• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

انٹیگریٹیڈ پیسٹ مینجمنٹ(IPM) کی اصطلاح یہ ہے کہ یہ وہ وسیع رسائی ہے، جس کی مدد سے حشرات کی آبادی کو ممکنہ حد تک کم سے کم کیا جاسکتا ہے اور اس کا بنیادی مقصد حشرات کی تباہ کاریوں سے معیشت کو بچانا ہے، تا کہ معاشی بحران کو کم سے کم سطح تک لایا جا سکے۔ اس کے ذریعے حشرات کے مسائل کے ساتھ ساتھ انسانی حیات اورماحول کو درپیش خطرات سے بھی بآسانی نمٹا جاسکتا ہے۔ 

اس طریقہ کار کے ذریعے حشرات کی آبادی کو جنگلات، دیہات، زرعی اراضی پر کنٹرول بھی کیا جا سکتا ہے، یہ ایک متحرک متوازن اور مستحکم نظام پر مشتمل طریقۂ کار ہے جو کہ حشرات کو ہنگامی حالات میں بھی کنٹرول کرنا سکھاتا ہے۔ اس کی مدد سے حشرات کی انسداد کے لیے بھرپور پلاننگ کی جا سکتی ہے۔ آئی پی ایم ( IPM )کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ فیلڈ سے تمام اقسام کے حشرات/ کیڑوں کو تلف کر دیا جائے بلکہ اس کا بنیادی مقصد اُن نقصان دہ حشرات کو ختم کرنا ہے جو زراعت کے لئے مضر ہیں، تاہم یہ خاتمہ دوست حشرات کے ذریعے ممکن بنانا ہوتا ہے اور ان دوست حشرات سے روشنائی دراصل آئی پی ایم کا بنیادی ٹارگٹ ہے۔ 

اس کے بنیادی نکات میں درج ذیل چار نکات خاص خصوصیت کے حامل ہیں۔ (1) نقصان دہ حشرات کی شناخت (جو کہ ہمیشہ سے نظرانداز رہی ہے)۔ (2) نقصان دہ حشرات کی فیلڈ میں سرگرمی کی باقاعدہ نگرانی کرنا۔ (3) کارروائی کی حد کا تعین کرنا۔ (4) حشرات کو تلف کرنے کا مؤثر طریقہ کار متعارف کروانا۔ اس کے ساتھ ساتھ آئی پی ایم کی بنیادی ترجیحات میں غیرضروری حشرات کش اسپرے کو روکنا، فائدہ مند تکنیک کو روشناس کروانا اور فیلڈ میں دوست حشرات کی ترسیل کو روایتی طریقے سے متعارف کروانا بھی شامل ہے۔

یہ ایک حساس پروگرام ہے جو عام فہم طریقوں کے امتزاج پر انحصار کرتا ہے۔ آئی پی ایم کیڑوں کے لائف سائیکل اور ماحول کے ساتھ ان کے تعامل کے بارے میں جامع معلومات کا ضامن ہے۔ یہ معلومات دستیاب کیڑوں پر قابو پانے کے طریقوں کے ساتھ مل کر سب سے زیادہ اقتصادی ذرائع سے کیڑوں کے نقصان اور ماحول کو درپیش مسائل سے ممکنہ خطرے سے نکالنے میں کارآمد ہے۔ آئی پی ایم کیڑوں کے انتظام کے تمام مناسب آپشنز سے فائدہ اُٹھانا ہوتا ہے بشمول کیڑے مار ادویات کا درست استعمال۔ 

نامیاتی خوراک کی پیداوار کا اطلاق وغیرہ۔ اس کے رُجحان کو دراصل مؤثر فوقیت دینے کے لیے ہمیں سب سے پہلے اُن کسان دوست حشرات/ کیڑوں کی نشان دہی کی ضرورت ہے جو براہ راست اس سسٹم کو چلانے میں معاون و مددگار ہیں۔ فائدہ مند کیڑے وہ کیڑے ہیں جو فیلڈ میں نقصان دہ حشرات کو اپنی خوراک کا حصہ بنا کر ہماری زرعی اراضی کو ناقابل تلافی نقصان سے بچاتے ہیں لیکن بدقسمتی سے ہمیں اُن حشرات کی کسی شناخت کا پتہ نہیں ہے۔

