی گئیں، راجھستان میں پاک ہند مشاعرہ نہیں ہونے دیا گیا۔ اس ضمن میں انڈیا میں بننے والی بہت سی فلموں نے بھی اپنا منفی کردار ادا کیا ہے اور پاکستان کے خلاف نفرت کو ہوا دینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔
تاہم ہندوستان میں سبھی لوگوں کی سوچ یہ نہیں ہے وہاں کے ادیب، دانشور، مصور، موسیقار اور سلیم الفطرت لوگ پاک ہند تعلقات کے حامی ہیں، ان میں سرفہرست ارون دھتی رائے ہیں جنہوں نے برصغیر میں امن کے قیام کیلئے کشمیریوں پر ہونے والے مظالم کے خلاف بھی آواز اٹھائی اور ہر اس اقدام کی کھل کر مخالفت کی جو دو ہمسایوں کے دوران دوری کا اور ایک انسان کے دوسرے انسان سے دشمنی کا باعث بن سکتا ہے۔ یہ شاید انہی جیسی انسان دوست شخصیتوں کی کوششوں کا اثر ہے کہ جہاں کچھ لوگ نفرت کے شعلوں کو ہوا دیتے ہیں۔ وہاں محبت کے گیت گانے والے بھی کثیر تعداد میں موجود ہیں، اگر وہاں نریندر مودی جیسا مسلمانوں کا قتل موجود ہے تو گلزار جیسا شاعر بھی محبت کے نغمے گاتا سنائی دیتا ہے۔ گلزار نے تو کبھی اپنے نام کے ساتھ ’’سنگھ‘‘ کا اضافہ بھی نہیں کیا کہ وہ دنیا کو مذہب کی عینک سے نہیں انسانیت کی نظروں سے دیکھتا ہے۔ انڈیا میں پنڈت گلزار دہلوی اور کشمیری لال ذاکر بھی ہیں۔ جن کے دلوں میں کوئی عناد نہیں۔ وہاں مالک رام بھی ہوتے تھے ان کے علاوہ ڈاکٹر گوپی چند نارنگ ، کلدیپ نائر اور مہیش بھٹ بھی ہیں۔ علاوہ ازیں کیول دھیر، سردیت پات، گلزار سنگھ سندھو، پروفیسر گوربجن گل، پروفیسر امرجیت سنگھ ، پروفیسر دیپک صاحبہ اور زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے ایسے اہم لوگ ابھی ہندوستان میں موجود ہیں جو محبت کے سفیر ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن سے توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ پاک بھارت کشیدگی کو کم کرنے میں اپنا کردار آئندہ بھی ادا کرتے رہیں گے۔ برصغیر میں امن میرے اوران کے بچوں کی ضرورت ہے۔ ہمارے بچوں کا دودھ، خوراک، تعلیم سب کچھ اسلحہ اور بارود کے بیوپاری ہڑپ کر جاتے ہیں۔
مجھے محبت اور دوستی کے یہ مناظر گذشتہ ہفتے لدھیانہ میں ہی دیکھنے کو ملے جہاںمیں اپنے دوست کیول دھیر کی 75 ویں سالگرہ کی تقریبات میں شرکت کیلئے گیا تھا۔ کیول دھیر 80 کتابوں کے مصنف ہیں اور حال ہی میں انہوں نے ایک بہت بڑا کام بھی کیا ہے۔ یہ پاکستان کے فکشن رائٹر کرنل (ر) ابدال بیلا کے 1800 صفحات پر مشتمل عظیم ناول ’’دروازہ کھلتا ہے‘‘ کا ہندی میں ترجمہ اور اس کی اشاعت کا ہے، مجھے حیرت ہے کہ کیول نے 75 برس کی عمر میں یہ کارنامہ کیسے انجام دیا۔ میرے ساتھ حسب معمول عزیر احمد بھی تھے یہاں ہر ایک کی آنکھوں میں محبت کی چمک نظر آئی، ہر کوئی یہ چاہتا تھا کہ پاکستان اور ہندوستان کے درمیان انتہائی قریبی تعلقات قائم ہوں، ایک دوسرے کی طرف آنا جانا ہو اور جو مسائل اس راہ میں رکاوٹ بنے ہیں وہ مذاکرات کے ذریعے حل کیے جائیں۔ چنانچہ میں پرامید ہوں کہ امن کی دشمن طاقتوں کی ریشہ دوانیوں کے باوجود محبت اور بھائی چارے کی خواہش دن بہ دن زور پڑے گی اور ہماراخطہ امن و سلامتی کا گہوارہ بن جائے گا۔
