• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گزشتہ سے پیوستہ)

انگریز کے دور میں کسی بھی افسر نے اپنے چار چار دفاتر اور گھروں کو کیمپ آفس نہیں بنایا تھا۔دہلی دارالحکومت تھا اور گرمیوں میں سرمئی دارالحکومت شملہ میں ہوتا تھا ۔جی او آر ون سے ضلع کچہری تک ڈپٹی کمشنر سائیکل پربھی سفر کیا کرتا تھا مگر آج تو نوابی ٹھاٹ ہیں ۔شہباز شریف جب پنجاب کے وزیراعلیٰ بنے تو انہوں نے یہ روایت ڈالی وزیر اعلیٰ کے کئی دفاتر اور کیمپ آفس بنا دیئے پھر چوہدری پرویز الٰہی نے بھی یہ سلسلہ جاری رکھا اپنی رہائش گاہوں کو کیمپ آفس بنا دیا ،انگریز نے تحریک کے دنوں میں بھی ایسا کبھی نہیں کیا تھا جبکہ ان کی زندگیوں کو خطرہ تھا۔

ہمیں یاد ہے بلکہ ہم نے خود دیکھا ہے کہ بھٹو کے دور حکومت میں دفتر لارڈ صاحب (یعنی لاہور سیکرٹریٹ) میں پنجاب کے وزرا اعلیٰ دفتر لارڈ صاحب میں بیٹھا کرتے تھے ۔دفتر لارڈ صاحب کے مین گیٹ میں داخل ہوتے ہی دائیں طرف وزیر اعلیٰ کا آفس تھا ،جہاں وہ اور اس کا عملہ بیٹھا کرتا تھا۔ حنیف رامے،مصطفیٰ کھر اور نواب صادق حسین قریشی کو ہم نے خود یہاں بیٹھے دیکھا ہے ، وہ عوام سے ملا کرتے تھے آج وزیر اعلیٰ سے ملنا ناممکن ہے۔ دفتر لارڈ صاحب جب وزیر اعلیٰ بیٹھے گا تو یقیناً تمام سیکریٹری اور دیگر عملہ موجود ہو گا آج یہ حالات ہیں کہ کئی سیکرٹریز کے دفاتر سیکرٹریٹ کے اندر نہیں ہیں اور لوگ خوار ہوتے رہتے ہیں۔ ہم نے اس شہر کو ہر طرح سے تباہ وبرباد کیا ہے ۔کبھی 7کلب روڈ وزیر اعلیٰ کی سرکاری رہائش گاہ تھی ہم نے کئی وزرا ئےاعلیٰ کو اس سرکاری گھر میں رہتے دیکھا ہے۔ آج وہ سرکاری رہائش گاہ دفاتر میں تبدیل ہو چکی ہے اور اس کے ساتھ ایک اور کئی منزلہ عمارت میں وزیر اعلیٰ کے دفاتر قائم کر دیئے گئے ہیں ۔جو چوہدری پرویز الٰہی نے بنائی تھی ،جب تم لوگوں نے دو بڑی عمارتوں میں دفاتر بنا دیئے ہیں پھر کیوں فری میسن ہال جیسے تاریخی ہال کے پیچھے پڑ گئے جو انتہائی خوبصورت اورتاریخی عمارت ہے، اس تاریخی عمارت کے بارے میں آپ کو آگے چل کر کچھ بتاتے ہیں فی الحال ہم اپنے پچھلے کالم کے حوالے سے بات کر لیں۔