موجودہ دور میں بدقسمتی سے حشرات کش ادویات کے اسپرے نے جہاں نقصان دہ حشرات کو تلف کیا۔ وہاں یہ فائدہ مند مخلوق بھی لقمۂ اَجل بن گئی اور نہ چاہتے ہوئے بھی ایکوسسٹم میں وہ بربادی برپا ہوئی، جس کا تصوّر ہی محال ہے اور اس خلاء کو پُر کرنے میں کئی صدیوں کا عرصہ درکار ہے جو بظاہر ناممکن لگتا ہے۔ فائدہ مند حشرات کی کئی نسلیں اب تو تقریباً ناپید ہو چکی ہیں جو ارتقائی عمل میں کئی پیچیدہ پیدا کر چکا ہے۔ جدید ٹیکنالوجی کے دور میں صرف باقیات کے DNA اور RNA کی معلومات کی بنیاد پر اُن کے وجود کی نشان دہی ہوئی اور پھر اُن کا مؤثر کردار جو کہ وہ ماضی میں ایکوسسٹم کو متوازن کرنے میں ادا کرتے تھے۔

اس سے شناسائی حاصل ہوئی، تاہم دوست حشرات کی بربادی نہ صرف اُن کے قدرتی مسکن کو تباہ کر گئی ہے بلکہ حیاتیاتی تنوع Biodiversity میں کئی انواع ناپید ہو چکی ہیں، جس سے یقیناً آئندہ آنے والی نسلوں کو ارتقائی عمل سمجھنے میں کئی دُشواریوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ غور طلب پہلو یہ ہے کہ ہمارے ماحول میں اب بھی کئی قسم کے دوست حشرات پروان چڑھتے ہیں اگر مناسب نگرانی کے ساتھ ساتھ ان کی بروقت شناخت کوبروئے کار لایا جائے تو ہم دوبارہ سے نہ صرف حیاتیاتی تنوع کی خلاء پُر کرنے میں کامیاب ہوں گے بلکہ DNA تکنیک کو استعمال کرتے ہوئے اُن معدوم انواع کی کئی Duplicate کاپیاں بنانے میں بھی کامیاب ہو سکتے ہیں۔ ان کامیاب کاوشوں کی وجہ سے ہم آئی پی ایم کے فروغ کو مؤثر طریقے سے کامیاب بنا سکیں گے۔ ان دوست حشرات اور پرندوں کو مؤثر طریقے سے پہچان اور نگرانی کی اشد ضرورت ہے۔

دوست حشرات میں بگ، نیماٹوڈس، ایروگ، سبز سینگ، ملی بگ، سپرڈیفینیٹڈ مکھیاں، پرندے ، چمگادڑ، تتلیاں، ہائی مینویڑا پتنگے، چقندر، سیس ونگز، نہورو بیڑا، کولسیویڑا میں زمینی چقندر کاربیڈی، شہد کی مکھیاں، ڈریگن فلائیز، لیڈی بگ، مکڑیاں، مینیٹس، جگنو، جب کہ پرندوں کی درجہ بندی میں بلیو پرندے، کوئل، کبوتر، چڑیاں، طوطے، مینا عموماً Beetles چقندر، ٹڈیاں، لف ہاپر، Stink bugs کو اپنی خوراک کا حصہ بناتے ہیں۔ یہ تمام حشرات فصلوں کو ان گنت نقصان پہنچاتے ہیں۔

