پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کی رہنما شیریں مزاری اپنی بیٹی ایمان مزاری کے ہمراہ تحقیقاتی کمیشن کے سامنے پیش ہو گئیں۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے حکم پر قائم کیا گیا کمیشن شیریں مزاری کی گرفتاری کے بارے میں تحقیقات کر رہا ہے، کمیشن کے سربراہ سابق سیکریٹری قانون جسٹس ریٹائرڈ شکور پراچہ ہیں جبکہ سابق آئی جی ڈاکٹر نعمان خان اور سابق وفاقی سیکریٹری ڈاکٹر سیف اللّٰہ چٹھہ بھی کمیشن کا حصہ ہیں۔
میڈیا سے بات کرتے ہوئے شیریں مزاری نے کہا کہ آج کمیشن کی پہلی میٹنگ تھی، کمیشن نے نوٹ کیا کہ میری گرفتاری سے متعلق پولیس رپورٹ نہیں آئی۔
انہوں نے بتایا کہ میری گرفتاری نہیں اغواء تھا، کمیشن کا اگلا اجلاس 14 تاریخ کو ہو گا، جس میں آئی جی اسلام آباد پولیس کو طلب کیا گیا ہے۔
پی ٹی آئی رہنما نے کہا کہ اسمبلی اب مذاق بن چکی، الیکشن کی تاریخ فوری دی جائے، اگر الیکشن کی تاریخ دے دی جاتی ہے تو بہت سے معاملات پر بیٹھ کر بات کی جا سکتی ہے۔
شیریں مزاری نے کہا کہ امریکا کے کہنے پر حکومت تبدیل کرا کے راستہ روک دیا گیا، کیا ان چوروں کو این آر او دینا رجیم چینج کا مقصد تھا؟ جب معیشت تباہ ہوتی ہے تو ملک کمزور ہوتا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ لگتا ہے یہ این آر او لینے آئے ہیں اور ملکی معیشت کو تباہ کر رہے ہیں، جن اداروں کا کام پاکستان کا دفاع کرنا ہے انہیں دفاع کرنا چاہیے، ہم سب اداروں کی عزت کرتے ہیں، کسی ادارے پر حملہ نہیں کر رہے۔
پی ٹی آئی کی رہنما نے مزید کہا کہ فروغ نسیم نے ایک کرمنل لاء کا کلاز ڈالا تھا، کابینہ نے اس کو مسترد کر دیا تھا اور فروغ نسیم نے وہ بل ہی ٹیبل نہیں کیا، ہم نے کوئی ایسا قانون نہیں بنایا تھا، ہم کسی کا نام نہیں لیتے اور نہ ہم اداروں پر حملہ کرتے ہیں۔
شیریں مزاری نے یہ بھی کہا ہے کہ ان اداروں اور ہینڈلرز سے سوال ہے کہ آپ کیا چاہتے ہیں، اداروں سے سوال کرنا ہمارا فرض ہے، فوج پر تنقید سے متعلق قانون سازی ہماری حکومت نے نہیں کی۔