ماحولیاتی تبدیلی آج کا سب سے بڑا چیلنج ہے۔ ماہرین کے مطابق، زمین پر درجہ حرارت تیزی سے قابلِ برداشت حد سے تجاوز کی طرف بڑھ رہا ہے اور اگر اس اضافے کو 1.5ڈگری سینٹی گریڈ تک محدود نہ رکھا گیا تو زمین انسانوں کے رہنے کے قابل نہیں رہے گی۔ تاہم یہ ہدف اگر ناممکن نہیں تو انتہائی مشکل ضرور ہے کیوں کہ انٹرگورنمنٹل پینل برائے ماحولیاتی تبدیلی کی رپورٹ 2022 میں اندازہ لگایا گیا ہے کہ ’موجودہ حالات اور بین الاقوامی برادری کی اس مسئلے کے حوالے سے عدم سنجیدگی کو دیکھتے ہوئے غالباً یہ کہنا دُرست ہوگا کہ عالمی درجہ حرارت کو 1.5ڈگری سینٹی گریڈ کے ہدف کے اندر رکھنا ناممکن ہوگا۔ رپورٹ میں واضح طور پر بتایا گیا ہے کہ دنیا کس طرح زہریلی گیسوں کے اخراج میں 50فی صد تک کمی لاسکتی ہے لیکن اس کے لیے فوری اقدامات اُٹھانے کی ضرورت ہے۔
رپورٹ میں ماحولیات، ماحولیاتی نظام ، حیاتی تنوع اور انسانی معاشروں کے ایک دوسرے پر انحصار پر روشنی ڈالتے ہوئے تمام قدرتی، ماحولیاتی، سماجی اور معاشی سائنس سے متعلق علوم کو شامل کیا گیا ہے اور رپورٹ کے مطابق ان عناصر کا ایک دوسرے پر انحصار پینل کے ابتدائی اندازوں سے کہیں زیادہ ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ساتھ ساتھ حیاتیاتی تنوع کا نقصان، مجموعی طور پر قدرتی وسائل کے استعمال کا ناپائیدار استعمال، زمین اور ماحولیاتی نظام کی تنزلی، تیزی سے شہرکاری، آبادی میں تبدیلیاں، سماجی اور معاشی عدم مساوات اور عالمی وَبا جیسے غیرماحولیاتی عالمی رجحانات بھی تیزی سے جڑ پکڑ رہے ہیں۔
ماحولیاتی تبدیلی ویسے تو زمین پر رہنے والے انسانوں کے ساتھ ساتھ چرند پرند پر بھی اثرانداز ہورہی ہے لیکن ایک حالیہ تحقیق میں کہا گیا ہے کہ اس سے سب سے زیادہ خواتین متاثر ہورہی ہیں۔ ماحولیاتی تبدیلیوں کے خواتین پر منفی اثرات کو دیکھیں تو1991 میں سمندری طوفان گورکی کی وجہ سے بنگلا دیش میں مردوں کے مقابلے میں جاں بحق خواتین کی تعداد نو گنا زیادہ تھی۔
2009میں آسٹریلیا میں جنگلی جھاڑیوں میں لگنے والی آگ میں مردوں کے مقابلے میں خواتین دو گنا زیادہ ہلاک ہوئی تھیں،2016 میں کینیا میں خشک سالی میں خوراک وصول کرنے میں خواتین سب سے آخر میں آگے آتی تھیں۔ کینیا میں قحط کی وجہ سے 20لاکھ افراد غذا کی عدم دستیابی کے باعث کھانے کو محتاج ہوگئے تھے۔
یہ تینوں واقعات ماحولیاتی تبدیلیوں کی سنگین صورت حال میں خواتین کے متاثر ہونے کی نشاندہی کرتے ہیں۔ اس تناظر میں انٹر گورنمنٹل پینل برائے ماحولیاتی تبدیلی کی ایک ریسرچ رپورٹ بھی اسی طرف اشارہ کرتی ہے۔
صنفی عدم مساوات