پرائینگ مینٹی سیس ایک ایسا دلکش حشرہ ہے جو کہ اپنی جسامت میں بڑی انفرادیت رکھتا ہے۔ پرائینگ مینٹی سیس کو ایک بہترین شکاری کہا جاتا ہے۔ یہ عموماً گربز افڈس، ٹڈی دل، مکھیوں، کرکٹ Grasshoppers، چقندر وغیرہ کی آبادی کو کنٹرول کرنے میں بہت مددگار ہے لیکن بدقسمتی سے حشرات کش ادویات نے ان کی بقا کو بھی خطرے میں ڈال دیا ہے۔ اس طرح (Lady Bugs) لیڈی بگ کا وجود اب ریاست ہائے متحدہ میں اب تقریباً ناپید ہوتا جارہا ہے یہ ہی وجہ ہے کہ مضر حشرات کی افزائش نسل میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے کیونکہ قدرتی طور پر اب ان کو کنٹرول کرنے والا نہیں ہے۔

ڈریگن فلائیز نہ صرف ایک خوبصورت دلکش حشرہ ہے بلکہ یہ ایک ایسی خلائی مخلوق ہے جو اُڑان بھرنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتی۔ اُڑتے ہوئے یہ بڑا ہی دل کش منظر پیش کرتا ہے۔

اس کے علاوہ ڈریگن فلائیز، فروٹ فلائیز، گھریلو مکھیاں، سفید مکھیاں اور کئی قسم کے دوسرے کیڑے بھی اس خوراک کاحصہ ہیں اس طرح تتلیاں بھی ہمارے پودوں کی نشو و نما اور بقاء کے لیے بہت ضروری ہیں۔ یہ فروٹ سبزیوں اور پھلوں کو بیج پیدا کرنے میں مدد فراہم کرتی ہیں۔Pollinators ہونے کے ساتھ ساتھ یہ ایکوسسٹم کے توازن کو برقرار رکھنے میں بڑی معاون ہیں مثال کے طور پر یہ کئی پرندوں، چھوٹے ممالیہ اور دوسرے حشرات کے لیے خوراک کا ذریعہ ہیں۔

تتلیوں کی ماحولیاتی تبدیلیوں کو سمجھنے کےلیے ایک خودکار آلہ (Indicater) سمجھا جاتا ہے جہاں پر آب و ہوا آلودہ ہوگی وہاں آپ کو تتلیوں کی تعداد میں حیرت انگیز کمی ملے گی جوکہ اس بات کی واضح نشان دہی ہے کہ یہاں کا ماحول جاندار کے رہنے کےلیے مناسب نہیں ہے ۔ اس کمی کی بڑی وجوہات میں درجۂ حرارت میں بتدریج اضافہ، مضر اثرات کا ماحول میں رہ جانا، رہائش، جنگلات کی کٹائی اور بے تحاشا کیمیکل کا استعمال کے ساتھ ساتھ کئی علاقوں میں Urbanization وغیرہ شامل ہیں۔ دُنیا میں تقریباً 40 کے لگ بھگ Beetles کی فیملیز رہتی ہیں جو کسی شکاری فطرت کی حامل ہوتی ہیں۔ 

ان کا لاروا اور بالغ دونوں ہی کئی دوسرے مضر حشرات کو کھا جاتے ہیں جن میں خاص کر (Mites) افڈس، اسکیل حشرات، اور میلی بگ وغیرہ شامل ہیں۔یہ ہی وجہ ہے کہ ان نیما ٹوڈس خصوصاً Nigeriensis کو بائیولوجیکل ایجنٹ کے طور پر خصوصی اہمیت حاصل ہے اور دنیا کے کئی ممالک میں ان نیماٹوڈس کو کلچر کر کے فیلڈ میں استعمال کیا جاتا ہے، تاکہ بروقت ٹڈیوں کا خاتمہ کر کے اُن کی تولیدی صلاحیت کو روکا جا سکے یہ دیرپا عمل ضرور ہے لیکن یہ ماحول دوست اور مستقل نجات کا بہترین طریقہ کنٹرول ہے۔

