لاہور سے کشمیر جانے کا ارادہ کیا تو کچھ دور اندیش دوستوں نے مشورہ دیا کہ موسم کے سلسلے میں پہلے گوگل کی کھڑکی سے جھاتی مار لینا۔ ادھر بارشیں ہوئیں تو مت جانا۔ بارش سے سڑکوں پر پھسلن تو ہوتی ہی ہے، بڑے بڑے پہاڑ مسافروں اور سیاحوں کا حوصلہ آزمانے کیلئے چپکے سے راہ گزر پر آن گرتے ہیں۔یہ پتھر کبھی کبھی راہ گیروں کی آہنی سواریوں کے اوپربھی آن گرتے ہیں۔ انہیں کچل ڈالتے ہیں۔ مالی نقصان بھی ہوتا ہے اور جانی بھی۔
اس دفعہ میں آزاد کشمیر پہنچا تو موسم خشک تھا۔ فضا میں نمی نام کوبھی نہ تھی۔ پانی سے بھرے بادل کہیں چھپ گئے تھے۔ سورج آنکھیں دکھا رہاتھا۔ میرے ساتھ جانے والے سارے سیاح پہلی بار آزاد کشمیر آئے تھے۔ جب انہوں نے یہاں کا موسم بھی لاہور جیسا پایا تو اتنے طویل سفر پر کف ِ افسوس ملنے لگے ۔ میں نےتسلی دی کہ وادی نیلم جاتے ہوئے نظارے اور موسم بھی دل فریب ہوتا چلا جائے گا۔ کوئی تسلی دینے والا ہو تو پُرخطر سفر بھی جاری رکھنے کو جی چاہتا ہے۔
پہاڑوں اور دریائے نیلم کے درمیان بل کھاتی ہوئی پتلی سی سڑک پر چلتے چلتے بالآخر ہم کیرن پہنچ گئے۔ کیرن کو آپ وادی نیلم کا دروازہ کہہ سکتے ہیں۔ سیز فائر سے پہلے یہ خوب صورت شہر بھارتی توپ خانے کے نشانے پر رہتا تھا۔ بے گناہ شہری جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے تھے۔ غریب لوگوں کے لکڑی اور پتھر سے بنے مکان ملبے کا ڈھیر بن جاتے۔ اب یہاں امن ہے۔ سڑک کے دونوں کناروں پر چھوٹے چھوٹے ہوٹل بن چکے ہیں ۔ کیرن سے چند کلومیٹر پہلے ایک چھوٹاسا گائوں چلہانہ آتا ہے۔ یہاں دریائے نیلم کے دوسرے کنارے پر مقبوضہ کشمیر اپنی جھلک دکھاتا ہے۔ یہی لائن آف کنٹرول ہے۔ ہماری مستعد اور بہادر آرمی کے جوان مسافروں اور سیاحوں کا حوصلہ بڑھاتے ہیں۔ یہ جوان یہاں نہ ہوتے تو یہ جنت دوزخ کا منظر پیش کرتی۔ کیرن میں آرمی کے جوان آنے والے مسافروں اور سیاحوں کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ کیرن میں دریائے نیلم کچھ کشادہ مگر خوف ناک ہو جاتا ہے۔ اِدھر ہمارا کشمیر ہے اور اُدھر زنجیروں میں جکڑا کشمیر آنسو بہاتا نظر آتا ہے۔ دریا کا ایک کنارہ ہمارےاور دوسرا ان کے پاس ہے جو ظلم کی داستانیں لکھ رہے ہیں۔ دریا کے دو کنارے کبھی آپس میں نہیں ملتے لیکن دونوں کناروں کو ملانے کے لئے پل تو بنایا جاسکتا ہے۔ کبھی تو یہاں پل بنے گا۔ لوگ اِدھر سے اُدھر جائیں گے اور اُدھر سے اِدھر آئیں گے۔ امید تو ہے۔کیرن سے رتی گلی جانے کا ارادہ تھا لیکن پتا چلا کہ شدید گرم موسم میں وہاں شدید برف باری ہوئی ہے اس لئے فیصلہ تبدیل کرنا پڑا۔ سو کیل اور اڑنگ کیل جانے کا ارادہ کیا گیا۔ وہاں تک جانے کیلئے فوربائی فور گاڑی درکار ہوتی ہے۔ لہٰذا جیپ کیلئےاپنے ہوٹل کے مالک ریٹائرڈ فوجی راجہ سخاوت کی خدمات حاصل کی گئیں۔ راجہ سخاوت نے بتایا کہ آزاد کشمیر کی حکومت نے اب جیپوں کیلئےایک کرایہ نامہ مقرر کردیا ہے، اس لئے جیپ ڈرائیور سے سودے بازی کا کوئی فائدہ نہیں۔
بعض لوگ کیرن سے کیل تک جانےکیلئےاپنی ذاتی گاڑیاں استعمال کرتے ہیں۔ کیرن سے آگے کیل تک سڑک انتہائی شکستہ ہے۔ لوگ اپنی گاڑیوں پر کیل تک پہنچ جاتے ہیں لیکن جب واپس آتےہیں تو گاڑیوں کی حالت دگرگوں ہوجاتی ہے۔ چالیس پچاس ہزار روپے خرچ کرکے گاڑیوں کو دوبارہ اصل حالت میں لے کر آتے ہیں۔ بہتر یہی ہوتا ہے کہ کیرن سے آگے کا سفر جیپ پر کیا جائے۔ جیپوں کے ڈرائیور راستوں سے آشنا اور ہر نازک اور پیچیدہ صورتحال کا مقابلہ کرنے کے اہل ہوتے ہیں۔یہ جیپ ڈرائیور انتہائی تابع فرمان ہوتے ہیں۔ جہاں آپ کہتے ہیں جیپ ٹھہرا لیتے ہیں اور آپ کو فطرت سے ہم کلام ہونے کا موقع فراہم کرتے ہیں۔
کیرن سے آگے وادی نیلم اپنے اسرار کھولتی ہے۔ خوف، حسن، جلال اور جمال کے سارے مظہر آپ کو یکجا دکھائی دیتے ہیں۔ یہاں پہنچ کر آپ کو پتہ چلتا ہے کہ کشمیر کو جنت کیوں کہا جاتا ہے؟ شاردہ سے ہوتے ہوئے جب آپ کیل کی طرف جاتے ہیں تو دریائے نیلم کا نیلا پانی، نیلے آسمان کوبھی شرماتا ہے۔ پہاڑوں پر گھنے دیو قامت درخت دن میں جمال کی چادر اوڑھ لیتے ہیں اور رات کو جلال کا پیکر بن جاتے ہیں۔ راستے میں جگہ جگہ آبشاریں آپ کے پائوں کی زنجیر بن جاتی ہیں۔ کہتی ہیں پہلے ہمیں دیکھو۔ ہم میں اترو۔ پھر آگے جانا۔ ان آبشاروں کا پانی اتنا ٹھنڈا ہوتا ہے کہ اگر آپ ایک منٹ کےلئے پانی میں کھڑے ہو جائیں تو پیروں کاخون جمنے لگتا ہے۔ پائوں سرخ ہو جاتے ہیں۔
کیل سے اڑنگ کیل جانےکیلئے لوہے کے رسے پر لٹکی ہوئی ڈولی میں سوار ہونا پڑتا ہے۔ کم زور دل لوگوں کو اس سے خوف آتا ہے لیکن شوق اس خوف پر حاوی ہو جاتا ہے۔ سو میں بھی دل تھام کر اس ڈولی میں سوار ہوگیا۔ دوسری طرف اتر کر دس منٹ کی چڑھائی چڑھ کر آپ اڑنگ کیل پہنچ جاتے ہیں۔ اڑنگ کیل، قدرت کا ایک شاہکار ہے۔ یہ پہاڑوں کے عین اوپر ایک میدانی گائوں ہے جہاں قدرت نے اپنے سارے حسین مظہر بکھیر رکھے ہیں۔ اس خطرناک اور حسین سفر کے بعد رات کے تقریباً آٹھ بجے ہم کیرن میں اپنے عارضی مستقر میں پہنچ گئے۔