پاک چین معاشی راہداری پر پارلیمانی کمیٹی کے چودہ رکنی وفد نے چیئرمین مشاہد حسین کی قیادت میں بیجنگ، شنگھائی اور سوزہو (Suzhou) کا دورہ کیا ۔ اس دورے کی دعوت سی پی سی کی طرف سے مختلف سیاسی جماعتوں کے نمائندہ گروپ کو دی گئی تھی تاکہ پاک چین معاشی راہداری کے ماضی، حال اور مستقبل پر تفصیلی بات کی جاسکے ۔ اس تبادلہ خیال نے بہت سے مبہم اور پیچیدہ سوالوں، کا جواب حاصل کرنے میں میری مدد کی۔ اس سے مستقبل کی معروضات کا تعین ہوتا ہے ۔
میں نے اس دورے سے جو تاثر لیا وہ بہت واضح اور کسی بھی ابہام سے پاک تھا۔ چین سی پیک منصوبے کو ایک الگ پروگرام کے طور پر نہیں دیکھتا ، وہ اسے پاکستان اور چین کے مربوط تعاون اور ہم آہنگ ہوتی ہوئی تزویراتی پالیسی کے طور پر دیکھتا ہے ۔ ایک افسر کا کہنا تھا۔۔۔’’سی پیک منصوبہ چین کے لئے سیاسی اورتزویراتی اہمیت کا حامل ہے ۔‘‘یہ ’’ وسیع تر ون بیلٹ ون روڈ اسکیم ‘‘ کا پہلامنظم منصوبہ ہے ۔ نہ صرف یہ منصوبہ پاکستان بلکہ تمام خطے کے لئے گیم چینجر ثابت ہوگا ۔ یہ جنوبی ایشیا میں طاقت کے توازن، جو اس وقت انڈیا، امریکہ اور علاقے کے دیگر اہم کھلاڑیوں کے حق میں جھکتا دکھائی دیتا ہے، کو قائم رکھنے کی بھی یقین دہانی کرائے گا۔ اس ضمن میں نیوکلیئر سیکٹر میں انڈیاکے لئے ترجیحی بنیادوں پربنائی جانے والی پالیسیاں اور دی جانے والی رعایتیں واضح مثال ہیں۔ امریکہ کی طرف سے ویت نام پر لگی اسلحے کی پابندی اٹھانے کے اقدام کو جنوبی چینی سمندر کے خطے میں پائوں رکھنے کی جگہ تلاش کرنے کی کوشش کے طور پر دیکھا جارہا ہے ۔ مختصر یہ کہ ہمارے خطے میں بہت سے واقعات پیش آرہے ہیں، اور یہ چیز پاکستان کے مستقبل پر گہرے اثرات مرتب کرے گی کہ اگلے پانچ سے دس سال تک ہم کیسی فعالیت دکھاتے ہیں اورملنے والے مواقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کس قسم کی ترقی کرتے ہیں۔ یا تو ہم ایک جدید، جاندار اور متحرک قوم کے طو ر پر اٹھان دکھاتے ہوئے اپنے ملک کو پائیدار ترقی کی بلندی تک لے جاسکتے ہیں، یا پھر ماضی کی طرح روایتی سازشوں اور تنازعات کا شکار ہوکر غربت اور پسماندگی کی اتھاہ گہرائیوں میں سرکے بل گر سکتے ہیں۔ میری رائے میں سی پیک منصوبہ پاکستان کی تاریخ میں ترقی کے امکانات لئے اہم ترین سنگ میل ہے ۔دورے کے دوران ہمیں ایک واضح پیغام ملا۔۔۔’’یہ صرف چین کی حکومت نہیں ، اس کے عوام ہیں جو سی پیک منصوبے کے پیچھے کھڑے ہیں، چنانچہ بظاہر دکھائی دینے والی مشکلات کے باوجود سی پیک کبھی ناکام نہیںہوگا۔‘‘چین چاہتا ہے کہ مختلف شعبو ں اور سیاسی جماعتوںسے تعلق رکھنے والے افراد اس حقیقت کا احساس کریں کہ وہ کسی مخصوص سیاسی جماعت یا گروہ کی نہیںبلکہ پاکستان کے عوام کی حمایت کررہے ہیں۔ نیز …’’دونوں ملکوں کے لئے شفافیت ضروری ہے ۔ تمام سیاسی جماعتیں ہماری دوست ہیں۔ ہم پاکستان کے ساتھ کھڑے ہیں۔ سی پیک منصوبے کا اصل مقصدغربت میں کمی لانا ہے ۔‘‘