Nematodes کے ساتھ ساتھ Mycorrhizalc Trichoderma اور Endophytic بھی ایسے ممبران ہیں جو کہ بایو لوجیکل سائیکل میں اہم حیثیت رکھتے ہیں۔ اُن کو بھی حشرات کو کنٹرول کرنے کیلئے مختلف ذریعوں سے استعمال کیا جا تا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان فائدہ مند دوست حشرات ،پرندے ، نیماٹوڈس وغیرہ کی حفاظت کس طرح کی جائے یا اُن کو تجارتی سطح پر کس طرح کلچر کر کے فیلڈ میں مضر حشرات کی روک تھام کے لیے استعمال کیا جائے؟ اس ضمن میں ضروری عمل تو یہ ہے کہ سب سے پہلے ان حشرات کی شناخت کو ممکن بنایا جائے، پھر ان کی بقاء اور ترسیل کے لیے ہنگامی بنیادوں پر کارروائی کی جائے مزید دوست حشرات کی نسل کشی کو ترک کیا جائے۔

ماحول سے آلودگی اور دُوسرے مضر کیمیکل کے استعمال کو روکا جا سکے ،تا کہ اس سے ان دوست جاندار کی قدرتی بقاء برقرار رہ سکے اور ان کی نسل ناپید نہ ہو جائے اور ان کی بقاء کو برقرار رکھنا ہی آئندہ ماحول میں دوست جاندار کے فروغ سے ماحول کو آلودگی اور دوسرے کئی مضر اثرات سے بچایا جا سکے گا۔ اس کے علاوہ فیلڈ میں موجودہ حشرات کو روایتی طریقوں سے تلف کرنے کے بجائے کیڑے مار دوا کے استعمال کو ترجیح دیں۔ دوست کیڑوں اور حشرات کو دیرپا استعمال میں لانے کا ایک مؤثر ذریعہ یہ بھی ہو سکتا ہے۔

اُن ممالک سے جو کہ تجارتی لین دین رکھتے ہیں اُن سے بڑی مقدار میں بایولوجیکل ایجنٹ خاص کر Green Guard، Scelio، نیماٹوڈس، وغیرہ کو خریدا جاسکے۔ آئی پی ایم کے فروغ کے لیے ہمیں دیگر کیڑے مار ادویات اور مواد سے فائدہ مند کیڑوں کے ممکنہ نتائج سے بھی آگاہ ہونا چاہئے جو آپ اپنی فصلوں پر لگاتے ہیں۔ دوست حشرات کی فراونی کا ایک بہترین ذریعہ اُن پودوں اور فصلوں کی کاشت ہے جو اُن کو راغب کرنے میں بڑا اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ان پودوں میں فملیز Apiaceae اور Asteraceae کے ممبران شامل ہیں۔

اس کی حکمت عملی کو اپنانے کے لیے تین اہم نکات ہیں۔ (1) کلاسیکل (درآمد) جہاں قدرتی کنٹرول حاصل کرنے کے لیے دوست حشرات کیڑوں اور پرندوں کو متعارف کروانا۔

دوسرے مرحلے پر (تیار شدہ کلچر) قدرتی بایولوجیکل ایجنٹ کو حاصل کر کے متاثر جگہ پر فوری طور پر ریلیز کیا جائے، تا کہ مضر حشرات بروقت تلف ہو سکیں جب کہ تیسرے مرحلے میں انوکویسٹو (تحفظ) جس میں باقاعدہ بحالی کے ذریعے قدرتی دشمنوں کو برقرار رکھنے کے لیےاقدامات کئے جاسکیں۔ یہ ذہن نشین رکھیں کہ اگر حیاتیاتی کنٹرول کو بغیر کسی پلاننگ کے تحت متعارف کروایا گیا تو یہ حیاتیاتی تنوع پر منفی اثرات مرتب کر سکتا ہے۔

