• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستانی فلموں کی یادگار قوالیاں اور حمدیہ، نعتیہ کلام

فیصل کانپوری

ماضی کی پاکستانی فلموں میں حمدیہ، نعتیہ کلام اورقوالیاں شامل کرنے کا خصوصی رواج تھا اور یہ حمدیں، نعتیں اور قوالیاں زیادہ تر معروف شعراء ہی کے کلام پر مشتمل ہوتیں۔تب ہی اُس دَورکی پیش کردہ نعتوں اور قوالیوں نے نہ صرف بے انتہا مقبولیت حاصل کی، بلکہ سُننے والوں کے دل و دماغ پر نقش بھی ہوکر رہ گئیں۔ جن معروف شعراء کا کلام ان منقبتوں، قوالیوں وغیرہ میں پیش کیا گیا، ان میں جوش ملیح آبادی، قتیل شفائی، حمایت علی شاعر، طفیل ہوشیارپوری، فیاض ہاشمی، مسرور انور، تنویر نقوی، شاعر صدیقی، ناظم پانی پتی اور آرزو اکبر آبادی وغیرہ کے نام سرفہرست ہیں۔ 

جب کہ جن مشہور گلوکاروں اور گلوکارائوں نے اپنی خُوب صُورت و دل سوز آواز میں یہ کلام پیش کیا، اُن میں ملکہ ترنم نورجہاں، سلیم رضا، احمد رشدی، نسیم بیگم، زبیدہ خانم اور مالا وغیرہ شامل ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ ماضی میں پیش کی جانے والی یہ نعتیں اور قوالیاں آج بھی سُننے والوں پرایک وجد کی سی کیفیت طاری کردیتی ہیں۔ ذیل میں ہم اُس دورکی فلموں میں پیش کیے جانے والےحمدیہ، نعتیہ کلام اور قوالیوں وغیرہ کا مختصراً تذکرہ کریں گے۔

اُردو ادب کےنام وَر شاعر، جوش ملیح آبادی نے متعدّد فلموں کے لیے نغمے لکھے، جو بے حد مقبول بھی ہوئے، لیکن فلم ’’آگ کا دریا‘‘ میں اُن کی ایک نعت ’’آئے سرکارِ مدینہ، لائے انوارِ مدینہ‘‘ نے تو ملک گیر شہرت حاصل کی۔ یہ نعت ملکہ ترنّم نورجہاں کی آواز اور غلام نبی عبداللطیف کی موسیقی میں پیش کی گئی۔ معروف شاعر، قتیل شفائی نے فلم ’’شباب‘‘ کے لیے ایک پُراثر نعت تحریر کی، جس کے بول تھے ’’مَیں سو جائوں یا مصطفیٰ ؐ کہتے کہتے‘‘۔ مالا بیگم کی پُرسوز آواز میں پیش کی گئی یہ نعت اپنی شاعری اور انفرادیت کے سبب بے حد مقبول ہوئی۔ 

اسی طرح ماضی کے نام وَر فلمی گیت نگار، تنویر نقوی نے فلم ’’ایاز‘‘ کے لیے حضرت شیخ سعدی ؒ کی مشہورِ عالم نعت ’’بلغ العلی بکمالہ،کشف الدجیٰ بجمالہ‘‘ کی تضمین کرکے اس میں اپنے مصرعے لگائےاور یہ وجد آفرین نعت پوری فلم کی جان تھی۔ فلم ’’زہرِ عشق‘‘ میں قتیل شفائی کی زبیدہ خانم کی آواز میں ریکارڈ کردہ نعت ’’سنو عرض میری کملی والے‘‘ نے بھی بے حد پذیرائی حاصل کی۔ فلم ’’نورِ اسلام‘‘ کے لیے تنویر نقوی ہی کی لکھی نعت، ’’ یثرب کے والی ؐ ، سارے نبی تیرے در کے سوالی، شاہِ ؐ مدینہ‘‘ موسیقار حسن لطیف کی موسیقی اورزبیدہ خانم، سلیم رضا اور ساتھیوں کی آواز میں پیش کی گئی، جو آج بھی سُننے والوں کو سحرزدہ کردیتی ہے۔ 

