کراچی(جنگ نیوز) مسلم لیگ ن کے رہنما احسن اقبال نے کہا ہے کہ پاکستان میں احتساب کے نعرے کا انجام مارشل لاء ہوتا ہے جن لوگوں نے آف شور کمپنیاں بنائیں یا قومی دولت کو نقصان پہنچایا انہیں کٹہرے میں کھڑا کیا جائے، امید ہے دو ہفتوں میں ٹی او آرز کے مسئلہ کا حل نکال لیا جائے گا، احتساب کیلئے یکساں معیار مقرر کرنا ہوگا۔ وہ جیو نیوز کے پروگرام کیپٹل ٹاک“ میں میزبان حامد میر سے گفتگو کررہے تھے۔ پروگرام میں تحریک انصاف کے رہنما جہانگیر ترین بھی شریک تھے۔جہانگیر ترین نے کہا کہ امید ہے ٹی او آرز کے معاملہ پر ڈیڈ لاک جلد ختم ہوجائے گا، مسلم لیگ ن کو تسلیم کرنا چاہئے کہ وزیراعظم کے بچوں کے نام آنے کی وجہ سے پاناما لیکس مسئلہ بنا ہے، پاناما لیکس کی تحقیقات مخصوص بنیاد پر اور ترجیحاً ہونی چاہئے، چیف جسٹس کے خط کے مطابق ٹی او آرز بنائے جائیں، خیبرپختونخوا کو ترقیاتی منصوبوں میں فنڈنگ سے متعلق بہت سی شکایات ہیں۔احسن اقبال نے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ امید ہے حکومت اور اپوزیشن دو ہفتوں میں ٹی او آرز کے مسئلہ کا حل نکال لیں گی، دونوں فریقوں کو اتفاق رائے پیدا کرنے کیلئے اصولوں کی بنیاد پر معاملات طے کرنا ہوں گے، پاکستان میں احتساب کے نعرے کا انجام مارشل لاء ہوتا ہے، منصفانہ بنیادوں پر بے لاگ اور بلاتفریق احتساب ہوناچاہئے، احتساب کو انتقامی کارروائی بنائیں گے تو کبھی کامیاب نہیں ہوں گے،مستقبل میں کرپشن روکنے کیلئے احتساب کا آزاد اور بااختیار مستقل ادارہ بنانا ہوگا۔انہوں نے کہا کہ احتساب کیلئے یکساں معیار مقرر کرنا ہوگا، وزیراعظم کیلئے انصاف کا پیمانہ الگ نہیں ہوسکتا ہے، آف شور کمپنیوں کے معاملہ سے عمران خان کو باہر نہیں رکھا جاسکتا ہے، آف شور کمپنیوں میں وزیراعظم کے بچوں کا نام ہے لیکن عمران خان کی تو اپنی آف شور کمپنی رہی ہے، جن لوگوں نے آف شور کمپنیاں بنائیں یا قومی دولت کو نقصان پہنچایا انہیں کٹہرے میں کھڑا کیا جائے،سپریم کورٹ کو سیاسی تنازعات میں متنازع نہیں بنایا جاسکتا ہے۔احسن اقبال کا کہنا تھا کہ ترقیاتی بجٹ سے متعلق صوبوں کے تحفظات دور کررہے ہیں، وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا پرویز خٹک کے تحفظات دور کر کے انہیں مطمئن کردیا ہے، اٹھارہویں ترمیم کے بعد وفاقی حکومت کے پاس صرف نیشنل انفرااسٹرکچر رہ گیا ہے، کراچی میں گرین میٹرو بس کیلئے وفاقی حکومت نے بجٹ میں پیسے رکھے ہیں، وفاق ،خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں یونیورسٹیوں کو بھی فائنانس کررہا ہے، بلوچستان میں آٹھ نئی یونیورسٹیوں پر کام ہورہا