لہٰذا آئی پی ایم کے بنیادی اُصولوں کو مدنظر رکھتے ہوئے تمام تر مرحلوں کو سمجھتے ہوئے فیلڈ کے اندر حیاتیاتی سرگرمیاں بروئے کار لائی جائیں عموماً فیلڈ میں قدرتی دشمنوں کو ریلیز کرتے ہوئے۔ وہاں موجودہ غذائی اجناس، وقت، موسم کا خاص خیال رکھا جاتا ہے۔ اس طرح فائدہ مند کیڑوں کی حوصلہ افزائی مناسب حالات زندگی، فراہم کر کے کیڑوں پر قابو پانے کی حکمت عملی کو اپنانے کی ضرورت ہے۔ جواکثر نامیاتی کاشتکاری، نامیاتی باغبانی یا کیڑوں کے مربوط انتظام میں استعمال ہوتی ہے۔

آئی پی ایم کو پاکستان میں متعارف کرانے کی اشد ضرورت ہے اور اس کے موجودہ پروگرامز سے فائدہ اُٹھانے کی بھی ضرورت ہے۔ آلودہ ملک میں فصلوں کو بچانے کی وجہ سے دوسرے کئی ان گنت مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ کسان کمیونٹی میں آئی پی ایم کی ضرورت اور افادیت کو اُجاگر کیا جائے اور اس پروگرام کا مستحکم بنانے میں حکومت، تعلیمی و تحقیقی ادارے اپنا قومی کردار ادا کریں، کیوںکہ یہ ہی وہ بنیادی نکتہ نظر ہے کہ ہماری فصلوں، لان، اور دوسرے تمام تفریحی مقامات کو مضر حشرات کے حملے سے بچا سکتے ہیں۔

آئی پی ایم پروگرام حشرات کی روک تھام کے ساتھ کنٹرول کی سفارشات کرتا ہے۔ اس کے بنیادی کاموں میں حشرات کی آبادی کو روکنا۔ (2) حشرات کی افزائش کے لیے خوراک اور مسکن کو ناپید کرنا، (3) مضر حشرات کو کنٹرول کرنے والی ایجنسیوں کے ساتھ مل کر ہنگامی صورت حال سے نمٹا جا سکے۔

آئی پی ایم کیسے کام کرتا ہے؟

آئی پی ایم مضر جاندار حشرات پر قابو پانے کا کوئی واحد طریقہ نہیں ہے بلکہ یہ کیڑوں کے انتظام کے جائزوں، فیصلوں اور کنٹرول کا ایک لامتناہی سلسلہ ہے۔ آئی پی ایم کی مشق کرتے ہوئے وہ کاشتکار جو کیڑوں کے انفیکشن کے امکانات سے واقف نہ ہوں وہ درج ذیل نکات کو ذہن نشین کر لیں۔ فیلڈ میں ایکشن تھریشولڈزسیٹ کریں کسی بھی کیڑے کے وبائی حملے کو روکنے کے لیے آئی پی ایم نے ایک قانونی حد مقرر کی ہوئی ہے ایک نقطہ جس پر کیڑوں کی آبادی یا ماحولیاتی حالات یہ بتاتے ہیں کہ کیڑوں پر قابو پانے کے لیے کارروائی کی جائے یا نہیں، کیوںکہ بعض اوقات حشرات کے جھنڈ کے جھنڈ کا فیلڈ میں نمودار ہونے کا مقصد یہ ہرگز نہیں ہوتا ہے ،یہ معاشی بحران کا باعث بنیں گے، پھر ان کو کنٹرول کرنا اشد ضروری ہے۔

اس ہی وجہ سے ماہرین حشرات فیلڈ میں موجودہ حشرات کو دیکھ کر فوری شناخت کو ترجیح دیتے ہیں اورکسان کمیونٹی کو بھی چاہئے کہ وہ فوری طور پر کسی بھی ماہر حشرات یا Plant Protection ادارہ سے رجوع کریں۔ اس طرح اُن کو یہ کنفرم ہو جائے گا آیا یہ حشرات (Swarm) جھنڈ آئوٹ بریک بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں یا نہیں یا ان حشرات کی زیادہ تعداد کتنی مالی نقصان کا موجب ہو سکتی ہے ،کیوںکہ بہت سے جاندار بے ضرر ہیں اور وہ ایکوسسٹم کے توازن میں ایک اہم ستون کے مانند ہیں۔