طفیل ہوشیار پوری کا نام جہاں اردو ادب میں نمایاں حیثیت کا حامل ہے، وہیں فلمی شاعری کے حوالے سے بھی مستند سمجھا جاتا ہے۔ انہوں نے کئی فلموں کے لیے نعتیں اور قوالیاں تحریر کیں۔ ماضی کی ایک فلم ’’مرزا صاحباں‘‘ میں زبیدہ خانم نے اُن کی ایک نعت اس قدر دل سوزی سے پڑھی کہ وہ اپنے زمانے کی مشہورترین نعتوں میں شمار ہوتی ہے، جس کے بول تھے ’’سنو فریاد سرکار مدینہ والے۔‘‘ جب کہ اُن کی تحریر کردہ قوالیوں میں ’’نگاہِ یار ہی سمجھے، نگاہِ یار کی باتیں‘‘ (فلم ’’قسمت‘‘) ’’محبت کے جہاں میں عشق کے نام سے اُجالا ہے‘‘ (فلم ’’نائلہ‘‘)، ’’پردے میں رہنے والے سے، پردے کا تقاضا کر بیٹھے‘‘ (فلم ’’زرینہ‘‘) اور ’’ساغر کی قسم، صہبا کی قسم‘‘ (فلم ’’نورِاسلام‘‘) کے علاوہ دیگر قوالیاں بھی شامل ہیں۔

شاعر اور گیت نگار، حمایت علی شاعر کا نام بھی کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ انہوں نے لاتعداد فلموں کے لیے بے شمار گیت لکھنے کے علاوہ کئی فلموں کے لیے نعتیہ کلام بھی تحریر کیا۔ فلم ’’دامن‘‘ میں خلیل احمد کی موسیقی اور ملکہ ترنم نورجہاں کی آواز میں ریکارڈ کی گئی ان کی ایک خوب صورت نعت ’’اے حبیبِ کبریا اے رحمۃ للعالمین‘‘کیا ہی عشق رسول ؐ میں ڈوب کر لکھی گئی۔ پھرماضی کے نام وَر فلمی شاعر، فیاض ہاشمی نے بھی فلموں کے لیے نعتیں اور قوالیاں تحریر کیں۔ فلم ’’عید مبارک‘‘ کے لیے لکھی ہوئی اُن کی ایک قوالی ’’رحم کرو یا شاہِ دو عالم‘‘ مالا بیگم، نسیم بیگم اور دیگر ساتھیوں کی آواز میں ریکارڈ ہوئی۔ 

علاوہ ازیں، اُن کی دو قوالیوں نے بھی بے پناہ شہرت حاصل کی، جن کے بول ہیں، ’’نہ ملتا گر توبہ کا سہارا کہاں جاتے‘‘ (فلم ’’توبہ‘‘ آواز، سلیم رضا) اور’’حق لااِلہ اِلّاللہ فرما دیا کملی والے نے‘‘ (فلم ’’اولاد‘‘ آواز، منیر حسین)۔ جب کہ ان قوالیوں کی دُھنیں موسیقار اے حمید نے تیار کیں۔فلموں کے مشہور گیت نگار، مسرور انور کی تحریر کردہ مشہور قوالی ’’جو کچھ بھی مانگنا ہے، درِ مصطفیٰ ؐسے مانگ ‘‘ غلام فرید صابری قوال اور ان کے بھائی مقبول صابری نے بڑے دل کش انداز میں پیش کی۔ اس قوالی سے جہاں مسرور انور کو شہرت ملی، وہیں صابری برادران نے بھی عالمی شہرت حاصل کی۔ صابری برادران ہی کی آواز میں پرنم الہ آبادی کی لکھی ہوئی ایک نعتیہ قوالی نے تو مقبولیت کے تمام ریکارڈتوڑ دیئے۔ 

بول یہ تھے ’’تاجدارِ حرم، ہو نگاہِ کرم، ہم غریبوں کے دن بھی سنور جائیں گے۔‘‘ گیت نگار، شاعر صدیقی کی فلم ’’بھیّا‘‘ کے لیے لکھی قوالی، ’’مدینے والے سے میرا سلام کہہ دینا‘‘ احمد رشدی نے روبن گھوش کی موسیقی میں انتہائی لاجواب انداز میں پیش کی۔ اسی قوالی کے سبب فلم ’’بھیا‘‘ نے بھی کام یابی حاصل کی۔ پھر شاعر، آرزو اکبر آبادی نے فلم ’’چاند، سورج‘‘ کے لیے ایک شان دار قوالی لکھی، جسے غلام فرید صابری اور ان کے بھائی مقبول صابری نے اپنے منفرد انداز میں پیش کیا۔ قوالی کے بول تھے ’’محبت کرنے والو، ہم محبت اس کو کہتے ہیں۔‘‘ جب کہ فلم ’’الزام‘‘ میں مسرور انور کا حمدیہ کلام ’’آئے ہیں تیرے دَر پر تو کچھ لے کے جائیں گے‘‘ بھی صابری برادران کی آواز میں گویا امر ہوگیا۔

قصّہ مختصر، ماضی میں بننے والی فلموں میں معروف شعراء، گلوکاروں اور موسیقاروں کی خصوصی لگن، توجّہ اور عقیدت سے پیش کی جانے والی یہ قوالیاں اور حمدیہ، نعتیہ کلام آج بھی سُننے والوں پر وجد کی کیفیت طاری کردیتا ہے۔