اس مرحلے پرحکومت کے لئے ضروری ہے کہ وہ سی پیک منصوبے کو ملک کے پسماندہ اور ترقی سے محروم علاقوں کے عوام کی غربت کے خاتمے کے پروگرام کے ساتھ ہم آہنگ کردے۔ چین سی پیک منصوبے کے حوالے سے دوبنیادی اصول رکھتاہے:تمام سیاسی جماعتوں اور طاقت کے دھڑوں کا اس منصوبے پر اتفاق ہو، اور دوسرا یہ کہ اس منصوبے سے ملک کے تمام خطوں اور وہاں رہنے والے عوام کو فائدہ پہنچے ۔ ایسا لگتا ہے کہ وزیر ِاعظم نواز شریف کے ہاتھ اس منصوبے کی صورت سونا لگ گیا ہے ۔ یہ ایک تاریخی پیش رفت ہے کہ سی پیک منصوبہ پی ایم ایل (ن) کے عہدِحکومت میں شروع ہوا، چنانچہ قوم کو اس کی قیادت کی کامیابی کو سراہنا چاہئے ۔ تاہم یہ معاملہ یہیں تک محدود نہیں ، میں نے ہونے والی میٹنگز کے بعد مختلف حلقوں، جیسا کہ سول سوسائٹی اور دانشوروں اور تھنک ٹینکس کی عملی توجہ کا جائزہ لیا۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ ایک تشویش اپنی جگہ پر موجود ہے کہ کیا بجلی کی ترسیل کا نظام اُس وقت تک تیار ہوسکے گا جب تک بجلی پیدا کرنے والے پلانٹ ہمارے نیشنل گرڈ میں بجلی داخل کریں گے؟اس مسئلے پر شکوک وشبہات موجود ہیں ، اوراس کی وجہ افسرشاہی کا روایتی رویہ ہے۔ یہ مسئلہ وزیر ِاعظم صاحب کی براہ ِراست توجہ کا متقاضی ہے ۔ چنانچہ ہمارے چینی دوستوں کی طرف سے دی گئی بہت سی رعایتوں اور کیے گئے وعدوں اور وزیر ِاعظم کے سی پیک منصوبے کے ارفع تصور کو ہماری روایتی سست روی سے نقصان پہنچ سکتا ہے ۔ اور یہ چیز ہمارے ملک اور وزیر ِاعظم کے دفتر کی ساکھ کے لئے اچھی نہیںہوگی۔
مجھے کچھ صوبوں کی طرف کی گئی کمٹ منٹ ، کوآرڈنیشن اورصلاحیت کے فقدان سے سب سے بڑا خدشہ ہے کہ کیا وہ سی پیک منصوبے کے حوالے سے حکومت کے ساتھ تعاون کریں گے ، اور کیا نجی شعبہ صنعت، زراعت، سیاحت اور تعلیم کے شعبوں کو ترویج دے سکے گا؟ صوبوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ اُن ترقیاتی منصوبوں کے تصور اور اس کے ابتدائی مراحل پر کام شروع کریںجو چین اور پاکستان غربت کو دور کرنے اور پائیدار ترقی کے لئے دوردراز علاقوں میں شروع کرنے جارہے ہیں۔ ابھی اس بات کو دس سال سے زائدکا عرصہ نہیں گزرا جب چین نے ورلڈ ٹورازم کانفرنس کی میزبانی کی اور چینی رہنما نے اعلان کیا کہ سیاحت کا شعبہ ملازمت کے لاکھوں مواقع پیدا کرتے ہوئے ملک کے دوردراز علاقوں میںغربت کے خاتمے میں معاون ثابت ہوگا۔ ہمیں بھی یہ سوچ اپنانے کی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ ہمیں خود پر اعتماد بھی ہونا چاہئے کہ ہم تمام مشکلات پر قابوپاتے ہوئے اپنے مقاصد حاصل ضرورکریںگے ۔
(صاحب مضمون سابق منسٹر آئی ٹی بھی ہیں)