لہٰذا صرف اُن کی تعداد دیکھ کر اُن کو ختم کرنا دانش مندی نہیں ہے یہ ہی آئی پی ایم کا بنیادی کردار ہے۔ یہ اپنی کسان کمیونٹی کو سب سے پہلے درست نشان دہی اور کیڑے کے لائف سائیکل سے روشناس کرواتی ہے ،جس کی مدد سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ یہ کیڑےحشرات آئندہ کتنے دن تک فیلڈ میں موجود ہوں گے اور اس دوران یہ کس حد تک فصل کو متاثر کرے گا؟ اور اس مرحلے پر ہی آئی پی ایم ان کی مؤثر روک تھام کے لیے کیمیکلز، کلچرل یا بایولوجیکل کنٹرول کو منتخب کرنے کا مشورہ دیتا ہے، پھر آئی پی ایم کیڑوں پر قابو پانے کے لیے پہلی لائن کے طور پر فصل، لان یا پھر کسی بھی اندرونی جگہ جہاں کیڑوں کا حملہ ہوا ہے اُس کی مکمل جانچ کرتا ہے۔ 

اس کے بعد یہ کیڑوں کے خلاف مزاحمت کرنے والے جاندار کا انتخاب کرتا ہے اور کیڑوں سے پاک روٹ اسٹاک لگانا، وغیرہ کی سفارش کرتا ہے جو کہ ماحول اور لوگوں کی صحت دونوں کے لیے کوئی خطرہ پیدا نہیں کرتا۔ فیلڈ کی نگرانی، حشرات کی شناخت اور ابتدائی کارروائی کے بعد آئی پی ایم پروگرام کنٹرول کرنے کی حکمت عملی مرتب کرتا ہے۔ جس میں مؤثر، کم خطرناک، کیڑوں کا انتخاب پہلے کیا جاتا ہے۔ 

بشمول انتہائی ہدف والے کیمیکلز جیسے کیڑوں کی Mating میں خلل ڈالنے کے لیے مختلف قسم کے فیرومونز کا استعمال میکینکل کنٹرول ان دونوں ذرائع کو استعمال کر کے نتائج حاصل کئے جاتے ہیں۔ اگر نتائج مثبت ہیں تو پھر انتہائی قدم جیسے کہ کیڑے مار ادویات کا ٹارگٹ اسپرے کیا جاتا ہے جب کہ اگر اس کے بھی خاطرخواہ نتائج نہ ملے تو غیرمخصوص کیڑے مار ادویات کا براڈکاسٹ اسپرے آخری حربہ سمجھا جاتا ہے۔

بدقسمتی سے ہمارے کاشتکار آئی پی ایم کے تصور سے ناآشنا ہیں ملک کے بڑے علاقوں میں چند بااثر اور تعلیم یافتہ کاشتکار ہی آئی پی ایم کے طریقۂ کار سے واقفیت رکھتے ہیں۔ وہ اپنی زرعی اراضی پر لگنے والے حشرات کی جانچ کر کے شناخت کرواتے ہیں اور اس کے بعد آئی پی ایم ٹیم کی رہنمائی اور مشاورت کے بعد اپنی فیلڈ میں بہت کم سیکٹر پر فیرومونز کا استعمال عمل میں لاتے ہیں بلکہ یہ کہنا بجا ہوگا کہ ملک میں ایک مخصوص کسان طبقہ ہی آئی پی ایم کے تسلسل پر ہے اور صرف چند لوگ ہی آئی پی ایم تکنیکوں کا استعمال کرتے ہوئے اس کارواںکا حصہ ہیں اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم جو کھا رہے ہیں جو خرید رہے ہیں کیا وہ تمام پروڈکٹ آئی پی ایم کے زمرے میں آتی ہیں یا یہ اُس کے دائرہ کار میں رہ کر اُگائی گئی ہیں؟ 