دہائیوں سے پالیسی ساز صنفی تفریق کے انتباہوں کو نظرانداز کرتے چلے آ رہے ہیں۔ ماہرین کے مطابق ناقص پالیسیاں بھی اکثر خواتین کو مرکزی دھارے تک لانے میں ناکام رہی ہیں۔
اب ماحولیاتی تبدیلیوں کے شدید اثرات غریب اور نیم ترقی پذیر ممالک میں لوگوں کے گھروں کی دہلیز تک پہنچ چکے ہیں اور خواتین کو عدم مساوات کی صورت حال کا سامنا ہے۔ ایسا خیال کیا جاتا ہے کہ پالیسی سازوں نے ہوش کے ناخن لے لیے ہیں اور پالیسیوں میں ترامیم کر کے صنفی عدم مساوات کے پہلوؤں کومد نظر رکھا جا رہا ہے۔
انٹر گورنمنٹل پینل برائے ماحولیاتی تبدیلی کی ایک اہم دستاویز کی شریک مصنفہ لیزا شیپر کا کہنا ہے کہ ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ سے لوگوں پر گہرا دباؤ ہے۔ لیزا شپر کا یہ بھی کہنا ہے کہ زیادہ تر ممالک میں خواتین کو ماحولیاتی تبدیلیوں کی شدت اور سنگینی کا سامنا ہے۔
صنفی عدم مساوات ختم کرنے کے لیے اقدامات
2015میں عالمی سربراہان نے پیرس کلائمیٹ ڈیل پر دستخط کیے تھے۔ اس معاہدہ کے تحت طے پایا تھا کہ حکومتیں ماحولیاتی تبدیلیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے پالیسیوں کو اپناتے وقت صنفی عدم مساوات کے خاتمے پر بھی کام کریں گی۔ اس مناسبت سے یہ خیال کیا گیا کہ پالیسی ساز مستقبل میں عدم مساوات کے حامل طاقت کے تانے بانے میں تبدیلیاں لاتے ہوئے معاملات کا مثبت رُخ متعین کریں گے۔ اس سلسلے میں خواتین کو اہم عہدوں پر متعین کرنا بھی شامل ہے۔
انٹر گورنمنٹل پینل برائے ماحولیاتی تبدیلی کی رپورٹ پر عمل درآمد کے شواہد بھی سامنے آنے لگے ہیں۔ اس رپورٹ کی روشنی میں دولت اور وسائل کی مناسب تقسیم میں خواتین کو بھی حصہ دار بنانے کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔ انہیں ماحولیات کی پالیسی سازی اور اہم امور کے فیصلوں میں شامل کر لیا گیا ہے۔ لیز شپر کے مطابق ابھی رپورٹ پر مناسب اور وسیع پیمانے پرعمل ہونا باقی ہے۔
خواتین ماحولیاتی آلودگی میں کم حصہ دار ہیں
انٹر گورنمنٹل پینل برائے ماحولیاتی تبدیلی کی خصوصی رپورٹ میں بتایا گیا کہ ماحول دشمن اور مضرِ صحت اخراج میں بھی خواتین کا کردار مردوں کے مقابلے میں کم ہے۔ جرمنی اور سویڈن میں مردوں کے مقابلے میں خواتین کم توانائی استعمال کرتی ہیں۔
انٹر گورنمنٹل پینل برائے ماحولیاتی تبدیلی کی ایک سینیئر ریسرچر منال پاٹھک کا کہنا ہے کہ ماحولیات کے بارے میں خواتین زیادہ باشعور اور حساس ہیں اور افسوس کی بات یہ ہے کہ ابھی تک انہیں پوری طرح بااختیار نہیں بنایا گیا ہے۔ پاٹھک کے مطابق خواتین ماحول دوست پالیسی سازی میں نہایت مثبت کردار ادا کر سکتی ہیں۔