میں یہ کالم ابھی یہیں تک لکھ سکا تھا کہ فیصل آباد کے ضمنی انتخابات کی خبر نظر سے گذری، یہ ضمنی انتخاب خواجہ اسلام کی خالی کی ہوئی نشست پر ہوا تھا۔ واضح رہےمسلم لیگ (ن) سے وابستہ خواجہ صاحب یہ نشست 20 سال سے مسلسل جیت رہے تھے۔ اس برس ڈس کوالیفائی ہونے کی وجہ سے ان کے بھائی خواجہ لیاقت کو ٹکٹ دیا گیا مگر مسلم لیگ (ن) کا یہ امیدوار تحریک انصاف کے امیدوار سے مات کھا گیا۔ اس شکست کی ایک سے زیادہ وجوہ ہیں۔ پنجاب میں میاں محمد نوازشریف کی اعلیٰ کارکردگی کے پیش نظر اس نشست سے محرومی بظاہر بہت عجیب ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ فیصل آباد مسلم لیگ (ن) کئی دھڑوں میں بٹی ہوئی ہے اور یہ کشیدگی اس قدر زیادہ ہے کہ اس امیدوار کی شکست کے لئے ہر حربہ استعمال کیا جاتا ہے جس کا تعلق کسی دوسرے دھڑے سے ہو، شنید ہے کہ خواجہ لیاقت، رانا ثناء اللہ کے دھڑے سے تعلق رکھتے ہیں تاہم یہ ضروری نہیں کہ خواجہ صاحب کی ناکامی کی وجہ وہی ہو جو میں نے ابھی بیان کی ہے۔ کیونکہ یہ کشمکش تو اس وقت بھی موجود تھی جب حالیہ انتخابات میں مسلم لیگ (ن) فیصل آباد کے بڑے بڑے سیاسی برج گرانے میں کامیاب ہوئی تھی۔ چنانچہ ضرورت اس امر کی ہے کہ بہت گہرائی میں جا کر ان وجوہ کا جائزہ لیا جائے اور یہ کام سیاسی لوگوں کا ہے۔
البتہ میں یہ محسوس کرتا ہوں کہ انتخابات میں عظیم کامیابی کے بعد مسلم لیگ کی قیادت کا ایک حصہ مطمئن ہو کر بیٹھ گیا ہے۔ عوام میں عمومی تاثر یہ ہے کہ ہر چیز ساکت نظر آرہی ہے، اگر کچھ متحرک نظر آتا ہے تو وہ پٹرول کی چار دفعہ قیمتیں بڑھانے کی صورت میں نظر آتا ہے، بجلی کے نرخوں میں بھی اضافہ ہوا گو اب اس پر نظر ثانی ہورہی ہے لیکن نرخوں میں کمی کی سہولت چار سو یونٹ کے استعمال تک کی گئی تو عوام کے ایک بڑے حصے کو اس کا فائدہ پہنچے گا ورنہ مایوسی اپنی جگہ برقرار رہے گی۔ آپ نرخ ان کے بڑھائیں جن کے ہر کمرے میں اے سی لگے ہوئے ہیں۔ جن کے ہاں بجلی کا استعمال بہت زیادہ ہے۔ 200 یونٹ میں تو صرف ایک پنکھااور ایک بلب ہی جلے گا۔ اسے چار سو تک بڑھائیں اور خسارہ بڑے لوگوں سے پورا کریں۔
عوام میں پائی جانے والی بے اطمینانی کی ایک وجہ میڈیا سے مسلم لیگ (ن) کی لاتعلقی بھی ہے۔ ان سے کسی کا کسی قسم کا کوئی رابطہ نہیں۔ ان کے سامنے تصویر کا دوسرا رخ پیش نہیں کیا جاتا۔ وہ رخ جو بہت مثبت ہے۔ حکومت پر کئے جانے والے اعتراضات کا فوری جواب سامنے نہیں آتا، اگر مسلم لیگ (ن) آنے والے خطرات سے نمٹنا چاہتی ہے تو اسے ایک تو گم سم والی صورت حال سے نکلنا ہوگا۔ اہم فیصلوں میں مزید تاخیر نہیں کرنا ہوگی، مسلم لیگ میں دھڑے بندیوں کا خاتمہ بھی ضروری ہے۔ محروم کارکنوں کو ان کی محنت کا ثمر ملنا چاہئے اور انہیں مختلف ذمہ داریاں سونپی جانا چاہئیں اور سب سے اہم میڈیا پر فعال نظر آنا ضروری ہے۔ ورنہ آنے والے دن ممکن ہے اپنے ساتھ زیادہ خوشخبریاں نہ لائیں۔