ہے، خیبرپختونخوا میں گیارہ ارب ڈالر کا داسو ڈیم بن رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم نے لودھراں میں ڈھائی ارب روپے کے جس پیکیج کا اعلان کیا تھا اس حوالے سے مجھے کوئی ہدایت نہیں ملی ہے، پاکستان ہی نہیں دنیا بھر میں زراعت کا شعبہ بحران کا شکار ہے، عالمی مارکیٹ میں بھی زرعی اجناس کی قیمتیں کریش کرگئی ہیں، بجٹ میں کھاد کی قیمتیں کم کرنے کی کوشش کررہے ہیں، حکومت نے 100ارب روپے لگا کر دیامر بھاشا ڈیم کیلئے زمین حاصل کرلی ہے، اگلے سال کے اوائل میں دیامربھاشا ڈیم کی تعمیر شروع ہوجائے گی۔ جہانگیر ترین نے کہا کہ امید ہے ٹی او آرز کے معاملہ پر ڈیڈ لاک جلد ختم ہوجائے گا، مسلم لیگ ن کو تسلیم کرنا چاہئے کہ وزیراعظم کے بچوں کے نام آنے کی وجہ سے پاناما لیکس مسئلہ بنا ہے، پاناما لیکس کی تحقیقات مخصوص بنیاد پر اور ترجیحاً ہونی چاہئے، ن لیگ پاناما لیکس کے علاوہ بہت سے دیگر معاملات اور سب کا اکٹھا احتساب چاہتی ہے تو مسئلہ حل نہیں ہوگا، احتسابی عمل میں آج تک کوئی بڑی مچھلی نہیں پکڑی گئی، جس دن بڑی مچھلیاں پکڑی جائیں گی اس دن احتساب کا عمل شروع ہوگا۔انہوں نے کہا کہ عمران خان نے جس وقت آف شور کمپنی بنائی وہ سیاست میں نہیں تھے، عمران خان کی آف شور کمپنی جس فلیٹ کی ملکیت رکھتی تھی وہ انہوں نے 2002ء میں ظاہر کیا ہوا ہے، چیف جسٹس کے خط کے مطابق ٹی او آرز بنائے جائیں، انکوائری کمیشن ٹی او آرز میں محدود ہو کر کام کرے گا اس لئے ٹی او آرز بہت اہم ہیں۔جہانگیر ترین کا کہنا تھا کہ خیبرپختونخوا کو ترقیاتی منصوبوں میں فنڈنگ سے متعلق بہت سی شکایات ہیں، پنجاب میں اربوں روپے کی سڑکیں بن رہی ہیں لیکن سوات جانے والی سڑک تین سال میں مکمل نہیں ہوئی ہے، چشمہ رائٹ بینک کینال نہ بننے کی وجہ سے خیبرپختونخوا اپنے حصے کا پانی نہیں لے سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم نے ضمنی انتخابات میں لودھراں کیلئے ڈھائی ارب روپے کے پیکیج کا اعلان کیا تھا لیکن اس کا کچھ نہیں پتا کہاں گیا، وزیراعظم نے پچھلے ایک مہینے میں آٹھ ارب کے جو وعدے کیے ہیں اب ان کی بھی کوئی ساکھ نہیں رہے گی۔ جہانگیر ترین کا کہنا تھا کہ پاکستان میں زراعت کا شعبہ بحرانی کیفیت کا شکار ہے، وزیراعظم کا زرعی پیکیج پٹواری پیکیج بن گیا ہے، زرعی پیکیج کے آدھے پیسے سسٹم کھاگیا ہے، ملک میں زراعتی ایمرجنسی نافذ کرنے کا وقت آگیا ہے، ہماری سب سے بڑی ترجیح بھاشا ڈیم ہونی چاہئے، اگر ڈیمز نہیں بنائے گئے تو زراعت کیلئے پانی نہیں ملے گا، زراعت کا مسئلہ بین الاقوامی نہیں مقامی ہے، پاکستان میں زرعی اجناس کی پیداوار گر رہی ہے۔