عموماً آئی پی ایم طریقوں سے اُگائی گئی فصل کی شناخت مارکیٹ میں نہیں ہوتی ہے جیسے نامیاتی خوراک آئی پی ایم استعمال کرنے والے کاشتکاروں کے لیے کوئی قومی سرٹیفکیشن اور پذیرائی نہیں ہے جب کہ دُنیا کے کئی ترقّی یافتہ ممالک میں آئی پی ایم کی تکنیک استعمال کرنے والے کسانوں کی ملکی سطح پر پذیرائی کے ساتھ ساتھ اُن کے لئے مارکیٹ ریلیف بھی فراہم کیا جاتا ہے ان پروڈکٹ کی مارکیٹ ویلیو بھی بہت زیادہ ہے۔ کاشتکاروں کی قومی سرپرستی ہر مرحلے پر دستیاب ہوتی ہے یہ ہی وجہ ہے کہ ترقّی یافتہ ممالک کا کسان قدرتی طریقہ کنٹرول کو ترجیحی بنیادوں پر اپناتا ہے۔ 

آئی پی ایم اہم کیڑوں پر قابو پانے کا ایک منفرد اور پیچیدہ عمل ہے اور یہ مخصوص طریقوں کا ایک سلسلہ ہے۔ اس لئے ملک میں دستیاب فصلوں، سبزیوںاور پھولوں کے لیے آئی پی ایم کی تعریف استعمال کرنا تقریباً ناممکن سا لگتا ہے۔ آئی پی ایم کے لیبل درج کھانے محدود علاقوں میں صرف ترقی یافتہ ممالک میں ہی دستیاب ہیں جن کو کچھ خاص بااثر کاشتکار مارکیٹ میں (IPM-Grown) کا لیبل لگا کر فروخت کرتے ہیں، جس سے صارفین کو ان کی خوراک میں ایک اور انتخاب کا موقع مل جاتا ہے۔

ہماری کاشت کار کمیونٹی کو چاہیے کہ آئی پی ایم کے دوست حشرات کی شناخت کو ترجیح دیں اور نشان دہی کے بعد ان کی افزائش نسل کے لیے ہنگامی بنیادوں پر کوششیں کریں یہ ہی ہمارے بنیادی مسائل کا حل ہے ہمیں اس انتظار میں ہرگز نہیں رہنا چاہئے کہ ملک میں باقاعدہ کسی آئی پی ایم پروگرام کا آغاز ہوگا اور ہماری کسان برادری پھر جا کر اُس پروگرام کو جوائن کرے گی اور پھرکہیں جا کر ہم اپنی فصلوں اور زرعی اجناس کو آئی پی ایم کے زمرے میں لائیں گے؟ بلکہ اس عمل میں پہل ہمیں خود ہی کرنی ہوگی۔

موجودہ دور میں ضرورت صرف اور صرف دوست حشرات کی بقاء اور اُن کی افزائش نسل کو بڑھانے کے لیے اقدامات کی ضرورت ہے، کیوں کہ حیاتیاتی بقاء خطرے سے دوچار ہے۔ آیئے، قوانین فطرت کا احترام کرتے ہوئے اپنے ماحول کو مستحکم اور محفوظ بنایئے اور آئی پی ایم اور اس سے منسلک مخلوق کے فروغ اور افزائش نسل کو ترجیحی بنیادوں پر اپناتے ہوئے نہ صرف اپنا کل بلکہ اپنی آئندہ آنے والی نسلوں کا مستقبل بھی محفوظ بنائیں۔

سائنس اینڈ ٹیکنالوجی سے مزید
سائنس و ٹیکنالوجی سے مزید