گورنمنٹ کالج لاہور ایک ایسا تاریخی کالج تھا ،ہم نے تھا کا لفظ اس لئے استعمال کیا کہ اس کی تاریخی روایات اور اس کی تاریخی اہمیت ثقافت، تہذیب اور نام یعنی گورنمنٹ کالج لاہور کو اس کے ایک وائس چانسلر نے تباہ وبرباد کر دیا ،اگر اس کالج کو یونیورسٹی نہ بھی بنایا جاتا تو بھی اس میں نئے کورسز، نیا نصاب اور کئی نئے ڈیپارٹمنٹ قائم کئے جا سکتے تھے۔آج کوئی بھی اس کے تاریخی تشخص سے واقف نہیں ۔یعنی گورنمنٹ کالج یونیورسٹی بھلا یہ بھی کوئی نام ہوا، پہلے صرف اس کا نام لاہور کالج تھا پرانے اور قدیم تعلیمی اداروں کو بطور سووینیئر ان کی قدیم روایات ،قدیم نام اور قدیم طریقہ کار کے ساتھ ہمیشہ زندہ رکھا جاتا ہے پھر اس تاریخی کالج میں جو نئی تعمیرات کی گئیں ان کا قدیم عمارت سےکوئی خاص واسطہ نہیں قدیم طرز تعمیر کو نظر انداز کر دیا گیا ۔خیر ہم گورنمنٹ کالج لاہور کے نباتاتی باغ کی طرف آتے ہیں ۔

عزیز قارئین !آپ کو یہ پڑھ کر حیرت ہو گی کہ گورنمنٹ کالج لاہور کے اس نباتاتی باغ کو حضرت بابا شاہ عنایت قادری ؒ (آرائیوں کے پیر )کا باغ بھی کہتے ہیں، اس باغ میں حضرت بابا شاہ عنایت قادریؒ اور حضرت بابا بلھے شاہ ؒ کے درمیان کافی بات چیت بھی ہوتی رہی ۔حضرت شاہ عنایت قادری ؒ کا مزار مبارک اس باغ کے قریب کوئنز روڈ پر سینٹ انتھونی اسکول کے قریب واقع ہے جہاں ہر سال بہت بڑا عرس ہوتا ہے۔اس باغ کی بنیاد بھارت کی مشہور اداکارہ کامنی کوشل کے والد پروفیسر شبورام کو شل نے رکھی تھی کامنی کوشل اپنی بھانجیوں کے ہمراہ کئی مرتبہ اس تاریخی پوٹینیکل باغ میں آ چکی ہیں۔ پروفیسر شبو رام کوشل نے اس باغ کو بنانے میں بڑی محنت کی تھی وہ گورنمنٹ کالج لاہور کے باٹنی ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ بھی رہے تھے ۔ پروفیسر امین الحق خان سابق سربراہ باٹنی ڈیپارٹمنٹ کے ساتھ کامنی کوشل اور ان کی بھانجیوں کا بڑا رابطہ رہا۔

حکومت کو چاہئے کہ فری میسن ہال کو گورنمنٹ کالج لاہور کے باٹنی ڈیپارٹمنٹ کو دے دے تاکہ طلبا و طالبات یہاں باغ کے نزدیک اپنی ریسرچ بھی کر سکیں۔گورنمنٹ کالج کے نباتاتی باغ (بوٹینیکل گارڈن) میں بے شمار پودے برصغیر کے مختلف شہروں اور دوسرے ممالک سے لاکر لگائے گئے ہیں جس میں اسپین، آسٹریلیا،شام، جنوبی یورپ، سری لنکا، امریکہ ، ملائیشیا، ہندوستان کے کئی شہر شامل ہیں ۔لارنس گارڈن اور اس نباتاتی باغ (بستان العقاقیر) کو نہر باری دوآب کی ایک شاخ سے سیراب کیا جاتا تھا اس زمانے میں لارنس گارڈن اور اس نباتاتی باغ میں سینکڑوں اقسام کے پھل دار درخت پھول اور سبزیاں تک ہوتی تھیں ۔ پتہ نہیں کس بہت عقلمند افسر نے یہ نہری پانی بند کرا دیا اس کے بعد لارنس گارڈن اور نباتاتی باغ کے سینکڑوں پودے پانی نہ ہونے کی وجہ سے جل گئے آج تک کسی نے یہ معلوم نہیں کیا کہ آخر اس نہری پانی کو کیوں بند کیا گیا۔ (جاری ہے)

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس

ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین