جیک پیٹرک ڈورسی، مائیکروبلاگنگ ویب سائٹ ’ٹوئٹر‘ کے شریک بانی اور اوّلین سی ای او ہیں۔ گزشتہ سال انھوں نے کمپنی کے سی ای او کے عہدہ سے استعفیٰ دے دیا تھا، تاہم وہ بطور بورڈ رکن اب بھی کمپنی کے ساتھ منسلک ہیں۔ وہ موبائل پےمنٹس گیٹ وے سروس کمپنی ’اسکوائر‘ کےشریک بانی اور سی ای او بھی ہیں، جو انھوں نے ٹوئٹر کے قیام کے 3سال بعد 2009ء میں قائم کی تھی۔ جیک ڈورسی بنیادی طور پر کمپیوٹر پروگرامر اور انٹرنیٹ انٹرپرینیور ہیں۔
جیک ڈورسی کا بچپن
جیک ڈورسی 19نومبر 1976ء کو امریکی شہر سینٹ لوئس، میسوری میں پیدا ہوئے۔ بچپن میں وہ خاموش طبیعت لڑکے طور پر جانے جاتے تھے، کیوں کہ وہ ہکلاتے تھے، تاہم اس چیلنج پر قابو پانے کے لیے وہ پُرعزم تھے۔ اس کے لیے انھوں نے کئی تربیتی پروگرام کیے اور بالآخر بول چال میں روایتی روانی لانے میں کامیاب ہوگئے۔ جیک بچپن سے کمپیوٹرز میں دلچسپی رکھتےتھے اور اپنے اسکول کی کمپیوٹر لیب کے رکن تھے، جہاں وہ اپنے وقت کا قابل ذکر حصہ آئی بی ایم کمپیوٹرز کے دستیاب مختلف ماڈلز کو سمجھنے میں صرف کرتے تھے۔ بچپن میں وہ نقشوں میں بھی دلچسپی رکھتے تھے۔
نقشوں میں ان کی یہ دلچسپی نوجوانی میں ایک سنجیدہ مشغلے میں بدل گئی۔ 15سال کی عمر میں انھوں نے ٹیکسی کیب، ڈیلیوری وین اور ایمبولنس کے لیے ایک ڈسپیچ سوفٹ ویئر تیار کرلیا تھا۔ ہائی اسکول کے بعد انھوں نے میسوری یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی میں داخلہ لے لیا، جہاں سے انھوں نے خود کو نیویارک یونیورسٹی ٹرانسفر کروالیا۔
نیویارک یونیورسٹی وہ جگہ تھی، جہاں انھوں نے اپنے دوستوں کے ساتھ اسٹیٹس اَپ ڈیٹ شیئر کرنے کے لیے ’شارٹ میسیجنگ‘کا سوفٹ ویئر تیار کرنے کا سوچا۔ وہ نیویارک یونیورسٹی میں زیادہ عرصہ نہ رہ سکے اور یونیورسٹی سے ڈراپ آؤٹ ہوگئے۔
ابتدائی کیریئر
بہتر کیریئر کی تلاش میں وہ 2000ء میں آکلینڈ، کیلی فورنیا منتقل ہوگئے اور وہاں بطور کمپیوٹر پروگرامر کام شروع کردیا۔ ڈسپیچ سوفٹ ویئر کی بنیاد پر انھوں نے وہاں ایک کمپنی بنائی، جو ٹیکسی کیب، کوریئر اور ایمرجنسی سروسز ڈسپیچنگ کا کام کرتی تھی۔ اسی دوران، انھوں نے اپنے اسٹیٹس کو دوستوں کے ساتھ ریئل ٹائم میں شیئر کرنے کے لیے ’شارٹ میسیجنگ سروس‘ کے تصور پر بھی سنجیدگی سے کام شروع کردیاتھا۔ کرنا یہ ہوا کہ وہ ڈسپیچ سروسز کمپنی میں تو ناکام رہے، تاہم ’شارٹ میسیجنگ سروس‘ کے تصور کو حقیقت کا روپ دینے کی سوچ کو انھوں نے ترک نہ کیا۔
اسی سلسلے میں انھوں نے ’اؤڈیو‘ نامی ویب سائٹ سے رابطہ کیا، جو ٹیکسٹ میسیجنگ میں دلچسپی رکھتی تھی۔ اس کمپنی کے شریک بانی ایوان ولیمز اور کمپنی کے ایک ایگزیکٹو بِز اِسٹون کو جیک کا آئیڈیا بہت پسند آیا۔ اکتوبر 2006ء میں ڈورسی نے ایوان ولیمز، بِز اسٹون اور ’اؤڈیو‘ کے کچھ دیگر ساتھیوں کے ساتھ مل کر ’آبویس کارپوریشن‘کی بنیاد رکھی۔ یہ کمپنی بعد میں ’ٹوئٹر‘ بن گئی۔
ٹوئٹر کی کامیابی
دو ہفتوں میں ڈورسی نے ایک بنیادی ویب سائٹ تیار کرلی، جہاں صارفین 140یا اس سے کم الفاظ پر مشتمل اپنا پیغام ریئل ٹائم میں بھیج سکتے تھے۔ اسے ‘ٹوئٹ‘ کا نام دیا گیا۔ ابتداء میں ڈورسی نے ٹوئٹر کے سی ای او کے طور پر خدمات انجام دیں، تاہم2008ء میں ایوان ولیمز سی ای او بن گئے، جب کہ ڈورسی بورڈ کے چیئرمین کے عہدے پر چلے گئے۔
دیکھتے ہی دیکھتے، ٹوئٹر، صارفین میں فوری مقبول ہونے والا سوشل میڈیا پلیٹ فارم بن گیا، جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس کے قیام کے 5سال کے اندر صارفین روزانہ پانچ کروڑ ٹوئٹ کررہے تھے۔ سال 2018ء کی پہلی سہ ماہی میں ٹوئٹر کے سرگرم صارفین کی تعداد 33کروڑ 60لاکھ تک جا پہنچی تھی، جو رواں سال یعنی 2022ء کی پہلی سہ ماہی کے اختتام تک کچھ کم ہوکر 22 کروڑ 90 لاکھ ہوگئے ہیں۔ توقع ہے کہ سال کے آخر تک ٹوئٹر صارفین کی تعداد بڑھ کر 32 کروڑ 90 لاکھ تک پہنچ جائے گی۔
ڈورسی کے اثاثے
جیک پیٹرک ڈورسی کا شمار دنیا کے امیرترین افراد میں ہوتا ہے۔ فوربز کے مطابق، 2022ء میں جیک ڈورسی کے اثاثوں کی مالیت 4ارب 40کروڑ ڈالر ہے۔
اعزازات
2008ء میں ایم آئی ٹی ٹیکنالوجی ریویو نے انھیں 35سال سے کم عمر دنیا کے 35بہترین ’مؤجدین‘ کی فہرست میں جگہ دی۔ 2012ء میں وال اسٹریٹ جرنل نے انھیں ’’سال کی بہترین اختراعی شخصیت‘‘ کے اعزاز سے نوازا۔
’نو لیپ ٹاپ‘
جیک ڈورسی سمجھتے ہیں لیپ ٹاپ رکھنا وقت کا ضیاع ہے۔ وہ اپنا ہر کام موبائل فون پر کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’موبائل فون پر مجھے یہ اختیار ہوتا ہے کہ ایک وقت میں ایک ایپ کو آن رکھوں اور باقی سب نوٹیفکیشنزکو آف کردوں، اس طرح میں ایک وقت میں ایک کام پر بھرپور توجہ مرکوز رکھ پاتا ہوں‘۔
کامیابی کے تین راز
کیریئر سے متعلق، کبھی کبھی آپ کو غیرمتوقع جگہ سے ایسا مشورہ ملتا ہے کہ اس کے بعدآپ کیریئر کو ایک مختلف زاویے سے دیکھنا شروع کرتے ہیں۔ جیک ڈورسی کے ساتھ یہ معاملہ ’دی آرٹ اسپرٹ‘ نامی کتاب پڑھنے کے دوران پیش آیا، جس کے مصنف مصور ’رابرٹ ہینری‘ ہیں۔ اس کتاب سے ڈورسی نے تین سبق سیکھے:
1-صرف نتائج نہیں کام بھی اہم ہے: ’میں نے اپنے کیریئر میں سیکھا ہے کہ کام کتنا اہم ہے، کام کے مطلوبہ نتائج حاصل کرنا کتنا اہم ہے اور اس کام کو انجام دینے کے عمل کے دوران اس عمل سے مطمئن رہنا اور اس سے لطف اندوز ہونا کتنا اہم ہے۔ اگر آپ اپنے کام میں یہ سب کچھ حاصل کرپاتے ہیں تو آپ اسےزندگی بھر انجوائے کریں گے اور اصل کامیابی یہی ہے‘، ڈورسی کہتے ہیں۔
2-آئیڈیا کے رد ہونے سے نہ ڈریں: ’بھیڑ چال کا حصہ بن جانا اور دوسروں کی نقالی کرنا آسان ہے۔ آپ سوچتے ہیں، اگر وہ اس کام میں کامیاب جارہا ہے تو آپ کو بھی یہی کرنا چاہیے۔ تاہم، کیا کبھی آپ نے سوچا ہے کہ اگر ہر شخص صرف ایک کامیاب ماڈل کا پیچھا کرتا تو دنیا میں نئی نئی ایجادات اور جدتیں کیسے ممکن ہوپاتیں؟ کیا آپ نے سوچا ہے کہ آپ جس کی نقالی کرنے جارہے ہیں، وہ کتنے برسوں کی محنت کے بعد اس مقام پر پہنچا ہے؟ اپنی انفرادیت برقرار رکھیں، اپنے کام پر بھروسہ کریں، دیر بدیر کامیابی آپ کے قدم چومے گی‘۔
3-کامیابی کے لیے مقصد: ’مقصد کے بغیر آپ ڈگمگا جائیں گے۔ ہر وقت مقصد کو ذہن میں رکھنابنیادی جزو ہے۔ چاہے آپ ٹیم بنارہے ہوں، ادارہ بنارہے ہوں یا کمپنی کی بنیاد رکھ رہے ہوں، مقصد آپ کے سامنے رہنا چاہیے۔ مقصد کے بغیر آپ کوئی ایسا کام نہیں کرسکتے جو لامحدود امکانات رکھتا ہو اور جو ماورائے وقت ہو‘۔